امریکا کے عزائم

دنیا پر قبضے اور سرمایہ دارانہ نظام کی بالادستی کے لیے امریکی صدور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔


Zamrad Naqvi May 07, 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

شمالی کوریا نے اپنی جوہری تنصیب مئی تک بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان خود چل کر جنوبی کوریا گئے اور اپنے ہم منصب سے ملاقات کی۔

شمالی کوریا کے رہنما نے کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر امریکا کے حامی تو نہیں،کوریائی عوام دیکھیں گے کہ میں کوئی ایسا شخص نہیں جو جنوبی کوریا پر جوہری بم برسائے۔ ہم بھروسہ قائم کرنے کے لیے امریکیوں سے ملتے رہے اور اگر واشنگٹن جنگ ختم کرنے اور ہم پر حملہ نہ کرنے کا وعدہ کرے تو ہم کیوں جوہری بم رکھیں اور مشکل حالات میں زندگی گزاریں۔

27 اپریل کو جنوبی کوریا کے صدر اور شمالی کوریا کے سربراہ کے درمیان تاریخی ملاقات ہوئی جس میں خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے رضا مندی ظاہر کی گئی۔ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ان کی ملاقات اگلے تین سے چار ہفتوں میں ہوسکتی ہے۔

شمالی کوریا کا مذاکرات پر آمادہ ہوجانا صدر ٹرمپ کی بڑی کامیابی سمجھا جارہا ہے لیکن شمالی کوریا کو اس مقام پر لانے میں روس، خاص طور پر چین، کا بڑا کردار ہے۔دنیا کے بیشتر تجزیہ نگار ان مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں کیونکہ امریکا چاہتا ہے کہ شمالی کوریا اپنے تمام جوہری ہتھیار ختم کردے۔ اس سال کے شروع تک یہ صورتحال تھی کہ دنیا اس خوف سے کانپ رہی تھی کہ کہیں ایٹمی جنگ نہ چھڑ جائے۔

ایک دوسرے پر ایٹمی میزائل مارنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، پھر نہ جانے کیا ہوا کہ مذاکرات کی باتیں شروع ہوگئیں۔ شمالی کوریا کے سربراہ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ہمیں جوہری بم رکھ کر مشکل زندگی گزارنے کا کوئی شوق نہیں کہ انھوں نے امریکی جارحیت سے بچنے کے لیے ایٹم بم بنایا۔

دنیا کے کمزور ملکوں کا المیہ یہی ہے کہ یا تووہ امریکی جبر کے ہاتھوں ہتھیار ڈال دیں ورنہ ان پر جنگ مسلط کردی جائے گی یا پھر امریکا اپنے اتحادیوں سے مل کر ان کا ایسا معاشی بائیکاٹ کرے گا کہ وہ دانے دانے کے محتاج ہوجائیں گے۔ یہ ہے عزت و وقار سے زندہ رہنے کی قیمت۔ غریب انسان ہو یا غریب ملک دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوتا ہے۔ دونوں کا جینا محال کردیا جاتا ہے جب تک وہ ظالم طاقتور کی بالادستی قبول نہ کرے۔

بالادستی کسی فرد کی ہو گروہ یا قوم کی انسانی فطرت میں شامل ہے۔ انسان اپنے جیسے انسانوں کو غلام بناکر خوشی محسوس کرتا ہے۔ اسی کے لیے دولت ہتھیار اور نظریہ ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ بدترین غلامی نظریے کی غلامی ہے جس کے ذریعے انسان کے ذہن پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ اگر یہ بھی کام نہ آئے تو مروجہ ہتھیاروں سے کام لیا جاتا ہے۔

نظریاتی طور پر سامراج کے دو بڑے ہتھیار سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ جمہوریت ہیں۔ جس میں ایک غریب ترین انسان امیر ترین انسان کو جس کی وجہ سے وہ غریب ہے ووٹ ڈال کر اپنا رہبرو رہنما مان لیتا ہے۔ شمالی کوریا اسی غلامی کی مزاحمت کررہا ہے۔

