چھوٹی نیکیاں عظیم کام
اداروں کی بقا و عزت اسی میں ہے کہ ان کو عزت دی جائے۔ آج اداروں کے خلاف بولنا فیشن بن گیا ہے۔
NEW YORK:
اسکاٹ لینڈ کا ایک غریب کسان اپنے کھیتوں کی طرف رواں دواں تھا، اچانک اس نے چیخنے چلانے کی آوازیں سنیں۔ وہ فوراً آوازوں کی سمت لپکا تو دیکھا کہ ایک بچہ دلدل کے ایک جوہڑ میں ڈوب رہا ہے۔ کسان نے پہلے تو بچے کو تسلی دی، پرسکون کیا اور درخت کی ایک شاخ توڑ کر بچے کو پکڑائی اور کہا اس کو مضبوطی سے پکڑو میں تمہیں کھینچ لیتا ہوں۔ کچھ دیر بعد بچہ باہر آگیا۔ کسان نے کہا چلو گھر چلو، میں تمہارے کپڑے بدلواتا ہوں، بچہ نہ مانا اور کہا میرے والد پریشان ہوں گے اور اپنے گھر چلا گیا۔
اگلی صبح ایک شاندار بگھی کسان کے دروازے پر آ کر رکی اور اس میں سے ایک بارعب اور شاندار آدمی اترا اور کسان کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے بچے کی جان بچائی اور کسان سے کہا کہ وہ جو چاہے اپنے لیے طلب کرے، مگر کسان نے سختی سے انکار کردیا۔ آخر وہ بگھی والا آدمی واپس جانے لگا تو اس کی نظر ایک چھوٹے لڑکے پر پڑی۔ اس نے کسان سے دریافت کیا کہ یہ بچہ کون ہے؟ کسان نے کہا کہ یہ بچہ میرا لڑکا ہے۔ یہ سن کر اس آدمی نے کسان سے درخواست کی کہ اس بچے کو اسے دے دیا جائے تاکہ اس کی تعلیم کا بندوبست ہوسکے۔ کسان نے آخر یہ بات منظور کرلی۔
بچہ اس آدمی کے ساتھ چلا گیا اور لندن میں اپنی پڑھائی لکھائی پر بھرپور توجہ مرکوز رکھی اور اتنا پڑھا کہ آج کی دنیا اسے الیگزینڈر فلیمنگ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ فلیمنگ جس نے پنسلین ایجاد کی۔ پنسلین کی ایجاد سے لاکھوں کروڑوں مریضوں کی جان بچانا ممکن ہوگیا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ کسان نے امیر آدمی کے جس بچے کی جان بچائی تھی وہ شدید بیمار ہوا اور اسی فلیمنگ کی پنسلین نے اس کی جان بچائی۔ وہ رئیس آدمی ایڈولف چرچل تھے اور ان کا بیٹا ونسٹن چرچل تھا جوکہ جنگ عظیم میں برطانیہ کا وزیراعظم بنا۔
نہ کسان کو معلوم تھا کہ میں جس بچے کی جان بچا رہا ہوں وہ آیندہ کا وزیراعظم ہوگا اور نہ اس امیر آدمی کو معلوم تھا کہ میں جس بچے کو تعلیم دلانے لندن لے جا رہا ہوں وہ مشہور زمانہ سائنس دان اور موجد نکلے گا۔ مگر کسان اور امیر آدمی دونوں کی چھوٹی نیکیاں عظیم کاموں میں ڈھل گئیں، جس کے دوررس نتائج نکلے۔
آج جب ہم اپنے ملک کی اشرافیہ و عوام پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہم تو وہی فصل کاٹ رہے ہیں جوکہ ہم نے بوئی تھی۔ ہم نے ایسے کام ہی نہیں کیے جوکہ مستقبل کے لیے فائدہ مند ہوتے۔ ہم نے اپنی تعلیمی درسگاہوں کو کسی ریسرچ، کسی تجربے کے لیے تو مختص نہیں کیا، مگر نقل کا رجحان عام کرکے انھیں تحقیق و جستجو سے دور کردیا۔
مختلف حکمران جو اس ملک پر مسلط ہوئے انھوں نے اپنے اقتدار کو تو دوام بخشنے کی پالیسیوں پر زور دیا مگر ایسے اقدامات نہ کیے جن سے عوام اور خواص دونوں کو فائدہ پہنچتا۔ کوئی یونیورسٹی یا تحقیقی ادارہ ایسا نہ بنایا جہاں قوم کے نوجوانوں کو فکری و نظری تعلیم دی جاتی۔ ملک کی دولت لوٹ کھسوٹ کر بیرون ملک لے جانے والے اپنے کسی اقدام کو پبلک کریں کہ انھوں نے کوئی بھی ایسا کام کیا ہو جوکہ حقیقت میں دوررس نتائج کا حامل ہو اور خلق خدا کو فائدہ پہنچانے والا ہو۔
الیکشن نزدیک ہے، دو دو تین تین بار ملک میں اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں، اس کے باوجود کوئی منشور، حکمت عملی یا کوئی پروگرام سرے سے ہے ہی نہیں، سوائے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کے یا ''مجھے کیوں نکالا، ووٹ کو عزت دو''۔ ارے کوئی ان معصوموں کو سمجھائے کہ ووٹ کی اصل عزت ووٹر کی عزت میں پنہاں ہے۔ ووٹر کی عزت کا مطلب ووٹر کے حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ آج جو حکمران کر رہے ہیں وہی ان کے ماننے والے کر رہے ہیں۔
اداروں کی بقا و عزت اسی میں ہے کہ ان کو عزت دی جائے۔ آج اداروں کے خلاف بولنا فیشن بن گیا ہے۔ فوج پاکستان کا ایک مضبوط ادارہ ہے، آج پاکستان، برما، شام، عراق کی صف میں اگر نہیں کھڑا ہے تو صرف اور صرف فوج کی وجہ سے۔ دنیا کی مانی ہوئی فوج جس نے حالت امن ہو، جنگ ہو، قدرتی آفات ہوں، ہر موقع پر بڑھ چڑھ کر اپنے ہونے کا احساس دلایا ہے۔
ان لوگوں سے صرف یہ کہنا ہے جوکہ ملک کے اداروں پر تبرا بھیج رہے ہیں، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں، اعلیٰ قابل احترام شخصیات کو رسوا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، وہ ملک و قوم دونوں کے دشمن ہیں۔ اگر یہ گھر تباہ ہوا تو بربادی آپ کا مقدر بھی ٹھہرے گی۔ دوسروں کے گھر کو جلانے کی کوشش میں ہاتھ اپنے بھی جلتے ہیں، اس لیے ایسی نیکیاں کریں جس کے دوررس نتائج نکلیں، نہ کہ ایسے گناہ جن کے بدترین نتائج نکلیں۔