محنت کشوں کی ناحق اموات

یہ الیکٹریکل ڈپارٹمنٹ کا کمرہ تھا جس میں عام طور پر رش لگا رہتا ہے۔


Zuber Rehman April 18, 2013
[email protected]

KARACHI: کشمور سے کموں شہید تک چوڑائی میں دریائے سندھ پھیلا ہوا ہے۔ اس کے سیلابی پانی سے ایک وسیع و عریض علاقہ بیلوں اور جنگلوں کی شکل اختیار کرچکا ہے، جس کو کچے کا علاقہ کہتے ہیں۔ اس جنگل بیلے کی سرحد کے ساتھ ہی جنوب میں قومی شاہراہ سے بالکل متصل ڈھرکی شوگرملز ہے، جس کو دو سال قبل چند مہینوں کے ریکارڈ ٹائم میں مکمل کیا گیا ہے۔ فیکٹری کی تعمیر کے لیے اس جلد بازی کی وجہ کسی گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اندراج نہیں تھا بلکہ اس وقت ایک سیاسی گھرانہ چینی بنانے کے شعبے میں داخل ہوکر حیران کن منافع کمانے کے چسکے سے آگاہ ہوچکا تھا ۔

تین فیکٹریوں سے اربوں روپے کماکر اب چوتھے کارخانے کی تعمیر کرتے ہوئے نہ تو فیکٹری کے میٹریل کے معیار کا خیال کیا گیا اور نہ ہی اس تنصیباتی کام میں حفاظتی اصولوں کی پرواہ کی گئی تھی۔ موسم بہار کے بالکل وسط میں 16 مارچ کی خشک رات نے جب قرب و جوار کی آبادی کو نشیلی نیند کی گرفت میں جکڑا ہوا تھا تو سناٹے کو ڈھرکی شوگرملز کی دیوہیکل مشینیں کاٹ کر اپنی گھن گرج سے یہ پیغام دے رہی تھی کہ ''جب سب سو جاتے ہیں تو مزدور تب بھی جاگ رہے ہوتے ہیں اور اپنی محنت سے لوگوں کی ضروریات کی چیزوں کو تخلیق کر رہے ہوتے ہیں''۔

یہ الیکٹریکل ڈپارٹمنٹ کا کمرہ تھا جس میں عام طور پر رش لگا رہتا ہے مگر رات کے اس پہر اس وقت صرف چار افراد فیکٹری میں بنائی جانے والی بجلی اور اس کی ترسیل کے نظام کی نگہداشت کر رہے تھے۔ اس شوگر ملز کو چلانے کے لیے چھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ گنے کے چھلکوں کو جلاکر بوائلر سے 350 سینٹی گریڈ کی حدت والی بھاپ پیدا کی جاتی ہے، جس کو 2225 کلوگرام پریشر سے پاور ہاؤس پہنچاکر ٹربائنوں کے پنکھوں سے ٹکرایا جاتا ہے، جن کے گھومنے سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ڈھرکی شوگرملز کے بوائلر سے نکلنے والی بھاپ کا پائپ اس دفتر میں سے بھی گزرتا تھا جہاں 16 مارچ کی رات کے درمیانی پہر الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کے سجاد انور، ساجد جمیل، محبوب اکرم اور ابوبکر محسن اپنے کام میں محو تھے کہ اسکریپ پائپ ایک دھماکے سے بم کی طرح پھٹا اور پائپ لائن سے گزرتی بھاپ نے ان مزدوروں کو موت بن کر اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

دھماکا اتنا شدید تھا کہ فیکٹری کا شور اس میں دب کر رہ گیا اور اس کی شدت سے قرب و جوار کے تمام ڈپارٹمنٹس میں لگے ہوئے شیشے ٹوٹ گئے۔ شدید جھلسے ہوئے ان مزدوروں کو 60 کلومیٹر دور شیخ زید اسپتال رحیم یار خان میں لایا گیا مگر ''برن یونٹ'' نہ ہونے کی وجہ سے سی ایم ایچ بہاولپور ریفر کردیا گیا جو 3 گھنٹے کی مسافت پر اور ڈھرکی سے تقریباً 350 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 2 دن کے علاج کے دوران ان زخمیوں میں سے صادق آباد اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والے سجاد انور اور ساجد جمیل جاں بحق ہوگئے جبکہ 23 مارچ کو دوسرے 2 مزدور محبوب اکرم اور ابوبکر محسن بھی چل بسے۔

لالچ اور حرص میں مبتلا سرمایہ داروں کے بینک اکاؤنٹس میں ہر سال 2 ارب روپے سے زائد کا منافع جمع کرانے والی اس شوگر ملز کے مزدور موت کے منہ میں کام کرتے اور پے درپے حادثات کا شکار ہوکر اپنے پیچھے خاندانوں کو غربت اور مایوسی کی کھائی میں دھکیل جاتے ہیں، مگر بدقسمتی سے میڈیا میں ان خونی فیکٹریوں میں مجرمانہ غفلت اور لالچ کی بنا پر ہونے والے ان خونچکاں حادثات کے بعد نام کے بجائے ''مقامی فیکٹری'' کا مجرمانہ لفظ استعمال کرکے فیکٹری مالکان کے جرم کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔دوسری طرف مالکان اور انتظامیہ قیمتی جانوں کے نقصان کو محض ایک حادثہ قرار دے کر تسلیم کروا لیتے ہیں۔ کیونکہ یہی فیکٹریوں کے مالکان مختلف سیاسی پارٹیوں کے کلیدی عہدوں اور ریاستی مناصب پر فائز رہتے ہیں۔

