لاہور کے تاریخی سائیکل سوار
فلمی اداکار بننے سے رہ گئے تو سوچا کہ چلو تنقید لکھتے ہیں‘ مگر اس فن میں پھر صاحب کمال ٹھہرے۔
KARACHI:
ایک عزیز نے ہم سے پوچھا کہ یہ جو آپ نے سلیم اختر کے بارے میں کالم باندھا ہے تو اچھا کیا۔ باقی امیدواروں کی اتنی پبلسٹی ہو رہی ہے تو اگر ادبی حلقہ سے ایک امیدوار کھڑا ہوا ہے تو اس کے حق میں بھی تو کوئی مہم چلنی چاہیے۔ مگر آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ کس پارٹی نے انھیں ٹکٹ دیا ہے۔ ہم نے اس عزیز کو سمجھایا کہ اگر وہ واقعی الیکشن کے لیے کھڑے ہوتے تو وہ تو احمد ندیم قاسمی کی پارٹی ہی کی ٹکٹ پر کھڑے ہوتے۔ مگر ہم نے تو ان کا تذکرہ اس تقریب سے کیا تھا کہ وہ ہمارے مشہور ادبی نقاد ہیں اور ایک بیماری بھگتنے کے بعد اب انھوں نے شفا پائی ہے۔
اس نے کہا کہ آپ ہی کے یہاں نہیں اور کئی ایک اخباروں میں بھی ان کے بارے میں کالم بمعہ تصویر چھپا دیکھا تھا۔ اس سے ہمیں یہ گمان گزرا کہ وہ بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ باقی رہا ان کے بیمار ہونے کا معاملہ تو آج کل تو الیکشن کے بیماروں کا ذکر فکر ہے۔ وہی بیماری عروج پر ہے۔ اور یہ بیماری راوی نے سیاستدانوں کے لیے لکھی ہے۔
ہم سلیم اختر کے حق میں بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے زندگی میں دو ہی کام کیے ہیں۔ یا تنقید لکھی ہے یا سائیکل چلائی ہے۔ اگر انھیں الیکشن لڑنا ہوتا تو انھی دو میں سے کسی حلقہ سے کھڑے ہو سکتے تھے۔ ویسے ثانی الذکر حلقے سے کھڑے ہو کر تو وہ مشکل ہی سے کامیاب ہو سکتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ زندگی میں زیادہ خلوص سے انھوں نے سائیکل ہی چلائی ہے۔ تنقید نگاری تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے؎
یہ بھی خیال سا کچھ خاطر میں آ گیا تھا
فلمی اداکار بننے سے رہ گئے تو سوچا کہ چلو تنقید لکھتے ہیں' مگر اس فن میں پھر صاحب کمال ٹھہرے۔
باقی ان کے سائیکل سوار ہونے کے اصل گواہ اور مداح مسعود اشعر ہیں۔ اور ان کی اس ضمن میں گواہی ملتان کی حد تک تو بجا ہے' مگر لاہور کے اپنے سائیکل سوار ہیں۔ ان کے مقابلے میں سلیم اختر کہاں ٹھہرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انھوں نے عطاء الحق قاسمی کی سند پیش کی ہے۔ یہ سند معتبر نہیں۔ وہ آگے موٹر سائیکل کے شہسوار تھے۔ اب موٹر سوار ہیں۔ اور چونکہ وہ جاڑے' گرمی' برسات ہر موسم میں سفر میں رہتے ہیں۔ اس واسطے سے ہوا کے گھوڑے پر سوار نظر آتے ہیں۔
لاہور نے ایسے منتخب روزگار سائیکل سواروں کو جنم دیا تھا جن کی وجہ سے سائیکل کی سواری وجہ عزت قرار پائی۔ گنے چُنے چار نام ہیں۔ اول مبارک احمد' دوم ڈاکٹر نذیر احمد' سوم قیوم نظر' چہارم راجہ کلیم اللہ۔ اس جناب کی سائیکل نے اس تقریب سے نام پیدا کیا کہ وہ اس پر سوار ہو کر منٹو پارک کے اس جلسے میں گئے تھے جس میں قرار داد لاہور یا کہئے کہ قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ پھر انھوں نے آخر دم تک اس سائیکل کو اپنے سینہ سے لگائے رکھا۔ جب تک جیتے رہے اسی سائیکل پر ٹی ہاؤس آتے رہے۔ اس سائیکل پروری پر انھیں انعام میں جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ایک نئی سائیکل عطا ہوئی تھی۔ مگر نئی نو دن پرانی سو دن' وہ اپنی اسی پرانی سائیکل سے پیوستہ رہے۔
ویسے تو اس زمانے میں اس شہر میں کتنے سائیکل سوار مارے مارے پھرتے تھے۔ مگر مبارک احمد اور قیوم نظر کی بنیادی وجہ شہرت ان کی نئی شاعری تھی۔ باقی یوں تھا کہ قیوم نظر نیکر پہنتے تھے کرکٹ کھیلتے تھے' سائیکل کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق بھی چلاتے تھے اور نئی شاعری کرتے تھے۔ کرکٹ کے باب میں ان کا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے کرکٹ کی ساری اصطلاحات کو اردو کا جامہ پہنا دیا تھا۔
