اللہ مزدور کا فریق
محنت کش نوجوانی سے بڑھاپے تک ڈیلی ویجز پر عمر گزار کر بیماریاں لیے خالی ہاتھ گھر چلا جاتا ہے۔
آج کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں محنت کشوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جس کا حکم اسلام دیتا ہے اور تحریری ضمانت آئین پاکستان فراہم کرتا ہے؟ بخاری شریف جلد اول میں راوی یوسف بن محمد سے حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن ان لوگوں کا فریق بنوں گا ۔
(1)۔جس نے میرے نام پر وعدہ کیا پھر وعدہ خلافی کی ۔
(2)۔جس نے کسی آزاد شخص کو بیچ کر قیمت کمائی ۔
(3)۔جس نے کسی مزدور سے کام لیا پھر کام تو پوری طرح لیا لیکن مزدوری نہیں دی۔
اگر ہم اس حدیث مبارکہ پر غور کریں تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سود خوروں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے تو اس حدیث میں وعدہ خلافی کرنے والوں، غلام بنانے والوں اور مزدور کی اجرت پوری طرح ادا نہ کرنے والوں کے خلاف خود فریق بننے کا اعلان کیا ہے ، جس کے خلاف خود اللہ فریق بن جائے، اس کی عاقبت کیا ہوگی۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس پر غور کر لینا چاہیے۔
آپ مشاہدہ کر لیں ملک بھر میں ہر جگہ صبح سے کچرا چننے والے بچے نظر آئیں گے، فٹ پاتھوں اور چوراہوں پر آپ کو چھوٹے بچوں سے لے کر 70، 80 سال تک کے مزدوروں کی قطاریں نظر آئیں گی جو اپنے اوزار سامنے رکھے روزی، روٹی کے منتظر آئیں گے الصبح کھلنے والے ہوٹلوں بیکریوں اور دیگر کاروبار میں مصروف محنت کش نظر آئیں گے سڑکوں پر مزدوری کرنے والے مرد، عورتیں اور بچے نظر آئیں گے۔
کارخانوں، ورکشاپوں، بھٹوں، بھٹیوں، چوڑیوں کے کارخانوں، قالین بافی کے کاموں میں مصروف مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اپنے حقوق سے بے خبر اور بے نیاز سرگرداں نظر آئیں گے کیونکہ بچے اور خواتین نسبتاً کم مزدوری پر میسر آجاتے ہیں۔ جبری مشقت لینے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق چائلڈ لیبر کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے 70 فیصد سے زائد صنعتی کارخانوں میں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ لیبر سسٹم کے تحت کام ہو رہا ہے، کنٹریکٹ لیبرکو سہولیات اور بنیادی حقوق تک میسر نہیں ہیں۔ محنت کش نوجوانی سے بڑھاپے تک ڈیلی ویجز پر عمر گزار کر بیماریاں لیے خالی ہاتھ گھر چلا جاتا ہے۔
محنت کش اپنے حقوق کے حصول کے لیے قانونی کارروائی کرنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں کیونکہ مقدمات کی طوالت اپیل در اپیل وکلا کی بھاری فیسیں اور متعلقہ اداروں کا عدم تعاون بلکہ جبرواستحصال انھیں آجرکے رویے اور اقدامات کو بلا چوں وچرا قبول کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ عام طور پر محنت کشوں کو اپنے حقوق اور مزدور قوانین اور ٹریڈ یونین کے معاملات سے آگہی ہوتی ہے نہ ہی کوئی ادارہ ان کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔
آجر، حکومت اور بیورو کریسی سے اثر و رسوخ اور گٹھ جوڑ کرکے اپنے مفادات اور مراعات حاصل کرلیتے ہیں اور اپنی بداعمالیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور محنت کشوں کا استحصال جاری رکھتے ہیں۔ بھٹہ مزدوروں کے بعد محنت کشوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم اور ان کا منظم استحصال ٹھیکیداری سسٹم کے تحت کیا جا رہا ہے صنعتی ادارے بیگار کیمپ اور نجی جیلوں کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔
نجکاری، رائٹ اور ڈاؤن سائزنگ، تھرڈ پارٹی ایمپلائنمنٹ سسٹم محنت کشوں کے استحصال کی قانونی صورتیں بن چکی ہیں ۔ لیبر ڈپارٹمنٹ اور دیر ادارے اربوں روپے کے کرپشن اور محنت کشوں سے ظلم و زیادتی کے عمل میں شریک ہیں جس کی وجہ سے محنت کش قانونی مراعات اور سماجی تحفظ کی اسکیموں کی سہولیات سے محروم ہیں ۔
سرمایہ داروں، جاگیرداروں، لیبر ڈپارٹمنٹ، لیبر کورٹس، کرپٹ مزدور لیڈر شپ، پاکٹ اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاسی عزائم کی حامل مزدور یونینز کے لیڈروں کے باہم اشتراک اور ریشہ دوانیاں بھی مزدور مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تقریباً تمام سیاسی رہنما جاگیرداروں، سرمایہ کاروں پیروں کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی روایت ہی انسانی حقوق سلب کرنا، ہاریوں کو قید کرنا ان کے ناک کان کاٹ دینا، ان پر کتے چھوڑ دینا، مخالفین کو نجی جیلوں میں قید کر دینا، ان کی جان، مال، عزت، آبرو سے کھیلنا ان کا وطیرہ ہے۔
حد تو یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی گھریلو ملازمین بلکہ کمسن ملازموں کے ساتھ روح فرسودہ مظالم کے واقعات میں اضافے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں اس جرم پر ایک جج اور اس کی بیوی کو عدالت سے سزا بھی ہوئی ہے۔
یہ فیصلہ ایک اچھی مثال بنے گا لیکن محض اس ایک فیصلے پر ہی انحصار نہیں کیا جاسکتا جب تک کے اس نوعیت کے جرائم میں ملوث دیگر مقدمات کا بھی فیصلہ نہیں آجاتا ہے خاص طور پر بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کا واقعہ جس میں تین سو کے قریب انسانی زندگیاں راکھ کا ڈھیر بن گئی تھیں۔ جن کے لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں وصول کرنے کے لیے مہینوں کی تگ و دو کے بعد بھی ان سے محروم رہے۔
لاشوں کی راکھ پر تمام چھوٹے بڑے سیاسی، مذہبی، سماجی رہنماؤں اور حکمرانوں نے فوٹو سیشن کروائے بڑے بڑے دعوے کیے اور بیانات داغے لیکن مظلومانہ موت کی نذر ہونے والے محنت کشوں کے لواحقین آج بھی داد رسی کے منتظر ہیں۔ جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا وہاں انتشار ہوتا ہے آج ہم اسی صورتحال سے دوچار ہیں ۔
مذکورہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں خاص طور پر ہمارے حکمرانوں، وزیروں، ججوں، ممبران اسمبلی کو غور کرنا چاہیے کہ انھوں نے اپنے حلف میں اللہ کوگواہ بنا کر اس بات کا وعدہ نہیں کیا ہے کہ وہ اللہ کی حاکمیت، ملکی آئین اور قانون کی پاسداری کریں گے؟ تو پھر ان کا عمل اللہ کے ساتھ ایفائے عہد میں آتا ہے یا وعدہ خلافی میں؟
بھٹے کے مزدوروں اور ان کے بچوں کی پیدائشی غلامی اور وڈیروں کی جیلوں میں قید ہاریوں کی غلامی کس کی گردن پر عائد ہوتی ہے؟ اور یہ کیا یہ غلامی کی قسم نہیں ۔محنت کشوں سے ان کی غربت و مفلوک الحال و مجبوری اور بے روزگاری کی وجہ سے اتنی کم اجرت پر کام لینا کہ وہ جسم و جان کا رشتہ قائم نہ رکھ سکیں اور بیوی بچوں سمیت خودکشی کے اقدامات کرنے لگیں۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ یا مراعات بھی نہ دینا۔
اگر اللہ کسی کے ساتھ فریق بن جائے تو اللہ کا انصاف بڑا دردناک ہوگا اس سے صرف رحم کی طلب اور توقع رکھنی چاہیے۔