مزدوروں کی ناحق موت کے ذمے دار مالکان اس ملک کے حکمران بھی ہیں اور قانون ساز بھی، اس لیے ان کے خلاف کوئی سوموٹو ہوتا ہے اور نہ نام نہاد قانون حرکت میں آتا ہے۔ فیکٹریوں کے ''اسکریپ کردہ میٹریل'' سے تیار ہونے والی اشیا کی وبا پاکستان میں عام ہے۔ اس علت کی وجہ سے ملک بھر میں ایسی فیکٹریوں میں پے درپے حادثات ہوتے اور قیمتی جانوں کا نقصان کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری طرف مینٹیننس درست طریقے سے نہ ہونے کی وجہ بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت اور لالچ ہے، پیسے کو انسان کی زندگی پر ترجیح دینے کی نفسیات سے کئی خاندان اجڑتے اور برباد ہوتے ہیں۔

بالخصوص بلدیہ ٹاؤن کراچی کے دلخراش واقعے پر مزدوروں اور کسانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے بیان اور مالکان کے خلاف درج مقدمے کی واپسی کے احکامات نے مالکان کو من مانی کرنے اور مزدوروں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ کئی چھوٹے کارخانوں میں خونی حادثات تواتر سے ہورہے ہیں۔ قانون اور مقامی انتظامیہ، مالکان اور سرمایہ داروں کی حمایت میں سرگرم رہتے ہیں کیونکہ یہ ملک اور اس کی حکمرانی انہی لوگوں کے قبضوں میں رہتی ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ان فیکٹریوں کی پرتعیش اقامت گاہوں اور کلبوں میں اپنی تھکن اتارتے ہیں اس لیے وہ مزدور کے بجائے مالکان کی خیرخواہی کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بیشتر فیکٹریاں ہی غیرقانونی طور پر بنی ہوئی ہیں اور ان کے متعدد شعبے، حدود اربع، عمارت، فائرفائٹنگ اور سیفٹی ڈپارٹمنٹ قانون اور قاعدے کے بجائے مالکان کے پیسے بچانے کے نقطہ نگاہ سے یا تو موجود نہیں ہیں یا پھر بس نام کے ہیں۔ اسی نفسیات کے تناظر میں ملک بھر کی طرح اس علاقے میں بھی حادثات کے شکار مزدوروں کو طبی امداد دینے کے لیے درکار اسپتال تعمیر نہیں کیے جارہے ہیں۔ نتیجتاً مزدور حادثات کا شکار ہوتے ہیں تو کبھی ایمبولینس نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو پھر مزدور کا تڑپتا ہوا جسم فوری طبی امداد کے لیے مخصوص وقت میں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال میں ریفر ہوتا رہتا اور راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔

گھوٹکی ، صادق آباد اور رحیم یار خان کے اضلاع جو کسی حد تک صنعتی زون بن چکے ہیں، میں مزدوروں کے لیے خصوصی اسپتال نہیں ہیں۔ حالانکہ اس مد میں مزدوروں کی اجرت سے ہر ماہ باقاعدہ کٹوتی کی جاتی ہے اور جمع شدہ اربوں روپے سندھ اور پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈ کے اکاؤنٹس میں پڑے ہیں۔ حیدر آباد اور ملتان کے درمیان فعال برن یونٹ بہاولپور میں ہے حالانکہ اس کی ضرورت ایسے علاقوں میں بہت شدت سے ہے جہاں جلنے اور بھڑکنے والی گیسیں نکالی اور صاف کی جارہی ہیں، بجلی بنانے کی غرض سے بوائلر اور بائیوگیس پلانٹ کام کرتے ہیں۔ متذکرہ بالا وسیع و عریض صنعتی علاقے میں حادثات سے نمٹنے اور انسانی جانیں بچانے کے پیش نظر کسی قسم کا بندوبست نہیں ہے۔

اس ظالمانہ صورت حال سے ریاست اور اس پر براجمان حکمرانوں کی سفاکیت عیاں ہوتی ہے۔ شوگر ملز میں مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اموات کا شکار ہونے والے ان مزدوروں کے لواحقین کو کون ''انصاف'' فراہم کرے گا؟ بلدیہ ٹاؤن اور ہر روز ہونے والے درجنوں واقعات اور ان پر حکمرانوں کے ردعمل ثابت کرتے ہیں کہ اس گلے سڑے نظام میں مزدوروں کی حیثیت بس ایک اجرتی غلام کی ہے۔ جس کی زندگی کا مقصد سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کرتے کرتے مرجانا ہے۔ ان مزدوروں اور شہریوں کے مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔ ایک ایسا سماج جو بغیر کسی حکومت کے خودکار امداد باہمی کی بنیاد پر قائم ہوگا۔ ساری دنیا کے لوگ ساری دولت کے مالک ہوں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں