پانی کا سر اٹھاتا بحران
زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلے جانے کے باعث پانی میں مختلف دھاتوں کی آمیزش بڑھ گئی ہے۔
پانی ہر قسم کی حیات کے لیے جزولاینفک ہے۔پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیںہے ۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت رہاہے کہ یہاں دریاؤں کے علاوہ دیگر قدرتی آبی ذرایع بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بارشیں اور زیر زمین پانی اس کے سوا ہے۔ پاکستان جس خطے پر قائم ہوا ہے یہاں چھوٹے بڑے کئی دریا بہتے ہیں۔ اپنے پانچ دریاؤں یعنی بیاس،ستلج، راوی ، چناب اور جہلم کی وجہ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنج آب (پنجاب) کہلاتا ہے ۔
دریائے سندھ کشمیر سے نکل کر شمالی علاقہ جاتا سے ہوتا ہوا، پنجاب اور پختونخواہ کی سرحدکے ساتھ بہتا ہوا ملتان کے راستے سندھ میں داخل ہوتا ہے۔ پنجند کے مقام پر پنجاب کے پانچوں دریا اس کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں یہ سندھ میں ایک بڑے دریا کی شکل میں داخل ہوتا ہے۔ سندھ کا سینہ چاک کرکے اسے سیراب کرتے ہوئے بالآخر یہ ٹھٹھہ کے قریب سمندر میں گر جاتا ہے۔
خیبر پختونخواہ میں بھی کئی چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں، جن میں دریائے کابل ، دریائے سوات وغیرہ ہیں، جو مختلف مقامات پر دریائے سندھ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان میں البتہ کوئی بڑا دریا نہیں ، بلکہ چند برساتی ندیاں ہیں، جن میں بارشوں کے زمانے میں پانی آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پانی کے حصول کا بنیادی ذریعہ کاریز (زیر زمین بنائی گئی نالیاں) ہیں۔
سندھ میں دو جھیلیں منچھر اور کینجھر ہیں ۔ منچھر کا پانی غلاظتوں کے اس میں جانے کے سبب زہریلا ہوچکا ہے۔ کینجھر کا پانی قدرے صاف ہے ۔ اسی جھیل سے کراچی کو پانی کی سپلائی ہوتی ہے۔ ان دو جھیلوں کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں بالخصوص شمالی علاقوں میں چھوٹی بڑی کئی جھیلیں ہیں۔ حال ہی میں گلگت بلتستان کے مقام عطا آباد میں گلیشیر کے پگھلنے سے ایک بڑی جھیل نمودار ہوئی ہے۔ جسے محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔
مگر ان تمام قدرتی ذرایع ہونے کے باوجود پاکستان پانی کے بدترین بحران کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، گو کہ حکومت نے امسال آبی پالیسی کا اعلان کیا ہے، مگر اس میں اول تو بے شمار اسقام ہیں ۔ دوسرے ہمارے یہاں اصل مسئلہ پالیسیوں پر عمل درآمد کا رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے اچھے منصوبے محض عملدرآمد کا واضح میکنزم نہ ہونے کے سبب عمل پذیر نہیں ہوسکے۔ پانی کے اس بحران کو سمجھنے کے لیے پاکستان میں آبی ذرایع کی تاریخ پر نظر ڈالنے کے ساتھ ان غلط فیصلوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، جو اس بحران کا سبب بنے ہیں۔
جس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر وجہ تنازع ہے، اسی طرح دریاؤں کے پانی کی تقسیم بھی تنازع کا باعث ہے۔ پانی کا مسئلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا۔دراصل تقسیم ہند کے نتیجے میں بنگال اورپنجاب تقسیم ہوئے تھے۔پنجاب کا 40فیصد حصہ بھارت اور60فیصد حصہ پاکستان کو ملا ۔ پنجاب کے پانچ دریاؤں کو پاکستان اور بھارت کے درمیان اسی تناسب یعنی 3:2 سے تقسیم ہونا چاہیے تھا، جس تناسب سے تقسیم ہوئی تھی۔
اس کلیے کے مطابق بھارتی پنجاب کو دو اور پاکستانی پنجاب کو تین دریا ملنا چاہیے تھے، مگر کوتاہ بین حکمران نے بھارت کو تین دریا دے ڈالے، جب کہ دریائے سندھ کو اس قضیہ کا حصہ بنانے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا، کیونکہ جیسا اوپر بیان کیا گیا ہے یہ پنجاب کا دریا نہیں ہے۔
