رمضان میں مہنگائی کی روک تھام

امسال ماہ رمضان کی آمد سے قبل ناجائز منافع خوروں نے اشیائے صرف اور خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔


Shabbir Ahmed Arman May 08, 2018
[email protected]

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ، اس ماہ مبارک میں اللہ کے مومن بندے خدائے رحیم کی رحمتوںکے طلب گار اور اپنی عبادات میں مصروف ہوتے ہیں ۔ ایسے میں ذاتی لالچ میں مگن خوف خدا سے عاری بیوپاری حضرات اوروں کے لیے زحمت اور اذیت اور اپنے لیے غضبناک عذاب لانے پر مصر رہتے ہیں۔

دین اسلام روزہ داروں کے لیے آسانیاں اور سہولیات فراہم کرنے کا درس دیتا ہے لیکن ناجائز منافع خور حضرات رمضان المبارک میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کرکے ان کے لیے معاشی تکلیف کا باعث بنتے ہیں ۔ دکاندار حضرات رمضان میں استعمال ہونے والی اشیا کی من مانی قیمت وصول کرکے اپنے لیے عذاب چنتے ہیں ۔

امسال ماہ رمضان کی آمد سے قبل ناجائز منافع خوروں نے اشیائے صرف اور خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق حکومتی گرفت نہ ہونے کے باعث منافع خور ، ذخیرہ اندوز صارفین کو مہنگی اشیا فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ، ہر چند کہ ضلع انتظامیہ ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائیاں کرتی ہیں اور ان کارروائیوں کے دوران مجسٹریٹ صرف دس منٹ کے لیے کسی بازار یا مارکیٹ میں ٹھہرتا ہے اور مہنگائی کا طوفان بھی اسی دس منٹ کے لیے تھمتا ہے ۔

اس طرح حکومت وقت کی جانب سے کیے گئے اقدامات روز مرہ اشیا کی قیمتوں پر نظر رکھنے ، ضروری اشیا بروقت اور مناسب قیمت پر لوگوں کو دستیاب ہونے ، رمضان المبارک میںعوام کو اربوں روپے رمضان ریلیف پیکیج دینے کے دعوے اور دیگر اقدامات بے کار ثابت ہوتے رہے ہیں اور عوام کو کبھی بھی رمضان میں سستی اشیا کی فراہمی کہیں بھی نظر نہیں آتی ۔

امسال وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ارب 73کروڑروپے کا رمضان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے لیکن رمضان پیکیج سبسڈی والی اشیا یوٹیلٹی اسٹور کے ذریعے فروخت کرنے کے فیصلے سے پورے ملک کے صارفین استفادہ حاصل نہیں کرسکیں گے ، یہ اطلاعات عام ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے یو ٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے مافیا کے ساتھ ساز باز کرکے کروڑوں روپے کمالیتے ہیں ۔

یاد رہے ملک کی آبادی 21کروڑ ہے اور ملک بھرمیں یو ٹیلٹی اسٹورزکی کل تعداد 5491ہے ۔ اب ذرا تصورکریں کس طرح ملک کے کروڑں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہوسکتا ہے ۔لہٰذا حکومت کا سبسڈی والی اشیا یوٹیلٹی اسٹورز کو فروخت کرنے کا فیصلہ قطعی غلط ہے ۔یہ منصوبہ ہمیشہ کی طرح ناکام نظرآرہا ہے ہونا یہ چاہیے کہ حکومت رمضان میں اوپن مارکیٹ میں فروخت ہونے والی اشیائے صرف کی قیمتوں میں سبسڈی کا اعلان کرتی تاکہ عام صارف کو اپنے ہی محلے کی دکانوں پر کم قیمت میں اشیا دستیاب ہوتیں اور صارفین روزہ رکھ کر یوٹیلٹی اسٹوروں پر لمبی لمبی لائنوں میں لگنے کے بجائے عبادت میں وقت گزارتے ۔ وفاق اور تمام صوبوں کی حکومتیں اور کمشنری نظام مہنگائی کا جن امسال قابو کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اللہ کے نیک بندے رمضان کا استقبال کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ظالم تاجر ناجائزمنافع خوری کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ، ابھی سے ہر چیزکی قیمتیں بلند کی جارہی ہیں لے دے کہ سانس باقی بچا ہے اس کی قیمت وصول کرنے کے لیے کے الیکٹرک والے مردم کش گرمی میں بے لگام لوڈ شیڈنگ کی صورت میں حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔

ایسے میں رمضان میں ناجائزمنافع خوروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کے لیے کسی سطح پر کوئی حکمت عملی نظر نہیں آرہی ہے ، اس چشم پوشی کو کیا سمجھا جائے ؟ ناجائزمنافع خوروں کو صرف تنبیہ کرکے چھوڑ نے سے مہنگائی کو قابو نہیں کیا جاسکتا ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاؤں کے اقدامات کیے جائیں ۔

ادارہ شماریات کا کام صرف بڑھتی گھٹتی مہنگائی کے اعداد و شمار بیان کرنا ہے ،ایک غریب آدمی جس کی مہینے بھر کی کمائی پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے زندگی کس الم میں گزار نے پر مجبور ہیں؟ کیا کسی حکمران کو اس کا احساس بھی ہے ؟ سب کے سب اپنی نو ٹنکیوں میں مصروف ہیں اور ان کے اللے تللے تالیاں بجا بجا کر غریبوں کی زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کررہے ہیں ۔ کوئی تو ہو جو غریبوں کی داد و فریاد پر کان دھرے ! سرکاری محکموں کے بیشتر افسران اور نچلے درجے کے ملازمین کی بھی اکثریت اپنی اوپر کی کمائیوں میں مصروف ہیںاوپر سے لے کر نیچے تک گند ہی گند ہے صفائی کون کریگا ؟

کھجور جس سے افطارکرنا مسنون ہے رمضان المبارک سے کچھ روز قبل ہی اس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی مانگ درآمدی کھجوروں سے زیادہ ہے ۔ پاکستان میں کھجورکی فصل پندرہ جولائی سے پندرہ اگست تک تیار ہوتی ہے جس کے بعد اسے اسٹورکرکے رمضان المبارک کے قریب مارکیٹ میں لایا جاتا ہے ۔ روزہ داروں کے لیے اس سوغات اور افطار کے وقت دستر خوان کی زینت کھجورکی قیمت غریب صارف کے دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے ۔ کچھ تو خوف خدا کریں ! بازاروں میں پھل فروشوں نے بھی ابھی سے جو لوٹ مار مچا رکھی ہے اس نے تو مہنگائی کو پر لگا دیے ہیں ۔

علاوہ ازیں سبزیاں ، ٹماٹر ، پیاز، آلو ، مرغی ، گوشت ، دودھ ، دہی ، انڈے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کپڑے ، ریڈی میڈ ملبوسات ، چپل جوتے ، میڈیکل ادویات سمیت بچوں کے ٹوفیاں وغیرہ سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی آگ لگادی گئی ہے ۔ پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرنا ہمارے یہاں معمول کی بات بن چکی ہے جس کے بڑھتے ہی ہر چیز کی قیمت خود بہ خود بڑھ جاتی ہے ۔

حالیہ قومی بجٹ جو قبل از وقت پیش کیا گیا ہے پر کوئی اعتبار نہیں کہ یہ کاغذی اعداد و شمار غریبوں کے لیے آسانیاں پیدا کرسکے کیوں کہ آمدنی کم اور خسارہ زیادہ ہے اور خسارہ پورا کرنے کے لیے غریبوں کا سرمہ بنانا لازمی امر ہوتا ہے سو آنے والے دن مہنگائی کے حوالے سے مزید گمبھیر ہوسکتے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں کے بقول دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کم ہے یعنی ابھی تک ملک کے غریب عوام زندہ کیوں ہیں والی بات ہے ۔

ایسا لگ رہا ہے کہ غریبوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لیے دو وقت پیٹ بھرنا دشوار ہوچکا ہے ۔ تاہم اسی ملک (پاکستان ) میں امیر طبقہ اپنے پالتوں کتے بلیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بیرون ملک سے لاکھوں روپے کی خوراک منگواتے ہیں یعنی غریب بھوک سے مررہے ہیں اور امیروں کے پالتوجانور زائد خوراک کھانے سے پھل پھول رہے ہیں ۔

یہ امر قابل غور ہے کہ ملک میں کتوں اور بلیوں کی غذاکی درآمد ات پر سالانہ 3کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے جارہے ہیں جن میں سے پالتوں کتے کی ماہانہ خوراک پر دس ہزار روپے سے زائد جب کہ پالتو بلی کی خوراک پر سات ہزار روپے سے زائد اخراجات آتے ہیں اور اسی پاکستان میں ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ پندرہ سے اٹھارہ ہزار ہے جسے اپنے کنبے کی مہینہ بھرکفالت کرنا ہے تو ذرا غورکریں یہ کیسے ممکن ہے ؟

دوسرے معنوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہا ں غریبوں سے زیادہ پالتوجانوروں کی قدر ہے ۔ یہ طبقاتی تقسیم ہمیں کہاں لے جاکر ڈبوئے گی، کچھ نہیںکہا جاسکتا ۔ البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا انجام قدرت کا فیصلہ ہوگا ، جب غریب غالب آئیں گے ۔ یہ کیسے ہوگا ؟ یہی تو قدرت کا کمال ہوگا جس کے یہاں ہمیشہ انصاف ہوا ہے اور انصاف ہوتا رہے گا ۔ اس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ بس صبر شرط ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