ادھر ڈاکٹر نذیر احمد گورنمنٹ کالج لاہور کے مقبول بلکہ مقبول ترین استاد تھے۔ پھر پرنسپل بنے۔ مگر ہر رنگ میں وہ اپنی ریسنگ سائیکل سے پیوستہ رہے۔ گورنمنٹ کالج کے نک چڑھے پروفیسروں نے انگلیاں بھی اٹھائیں۔ مگر ان کی سائیکل والی آن پر آنچ نہیں آئی۔
اور مبارک احمد' سب سے بڑھ کر سائیکل سوار تو وہی تھے۔ عمر بھر دو چیزوں سے پیوستہ رہے۔ سائیکل سے اور نئی شاعری سے۔ نئی شاعری میں ان کی ہیروئنیں بدلتی رہیں۔ کشور ناہید' سارا شگفتہ' عذرا عباس وغیرہ وغیرہ ۔ مگر سائیکل روز اول سے وہی ایک چلی آتی تھی۔ اس سائیکل کے ہوتے ہوئے انھوں نے کسی اور سواری کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ اسی سائیکل پر سوار ہو کر انھوں نے نئی شاعری کا پیغام دور دور تک پہنچایا ۔ اور کیا جوش تبلیغ تھا کہ نئی شاعری کا پیغام لے کر کراچی کے لیے نکلے۔ سائیکل پر سوار اسٹیشن تک گئے۔ معہ سائیکل کے ریل گاڑی میں سوار ہوئے۔ ٹوکتا کون' ریلوے کے محکمہ سے وابستہ تھے۔ کراچی اسٹیشن پر سائیکل لے کر اترے۔ سائیکل پر سوار ہو کر چلے عذرا عباس کے دولت کد ے کی طرف۔
وقت کے ساتھ ساتھ نئی شاعری بھی اچھی خاصی پرانی ہو گئی۔ مگر وقت نے مبارک احمد کا اور ان کی سائیکل کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ویسے دیکھا جائے تو وقت کا اور سواری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب وقت بدلتا ہے تو سمجھ لو کہ سواری کے بدلنے کا بھی وقت آ گیا۔ اسی برصغیر میں کیسا کیسا وقت آیا اور اس کے ساتھ کیسی کیسی سواری آئی۔ بیل گاڑی سے ریل گاڑی تک کتنی رنگا رنگ سواریاں آئیں اور کیسے کیسے سوار اور شہسوار نمودار ہوئے۔ جب ہم نے ہوش سنبھالا تو فٹن' پینس' بگھی' رتھ' شکرم' ٹم ٹم ایسی ساری سواریاں جن میں کچھ رئیسانہ تھیں کچھ عوامی رنگ کی دوڑتی دوڑتی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھیں۔
ہم نے جب پاکستان کے ظہور کے بعد آنکھیں مل کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دو سواریاں مال روڈ پر بہت نمایاں نظر آئیں۔ لیڈیز سائیکل اور ڈبل ڈیکر (بس)۔ صبح ہی صبح کتنی لیڈیز سائیکلیں یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج کی طرف دوڑتی نظر آتی تھیں۔ انھیں سائیکلوں کے آگے پیچھے مردانہ سائیکلیں اپنی اپنی منزل کی طرف سمجھ لیجیے کہ دفتروں کی طرف رواں دواں دکھائی پڑتیں۔ اور ڈبل ڈیکر' واہ کیا خوب سواری تھی۔
بالائی منزل میں جا کر اطمینان سے بیٹھ جائیے۔ نیچے والی منزل کی ٹھسا ٹھس سے بھی بچ جائیں گے اور پھر شہر کی سیر بھی ہو جائے گی اور ہاں تانگہ' شرفا کس وقار کے ساتھ سواریوں والے تانگوں سے الگ ایسے سجے بنے تانگہ میں سوار نظر آتے تھے۔ بگھی والی شان تو اب کہاں تھی۔ مگر اس سواری کا بھی اپنا ایک ٹھسّا تھا۔ مگر کتنی جلدی یہ زمانہ اپنی ساری سواریوں کو سمیٹ کر دیکھتے دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ لیڈیز سائیکل غائب' ڈبل ڈیکر ندارد' تانگہ کا مال روڈ پر داخلہ بند۔
اب جو آنکھیں پھاڑ کر اور کانوں میں انگلیاں دے کر دیکھا تو ایک بہنگم شور والی سواری رکشا نظر آئی۔ اس سے بڑھ کر شور اس سواری کا تھا جسے اسکوٹر کہتے ہیں اور اب مال پر موٹروں کی ریل پیل تھی۔ ٹریفک خدا کی پناہ ایک تو شور' پھر تیز رفتاری خدا کی پناہ اور پھر آگے پیچھے اتنی تعداد میں کہ سواری سے سواری بھڑتی نظر آتی ہے۔ آخر مبارک احمد کی سائیکل اپنے سوار کے ساتھ خاموشی سے عزت کے ساتھ رخصت ہو گئی۔