نرسز کے شدید بحران کا شکار پاکستان

نرسوں کی تعلیم، تربیت اور صلاحیتوں سے مکمل استفادہ کے لئے ان کی حوصلہ افزائی اور معاونت ضروری ہے


نرسوں کی تعلیم، تربیت اور صلاحیتوں سے مکمل استفادہ کے لئے ان کی حوصلہ افزائی اور معاونت ضروری ہے ۔ فوٹو : فائل

ہرانسان کو اپنی زندگی بے شمار مرتبہ ڈاکٹر کی ضرور ت پڑتی ہے۔ لیکن جب یہ ضرورت کسی پیچیدگی کی صورت اختیار کر لے تو اُسے ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ ایک اور فرد کی بھی ضرورت ہوتی ہے جسے ہم عام طور پر سسٹر، نرس یا اسٹاف کے نام سے پکارتے ہیں۔ اور یہ دنیا کا واحد ایسا پیشہ ہے جو ایک انسانی رشتہ کے نام یعنی سسٹر(بہن) سے منسوب ہے۔

صحت کی دیکھ بھال کا تمام تر نظام اِنھی کے دم سے ہے۔ جنہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہر سال جدید نرسنگ کی بانی Florence Nightingale کے یوم پیدائش کی مناسبت سے 12 مئی کو نرسز کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے۔ نرسز کا یہ دن دراصل ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ صحت کے نظام میں نرسوں کے بہترین استعمال اور ان کی تعلیم، تربیت اور صلاحیتوں سے مکمل استفادہ حاصل کرنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی اور معاونت ضروری ہے۔

یہ حوصلہ افزائی اور معاونت دراصل اُن مسائل کو حل کر کے ہی کی جا سکتی ہے جوکہ نرسز کو درپیش ہیں یعنی اسٹاف کی کمی، کام کی جگہ پر تشدد ، معاوضوں کی کمی، طویل دورانیہ کے حامل کام کے اوقاتِ کار اور کام کی جگہ پر موجود صحت کو لاحق ہونے والے خطرات ۔ ان تمام مسائل میں نرسز کی کمی اس وقت دنیا بھر کو درپیش ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ 2013 میں انٹرنیشنل کونسل آف نرسز کے ورک فورس فورم نے نرسنگ اسٹاف کی ناکافی تعداد کی وجہ سے مریضوں اور معاشرے کو لاحق ہونے والے رسک کے بارے میں ایک وارننگ جاری کی تھی۔

اور کہا تھا کہ اکثر صنعتی ممالک صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کی طلب بڑھنے کی وجہ سے نرسز کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں یا پھر وہ اس کا شکار ہونے کو ہیں ۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کے سروے کے مطابق دنیا کے 77 فیصد ترقی یافتہ ممالک اس وقت نرسز کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ نرسوںکی یہ عالمگیر کمی جہاں صحت کے نظام اور مریضوں کو متاثر کرتی ہے وہیں اس کے نرسز پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان پر مریضوں اور کام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ انھیں طویل دورانیہ پر مبنی ڈیوٹیاں کرنی پڑتی ہیں۔ نتیجتاً وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں اور اپنے کام سے عدم اطمینان کے احساس میں مبتلاہو جاتی ہیں۔ شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طویل اوقات ِ کار سے نرسز کے ذاتی تعلقات میں کشیدگی، مریضوں کی بیماری میں طوالت ، تنازعات، ملازمت سے عدم اطمینان اور نا اہلی جیسے عوامل پیدا ہوتے ہیں۔

امریکا، کینیڈا، برطانیہ، سکاٹ لینڈ اور جرمنی میں کئے جانے والے ایک مطالعہ کے مطابق 44 فیصد نرسز اپنی ملازمت سے مطمئن نہیں اور22 فیصد اسے ایک سال کے اندر اندر ترک کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ نتائج اس امر کی بھی وضاحت کر رہے ہیں کہ کام کی جگہ کا ذہنی دباؤ نرسوں کے حوصلہ (مورال )کو پست کرتا ہے ۔

ان کے ملازمت سے عدم اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ ادارے کے ساتھ کام کرنے کے عزم کو متزلزل کرتا ہے۔ اورکام چھوڑنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ نرسوں کو دیئے گئے اضافی مریضوں کی وجہ سے ان کا ردعمل سست ہو جاتا ہے۔ مریضوں کی حالت کو تبدیل کرنے کے حوالے سے ان میں چوکس رہنے کی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے۔ادویات دینے میں غلطیوں کا باعث بنتا ہے جوکہ مریض کے لئے خطرناک نتائج پر منتج ہوتا ہے۔ لہذا سب سے ضروری امر یہ ہے کہ نرسز کی کمی کو پورا کیا جائے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ نرسز کی کتنی تعداد اس کمی کو پورا کر سکتی ہے؟

اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے دو اسٹینڈرڈز وضع کئے ہیں جن کے مطابق ہر 10 ہزار آبادی کے لئے کم ازکم 50 نرسز ہونی چاہیئں یا پھر ہر ایک ڈاکٹر کے ساتھ 4 نرسز کی ٹیم ہونی چاہیئے۔ ان دونوں پیمانوں کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم پاکستان میں نرسز کی مطلوبہ تعداد کی صورتحال دیکھتے ہیں تو ایک شدید بحرانی کیفیت سامنے آتی ہے۔



پاکستان کی خانہ و مردم شماری 2017 ، اکنامک سروے آف پاکستان 2016-17 ، پنجاب ڈیویلپمنٹ اسٹیٹسٹکس 2016 ، ڈیویلپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف سندھ 2016 ، ڈیویلپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف خیبر پختونخوا 2017 ، ڈیویلپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف بلوچستان 2014-15 اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق اس وقت ملک میں ہر 10 ہزار آبادی کے لئے مجموعی طور پر 10 لاکھ 38 ہزار 8 سو 73 نرسز کی ضرورت ہے جبکہ نر سز کی دستیاب تازہ ترین تعداد ( جو کہ سال2016 کی ہے) صرف99 ہزار 2 سو 28 ہے ۔

یعنی 9 لاکھ 39 ہزار 6 سو 45 نرسز کی کمی کا اس وقت ملک کو سامنا ہے۔ اور اگر اس کمی کا فیصد میں جائزہ لیں تو ملکی ضرورت کے برعکس اس وقت وطنِ عزیز کو 90.4 فیصد نرسز کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی طرح اگر ایک ڈاکٹر کے لئے4 نرسز کے پیمانے کو مد نظر رکھیں تو 28 فروری 2018 تک پی ایم ڈی سی سے رجسٹر ڈ ایم بی بی ایس، اسپیشلسٹ اور بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کر کے آنے والے ڈاکٹرز کی تعداد 4 لاکھ 23 ہزار ایک سو60 ہے۔ جن کے لئے مجموعی طور پر16 لاکھ 92 ہزار 6 سو 40 نرسز کی ضرورت ہے۔ اور اس پیمانے کے حوالے سے ملک کو اس وقت 15 لاکھ 93 ہزار4 سو 12 نرسز کی کمی کا سامنا ہے۔ اور فیصد میں یہ کمی 94.1 فیصد بنتی ہے۔

اگر نرسز کی دستیابی کی صورتحال کا موازنہ ان دونوں پیمانوں سے کریں تو ملک میں ہر 10 ہزار آبادی کے لئے 2016 تک اوسط ً صرف 5 نرسز موجود تھیں ۔ جبکہ ہر ایک ڈاکٹر کے لئے 2016 تک نرسز کی اوسط تعداد ایک سے بھی کم یعنی عشاریہ 51 (0.51 ) بنتی تھی۔ ملک میں دس ہزار آبادی اور ایک ڈاکٹر کے لئے نرسز کی تعداد کے حوالے سے سب سے زیادہ کمی کا سامنا اس وقت صوبہ سندھ کو ہے ۔ جہاں دس ہزار کی آبادی کے لئے درکار نرسز کی مجموعی تعداد کا 99.3 فیصد کم موجود ہے۔

جبکہ ڈاکٹرز کے حوالے سے یہ کمی 99.7 فیصد ہے۔ اسی طر ح دس ہزار آبادی اور ایک ڈاکٹر کے لئے نرسز کی موجود دستیاب تعداد کی سب سے زیادہ تشنہ صورتحال بھی سندھ ہی کی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق 2015 ء تک صوبہ میں ایک ڈاکٹر کے لئے موجود نرسز کی اوسط تعداد محض عشاریہ 20 (0.20 ) اور دس ہزار آبادی کے لئے موجود نرسز کی اوسط تعداد صرف اور صرف عشاریہ 35 (0.35) بنتی تھی۔

ملک میں نرسز کی کم تر تعداد کی بنیادی وجوہات میں سے ایک نرسنگ کے تعلیمی اداروں کی محدود تعداد ہے۔ اس وقت ملک میں پاکستان نرسنگ کونسل سے منظور شدہ ڈپلومہ کی سطح کے صرف جنرل نرسنگ کی تعلیم مہیا کرنے والے اداروں کی تعداد 128 ہے جن میں موجود نشستوں کی کل تعداد 9468 ہے۔ اسی طرح ایک سالہ پوسٹ بیسک اسپیشلسٹ ڈپلومہ کرانے والے ادروں کی تعداد 39 ہے۔

جبکہ ڈگری کی سطح کی تعلیم دینے والے اداروں کی تعداد 62 ہے جن میں دستیاب نشستوں کی تعداد 3333 ہے۔ اور لائسنزڈ پریکٹیکل نرس کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد 18 اور ان میں موجود سیٹوں کی تعداد 505 ہے۔ یعنی اس وقت ملک میں نرسنگ کی تمام سطح کی تعلیم فراہم کرنے والے پی این سی سے منظور شدہ اداروں کی مجموعی تعداد 247 ہے جو13306 طلباء کو داخلہ دیتے ہیں۔ جس ملک میں 1998 سے2017 کے دوران آبادی میں اوسط ً فی سال 39 لاکھ 69 ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہو وہاں ہر سال صرف 9468 لڑکیاں اور لڑکے جنرل نرسنگ کی ڈپلومہ کی سطح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ایسی صورتحال میں ملک میں نرسنگ کی تعداد کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے؟ اس کی دو ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو ملک میں نرسنگ کی تعلیم کے اداروں اور ان میں موجود سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ اور اس شعبہ کی جانب طلباء کو راغب کرنے کے لئے اُنھیں مراعات فراہم کی جائیں۔

اور پروفیشن کی عزت و وقارمیں اضافہ کیا جائے۔ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والی نرس صائمہ کہتی ہیں کہ ـ'' نرسز کی ڈیوٹی ٹائمنگ زیادہ ہے اور کبھی کبھی دن کے علاوہ رات کی ڈیوٹی بھی کرنی پڑتی ہے جو کہ اکثر گھر والے پسند نہیں کرتے کہ بچیاں رات کو گھر سے باہر رہیں۔ سب سے اہم بات خاندان والے اور عام لوگ اس پیشے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اس لئے کم لڑکیاں اس شعبہ کی طرف آتی ہیں''۔ ایک نیم سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والی نرس صفورا صفدر کا کہنا ہے'' جب وہ اس شعبہ میں آئی تھیں تو نرسنگ کو اتنی عزت نہیں دی جاتی تھی۔ لوگ نرسز کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن ہم نے اپنی تعلیم بڑھا کر اپنی لائف کے اسٹیٹس کو بہتر کر لیا ہے۔



نرسز اب ایم ایس اور پی ایچ ڈی کی سطح تک تعلیم حاصل کر رہی ہیں جس سے ان کی معاشرے میں عزت کے حوالے سے کا فی بہتری آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کا نرسز کو اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں تو بہت فائدہ ملتا ہے لیکن اس کا کوئی معاشی فائدہ انھیں نہیں ہوتا کیونکہ اپنی پیشہ ورانہ تعلیمی اہلیت بڑھانے کو کوئی الاؤنس نرسز کو نہیں دیا جاتا اورباقاعدہ سروس اسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کی بنیاد پر ترقی بھی نہیں ملتی ہے''۔ لہذا اب نرسز کی کمی کو پورا کرنے کی دوسری ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دیگر ممالک سے نرسزکو پاکستا ن میں ملازمتوں کی جانب راغب کیا جائے۔ لیکن فی الحال یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا کہ جب ہم ملکی نرسز کے مسائل ہی حل نہیں کر پاتے تو بیرونِ ملک سے آئی ہوئی نرسز کی ضروریات کیسے پوری کر سکیں گے؟

ملکی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے نرسز کی کمی کو پورا کرنے کا واحد حل ملک میں نرسز کے تعلیمی مواقعوں میں خاطر خواہ اضافہ ان کے نصاب اور تربیت کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور اس شعبہ کو اختیار کر چکنے اور کرنے والوں کے لئے مراعات اور وسائل کا بندوبست کرنا خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ان اقدامات سے نا صرف نرسز کی ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ انٹرنیشنل مارکیٹ سے بھی استفادہ کیا جا سکے گا ۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس کی طرف ہم اگر توجہ کر لیں تو زرمبادلہ کی کثیر مقدار حاصل کی جاسکتی ہے۔

کیونکہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک چاہے وہ ترقی یافتہ ہوں کہ ترقی پذیر سب ہی کو نرسز کی ضرورت ہے۔ اس کا اندازہ امریکہ کے بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹکس کے اس تخمینہ سے لگا یا جا سکتا ہے کہ2022 تک امریکہ میں 5 لاکھ رجسٹرڈ نرسز ریٹائرڈ ہو جائیں گی اور ان کے متبادل اور نرسز کی کمی سے بچنے کے لئے امریکہ کو 11 لاکھ نرسز کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ اس وقت بھی امریکہ میں نرسنگ کے شعبہ میں ہر سال ایک لاکھ نوکریاں پیدا ہوتی ہیں جو دیگر شعبہ جات کے مقابلے میں سب سے زیادہ پیدا ہونے والی نوکریوں کی تعداد ہے۔ اور اس ضرورت کا ایک نمایاں حصہ انٹرنیشنل نرسز سے پو را کیا جاتا ہے ۔ یوں امریکہ میں کام کرنے والی رجسٹرڈ نرسز کا 15فیصد بیرون ملک سے آئی ہوئی نرسز پر مشتمل ہے۔

اور جارج ماسن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار مائیگریشن ریسرچ کے مطابق2015 میں امریکہ میں غیر ملکی نرسز کی Median Salary چوہتر ہزار5 سو ڈالر (74500 ) تھی ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں رجسٹرڈ مقامی نرس 65 ہزار ڈالر حاصل کر تی تھیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق جن 77 فیصد ترقی یافتہ ممالک کو نرسز کی کمی کا سامنا ہے تقریباً وہ تمام ممالک بیرونِ ملک کی نرسز پر انحصار کر رہے ہیں تاکہ صورتحال کو قابو میں کیا جا سکے۔

فلپائن اس وقت دنیا بھر میں نرسز کی فراہمی کا سب سے بڑا ماخذ ہے جو اپنے ملک کو سالانہ 80 کروڑ ڈالر ز سے زائد زر مبادلہ بھجواتی ہیں۔ بین الاقوامی نرسز پر مشتمل تارکین وطن کو اپنے آبائی ممالک کو ترسیلات کی فراہمی کے حوالے سے اہم شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ نرسز کی جانب سے بھجوائی گئیں ترسیلات دنیا بھر میں انفرادیوں، خاندانوں اور کمیونٹیوں کے آمدن میں اضافہ اور استحکام کا ایک اہم ذریعہ خیال کی جاتی ہیں۔ یہ پیسے خوراک، ہاؤسنگ اور تعلیم تک رسائی کو بہتر بناتے ہوئے صحت کے نظام پر بوجھ کو کم کرتے ہیں ۔ خاص کر یہ ترسیلات کم اور درمیانہ درجہ آمدن کے حامل ممالک میں غربت کی سطح اور اُس کی شدت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

نرسوں کی نقل مکانی میں اندرونی دھکیل اور بیرونی کھچاؤ کے کئی ایک عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ بیرونی کھچاؤ گلوبلائزیشن اور آزاد مارکیٹ کی وجہ سے آتا ہے۔ پیشہ ورانہ تربیت، اچھی تنخواہ، مراعات اور زندگی بسر کرنے کے بہتر حالات کھچاؤ کے عوامل کے طور پر کار فرما ہوتے ہیں اور ان عوامل کی تشنگی دھکیل کا باعث بنتی ہے۔ پاکستانی نرسز کے بیرون ملک کام کرنے کے بارے میں درست اعداد وشمار فراہم کرنا قدرے مشکل ہے جو ایک ذریعہ فی الوقت دستیاب ہے وہ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پاکستان کے اعداد وشمار ہیں جن کے مطابق 1971 سے فروری2018 تک 8374 نرسز پاکستان سے دنیا کے دیگر ممالک روزگار ویزہ پر نقل مکانی کر چکی ہیں ۔

اور سال 2017 میں 293 نرسز روزگار کے لئے بیرونِ ملک گئیں۔ اس محدود تعداد میں نرسز کے بیرونِ ملک ملازمت کے لئے جانے کی وجوہات کے بارے میں سسٹر انجم نے کہنا تھا کہ '' پہلے تنخواہ کے مسائل تھے اس لئے نرسز بیرونِ ملک جاتی تھیں۔ لیکن اب یہاں بھی اچھی تنخواہیں مل رہی ہیں اس لئے نرسز باہر جانا نہیں چاہتیں ۔ لیکن تعلیم کے حصول کے لئے نرسز باہر جا رہی ہیں''۔ تو کیا پھر ہمارے نرسنگ کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا نصاب اور دی جانے والی تربیت بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں جس کی وجہ سے نرسز باہر نہیں جا پاتیں؟ اس سوال کے جواب میں سسٹر انجم کا کہنا تھا کہ '' ہمارے ملک میں نرسنگ کی تعلیم ترقی کر رہی ہے۔

لڑکیاں اب ایم فل اور پی ایچ ڈیز تک کر رہی ہیں ہمارے اداروں میں پڑھائے جانے والا نصاب اور ہمیں دی جانے والی تربیت کسی بھی طرح سے بین الاقوامی معیار سے کم نہیں۔ آج کل جتنا ایک ڈاکٹر پڑھتا ہے نرس کو بھی اُتنا ہی پڑھنا پڑتا ہے''۔ جبکہ سسٹر صائمہ کا کہنا ہے'' پاکستان جیسے ملک میں ویسے ہی لڑکیوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ملتی ایسے میں بیرونِ ملک جانے کی اجازت تو بہت دور کی بات ہے۔ بے شک وہاں پیسے اچھے ملتے ہیں۔ لیکن اکثر کے گھر والے یہ پسند نہیں کرتے کہ لڑکیاں باہر جائیں ''۔

نرسز لوگوں کی صحت کی ضروریات کو تمام عمر پورا کرتی ہیں۔ اور لوگ مریض کی دیکھ بھال کے لئے نرس کی اعلیٰ معیار کی خدمات کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ان کی مریضوںکے لئے دوڑ دھوپ کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اور اُن سے بد سلوکی اور اُنھیں ہراساں کرنے تک سے باز نہیں آتے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ کسی ایک نرس کو اپنی پوری ڈیوٹی کے دوران کتنا چلنا پڑتا ہے؟ امریکہ کی اکیڈمی آف میڈیکل سر جیکل نرسز کے جرنل کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں ایک نرس اوسطً ہر روز اپنی 12 گھنٹے کی شفٹ میں 4 سے 5 میل پیدل چکر لگا تی ہے۔ جبکہ ایک عام امریکی اوسطً روزانہ 2.5 سے3 میل پیدل چلتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں اکثر ایک گلہ عام طور پر نرسوں سے یہ رہتا ہے کہ اُن کا رویہ مریض کے لواحقین کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا ۔ بلانے پر نہیں آتیں ۔

بات بات پر لڑتی ہیں ۔ بات غصہ سے کرتی ہیں۔ اس گلہ سے سسٹر انجم کسی حد تک متفق ہیں اور کہتی ہیں کہ '' کچھ سچوایشنز میں ایسا ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ہمارے ہسپتالوں میںمر یضوں کا دباؤ بہت زیادہ ہے اور نرسز کی تعداد بہت کم ہے یعنی اگر ایک نرس ڈیوٹی پر ہے تو اُسے ایک وقت میں 50 سے60 مریض دیکھنے پڑتے ہیں۔ جس کا یقیناُ ان کے مزاج اور رویہ پر اثر پڑتا ہے۔ لیکن اب نرسز میں زیادہ پڑھنے سے اوئیرنس آگئی ہے۔ انھوں نے مریضوں اور اُن کے لواحقین کے ساتھ اپنا رویہ کافی بہتر کیا ہے''۔

بات پھر وہیں آکر ٹھہری کہ نرسز کی تعداد مریضوں کے مقابلے میں بہت کم ہے جس کی توثیق پاکستان کے جرنل آف پائنرنگ میڈیکل سائنسز کے ایک ریسرچ پیپر کے ان حقائق سے ہوتی ہے کہ ملک میں نرس مریض کا تناسب ایک نرس اور 50 مریض کا ہے۔ جبکہ پاکستان نرسنگ کونسل کا تجویز کردہ تناسب ایک نرس اور10 مریض عام شعبہ جات میں اور 2 نرسز اور ایک مریض کا خاص شعبہ جات میں ہے۔ لیکن ہمارے ہسپتالوں میں صورتحال پی این سی کے تجویز کردہ تناسب سے کہیں مختلف ہے۔ جبکہ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق جن ہسپتالوں میں مریضوں کے مقابلے میں نرسوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے ان ہسپتالوں میں شرح اموات کم ہوتی ہیں ۔ دیکھ بھال کا معیار بہتر ہوتا ہے جو مریض کے اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ اور اگر ہم ملک کے ہسپتالوں میں نرسز کی دستیاب اوسط تعدادکا جائزہ لیں تو تلخ حقائق سامنے آتے ہیں اور یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔

اس تمام صورتحال میں صحت اور اس سے متعلقہ پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول کتنا آسان ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ لیکن ایک بات بہرحال طے ہے کہ صحت کی بنیادی معیاری سہولیات تک منصفانہ رسائی تب تک حاصل نہیں کی جا سکے گی جب تک تربیت یافتہ نرسز کی موزوں تعداد کے حصول کو یقینی نہ بنایا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