عالمی میڈیا جو امریکا کے زیر اثر ہے نے شمالی کوریا کی اس جسارت پر دنیا میں اس کے خلاف ایسا پروپیگنڈا کیا کہ جیسے دنیا کی بقا شمالی کوریا کی وجہ سے خطرے میں ہے جب کہ حقیقت اس کے الٹ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں جوہری ہتھیار دنیا کو کئی مرتبہ موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ اپنی بالادستی کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں امریکی سامراج کے خلاف بالادستی بغاوت کے مترادف ہے۔ چاہے یہ ایران، شام کرے یا شمالی کوریا کیونکہ یہ مزاحمت دنیا کی دوسری محکوم قوموں کو بھی سامراجی غلامی کی ان دیکھی زنجیریں توڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔

شمالی کوریا ہو یا امریکا ایران جوہری معاہدہ، یہ عالمی میڈیا کی لیڈ خبر ہے کیونکہ ان دونوں کے عالمی امن پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ پاکستانی عوام کی دلچسپی کا باعث نہیں کیونکہ انھیں دوسری چیزوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ جوہری معاہدے کے حوالے سے ڈیڈ لائن 12 مئی آنے میں چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کی اس حوالے سے سرتوڑ کوشش ہے کہ کسی طرح اس جوہری معاہدے سے نکلنے کے لیے کوئی جواز مہیا ہوجائے۔ پروپیگنڈے کا ایک طوفان ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نے چند دن پیشتر خفیہ دستاویزات کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اپنے ملک میں ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے خفیہ ایٹمی پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے لیکن وہ اس حوالے سے دنیا کو قائل کرنے میں ناکام ہوگئے۔ کوئی بھی ان کے خود ساختہ دعوے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اقوام متحدہ کے نگراں ادارے عالمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں دیکھی۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈبریکا موگیرینی نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم ابھی تک اپنے ان الزامات کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے کہ ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہرے معاہدے کی خلاف ورزی کر مرتکب ہوا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی خاتون سربراہ نے کہا کہ ایران جوہری ہتھیاروں سے متعلق اپنا پروگرام ترک کرچکا ہے اور معائنوں کی صورت میں خود پر عائد ہونے والی ذمے داریاں بھی پوری کررہا ہے۔

ادھر برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایک مرتبہ پھر معاہدے کو برقرار رہنے کو دنیاکے امن و سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے وارننگ دی ہے کہ امریکا کے جوہری معاہدے سے نکلنے میں عالمی جنگ کا خطرہ ہے۔ اندازہ کریں کے امریکا کے ماضی کے پیش نظر اس کے اپنے اتحادی بھی اس پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ یہ بھی لکھ رکھیں کہ ایران کے بعد امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرف رخ کرے گا۔

شمالی کوریا میں بھی امریکی سامراج نے وہی کیا جو ویتنام، افغانستان، عراق اور ایران کے خلاف کرتا رہا ہے۔ شمالی کوریا پر قبضے میں ناکامی کے بعد امریکا نے وہاں پر تین سالہ جنگ مسلط کردی جس میں بیشمار لوگ مارے گئے اور امریکی فوجوں نے کوریائی خطے کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ 1950ء کی دہائی کی ابتدا میں یہاں پر ہی بس نہیں اس موقعہ پر دو امریکی صدور ہنری ٹرومین اور آئزن ہاور نے شمالی کوریا پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کرلیا لیکن سوویت یونین کے خوف سے امریکا ایسا نہ کرسکا کیونکہ سوویت یونین بھی جوہری طاقت بن چکا تھا۔

دنیا پر قبضے اور سرمایہ دارانہ نظام کی بالادستی کے لیے امریکی صدور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں ایٹمی جنگ چھیڑنے جارہے ہیں جو بالآخر پورے خطے کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردے گی۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں