خلائی مخلوق
خلائی مخلوق کا نام سیاست میں پہلی دفعہ میاں صاحب نے متعارف کرایا ہے۔
PESHAWAR:
میاں نواز شریف اپنے مقدمات کے فیصلوں اور 2018ء کے انتخابات کے نتائج کے سلسلے میں ابھی سے کھل کر خلائی مخلوق کی مداخلت کی بات کر رہے ہیں، چونکہ خلائی مخلوق کا نام سیاست میں پہلی دفعہ میاں صاحب نے متعارف کرایا ہے چنانچہ خلائی مخلوق سے کیا مراد ہے اور وہ کون سی شے ہے؟
اس موضوع پر اس وقت پورے ملک کے سیاستدان اپنی عقل و فہم کے مطابق تبصرے کرنے میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں ابھی تک جو بھی تبصرے کیے گئے ہیں ان سے اصل حقیقت تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکا ہے مگر یہ معمہ ہمارے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں حل کرکے رکھ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں میاں صاحب کو فتح مند کرانے کا سہرہ فوج کے سر تھا۔ انھوں نے مزید یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے اس وقت کے ریٹرننگ افسران کو بلا کر ہدایات دی تھیں جن کا فائدہ میاں صاحب کو پہنچا تھا۔
عمران خان کے 2013ء کے الیکشن میں فوج کو ملوث کرنے کے دعوے پر ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر (ر) مظفر رانجھا نے سخت تنقید کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ سیاسی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہ کی جائے کیونکہ اس وقت فوج ملک میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف تھی۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ عمران خان کے الزام پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور عمران خان اس کمیشن کے روبرو بیان حلفی جمع کرائیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان شروع سے ہی الزام تراشی کے ذریعے اپنی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں وہ 2013ء کے الیکشن کے ایک سال تک اس کے نتائج پر خاموش رہے پھر اچانک الیکشن میں دھاندلی کا زوروشور سے الزام لگانے لگے۔ اس وقت وہ دھاندلی کا ذمے دار ریٹرننگ آفیسرز اور پنجاب کے اس وقت کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کو قرار دے رہے تھے۔
وہ نجم سیٹھی پر 35 پنکچر لگانے کا مسلسل الزام لگا رہے تھے۔گوکہ ان کے دھاندلی کے الزامات سراسر غلط پائے گئے تھے مگر وہ دھاندلی کے مسئلے پر کئی ماہ تک قومی اسمبلی کے سامنے دھرنا دیتے رہے اور پھر غصے میں انھوں نے قومی اسمبلی اور پی ٹی وی کی عمارات کو بھی نہیں بخشا تھا، اب نئے انتخابات سے قبل وہ شیخ رشید کے تعاون سے نواز شریف کو پانامہ کیس کی بنیاد پر پہلے وزارت عظمیٰ سے بے دخل کرا چکے ہیں پھر انھیں مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹانے کے بعد اب عمر بھر کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نااہل قرار دلوا چکے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ جس طرح انھیں پہلے بلیک ڈکشنری کی مدد سے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اب اسی طرح انھیں اڈیالہ جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اور شیخ رشید پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اڈیالہ جیل میاں صاحب کے لیے صاف کرائی جا رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا دعویٰ ہے کہ انھیں اڈیالہ کے بجائے لانڈھی جیل میں قید رکھا جائے گا۔
بہرحال اصل مسئلہ میاں صاحب کا نہیں بلکہ آئندہ الیکشن کو خلائی مخلوق کی دست برد سے محفوظ بنانے کا ہے کیونکہ الیکشن میں شفافیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت تمام ہی سیاسی رہنما اس بات پر فکرمند نظر آتے ہیں کہ کہیں الیکشن دھاندلی کی نذر نہ ہو جائے کیونکہ پاکستان میں ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹی کو جتانے کے لیے کاری گری کرتی رہی ہے۔
گوکہ 2007ء کے الیکشن میں پرویز مشرف نے قائد لیگ کو جتانے کے لیے اپنا بھرپور اثر و رسوخ استعمال کیا تھا مگر اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مل کر اکثریت حاصل کرلی تھی اور ان کی مشترکہ حکومت نے پرویز مشرف کا پتہ صاف کردیا تھا۔ اس کے بعد 2013ء کے الیکشن نگران حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوئے جس کے نتائج کی تمام تر ذمے داری نگران حکومت پر ہی عائد ہوتی تھی مگر عمران خان اور شیخ رشید نے سارا الزام مسلم لیگ (ن) کے سر ڈال دیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی ملک میں دھرنوں، گالم گلوچ اور عدم برداشت کا نیا رواج جڑ پکڑ گیا ہے۔
اسی رجحان کی شہ پر ایک مذہبی جماعت نے اسلام آباد اور راولپنڈی کو اپنے دھرنے کے ذریعے مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ اب وزیر داخلہ احسن اقبال پر فائرنگ کے بعد اگلے انتخابات کے لیے حالات مزید مشکل ہوتے نظر آرہے ہیں، مگر الیکشن میں تاخیر جمہوریت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہے۔ چنانچہ انتہا پسندانہ رجحانات کی روک تھام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ خاص طور پر ہمارے ان سیاسی رہنماؤں کو جو عوام کو جلاؤگھیراؤ اور مارو پیٹو کا کھلے عام سبق پڑھا رہے ہیں انھیں اپنے بیانات میں میانہ روی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اگر انھوں نے اپنی روش نہ بدلی تو وزیر داخلہ کے بعد دوسرے سیاسی رہنماؤں کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جس سے الیکشن کا انعقاد یقینا خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اس طرح وہ بعض سیاسی جماعتیں جو در پردہ الیکشن کو رکوانے یا پھر اس میں تاخیرکرانے کی خواہش مند ہیں وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتی ہیں مگر اس سے ملک کی جمہوری ساکھ کو جو نقصان ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ گوکہ فوج پر گزشتہ الیکشن میں مداخلت کا الزام لگایا گیا ہے مگر اس وقت آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کھل کرکہا تھا کہ انتخابات وقت پر ہی ہونے چاہئیں اور اس سلسلے میں فوج بھرپور طریقے سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ الیکشن کے انعقاد میں ہر آرمی چیف نے ہمیشہ تعاون کیا ہے اور پھر خود سیاسی پارٹیوں نے ہر دفعہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا ہے چنانچہ فوج پر الیکشن میں مداخلت کا الزام لگانا ملک کے اس اہم ترین ادارے کی ساکھ کو خراب کرنے کی کہیں دانستہ یا نادانستہ کوشش تو نہیں؟
اس وقت ملک میں عدلیہ کا بول بالا ہے۔ میاں صاحب کو عہدے سے ہٹانے کے بعد وہ عملاً حکومتی کاموں میں بھرپور دلچسپی لے رہی ہے۔ وہ کام جو حکومت کے کرنے کے ہیں انھیں چیف جسٹس خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ کئی حکومتی ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برت رہے ہیں۔ خاص طور پر صحت، تعلیم اور بلدیاتی ادارے اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو پہلے اپنے ادارے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے جہاں تمام اداروں سے زیادہ عوام کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ برسوں گزر جاتے ہیں بلکہ کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں اور مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ عوام میں یہ کہاوت بڑی عام ہوگئی ہے کہ دادا کے دائر کردہ مقدمے کا اگر پوتے کے سامنے بھی فیصلہ ہوجائے تو فیصلے میں دیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہماری عدالتوں میں یہی رجحان چل رہا ہے۔