یہ مسئلہ جب 1952میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے سامنے آیا، تو انھوں نے عالمی بینک کے مجوزہ فارمولے کورد کردیا تھا، لیکن فوجی آمر ایوب خان نے تربیلاڈیم کی تعمیرکے لیے ملنے والی امداد کے لالچ میں اس کلیے کو قبول کرلیا۔ یوں 19ستمبر1960کو کراچی میں پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس معاہدے پر دستخط کیے جو سندھ طاس معاہدہ یا Indus Basin Treatyکہلاتا ہے۔
اس معاہدے کی رو سے پاکستان نے بیاس ، ستلج اور راوی کے پانیوں پر بھارت کا حق تسلیم کرلیا۔ بیاس مکمل طورپر بھارتی پنجاب میں بہتا ہے،جب کہ ستلج صرف20 فی صد پاکستانی حصے میں آتا ہے، البتہ راوی کا بڑا حصہ پاکستانی علاقے سے گذرتا ہے، جس کے کم ازکم 40فیصد پانی پاکستان کو ملنا چاہیے تھا۔مگر ایسا نہیں کیا گیا۔اس معاہدے کا دوسرا بڑا سقم وہ شقیں ہیں، جن کی رو سے پاکستان کو ملنے والے تین دریاؤں (سندھ، چناب اور جہلم)کے20فیصد پانی کوبھی بھارت کو آبپاشی اور بجلی بنانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینا ہے۔
ایک چھوٹا دریا جو بھارتی علاقے میں کشن گنگا اور پاکستان میں نیلم کہلاتا ہے، میرپور کے مقام پر دریائے جہلم کا حصہ بنتا ہے۔اس دریا پر بھارت نے ڈیم تعمیر کیا ہے، جس کا چند دنوں میں وہاں کے وزیر اعظم نریندر مودی افتتاح کرنے والے ہیں۔ یہ ایک متنازع ڈیم ہے، مگرگزشتہ پیرکو شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی بینک کو اس مسئلے پر ثالثی کے لیے آمادہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس سے قبل بھارت دریائے جہلم پر بگلیہارڈیم بنا چکا ہے ۔ ساتھ ہی اس کے بجلی پیدا کرنے کے کئی پروجیکٹ بھی زیر تعمیر ہیں۔
حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کا تقریباً 70ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر برد ہوجاتا ہے، لیکن اس حوالے سے ماہی گیروں کی تنظیم پاکستان فشرز فوک کا موقف مختلف ہے۔ان کے رہنما کاکہنا ہے کہ دریا کے میٹھے پانی کی سمندرکی طرف بہاؤ میں کمی کے باعث تین طرح کے نقصانات ہورہے ہیں۔
اول، ٹھٹھہ اور بدین کے علاقے کی سرسبز زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، کیونکہ دریائی پانی کے دباؤ میں کمی کی وجہ سے سمندر الٹ کر ان علاقوں میں آرہا ہے، جس نے زمین میں سیم اور تھور پیدا کرکے اسے تباہ کردیا ہے۔دوئم،اس علاقے کا سرخ چاول سمیت دیگر زرعی پیداوارختم ہوگئی ہے۔ تیسرے سمندر کے کنارے مچھلیاں اور جھینگے جو انڈے دیتے تھے، ان کے بچے میٹھے پانی سے پروان چڑھتے تھے، وہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے آبی حیات کی افزائش تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ سندھ کی ''پلاّا '' مچھلی کی نسل خطرہ سے دوچار ہے ۔
دوسری طرف زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلے جانے کے باعث پانی میں مختلف دھاتوں کی آمیزش بڑھ گئی ہے۔ اس پانی کے استعمال سے ہیپاٹائیٹس جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ برسات کا پانی سوفی صد ضایع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح سیلاب کا پانی بھی ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔جس کی وجہ سے کروڑوں کیوسک پانی ہر سال ضایع ہورہا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس کل 30 روز کا پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ہے۔ لہٰذا اگر پانی کے مسئلے کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنا ہے، تو سنجیدگی کے ساتھ چھوٹے بڑے کئی ڈیم اور پانی کے ریزروائر بنوانے پڑیں گے۔اس کے بغیر اس بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔
علاوہ ازیں بھارت کے ساتھ اس مسئلے پر بامقصد بات چیت کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے قدرتی آبی ذرایع سے حاصل ہونے والے پانی پر سب سے زیادہ حق نچلی سطح پر واقع علاقے (Lower Riparian)کے لوگوں کا ہوتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت جاتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے کیا منصوبے چھوڑ کر جاتی ہے اور آنے والی نئی حکومت ترجیحی بنیادوں پر کیا ٹھوس اور پائیداراقدامات کرتی ہے۔