اپنا ہاتھ اپنا لہو
سندھ میں دیہی شہری اور لسانی تفاوت کو جان بوجھ کر ہوا دی جا رہی ہے اور اس میں ادیب شاعر فیکٹر بھرپور کام کر رہا ہے۔
ساری دنیا کی طرح پاکستان جو کہا جاتا ہے کہ آزاد ریاست ہے حالانکہ پیدا ہونے والے بچے بھی جو ابھی کہیں اور ہیں مقروض ہیں کھربوں ضرب کھربوں ڈالر پاکستان کو ادا کرنا ہیں ۔ شاید بجٹ کی رقم کے اسی فیصد کے برابر سود ہر ماہ ادا کیا جاتا ہے، پاکستان اسلامی ریاست ہے اور اس میں اسلامی نقطہ نظر سے سود حرام ہونا چاہیے، لینے والا دینے والا دونوں جہنمی ہیں، لینے والوں کا وہ جانے دینے والے ہم ہیں۔ دنیا میں ہر حالت میں خوش رہنے میں آپ کا پانچواں نمبر ہے۔
اس قدر قرض لے کر ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ ہم سے مراد لیڈران پاکستان ہیں، دراصل یہی تو پاکستان ہیں، رہ گئے عوام تو وہ کھوہ کھاتے کی چیز ہیں، عوام کی جدید شکل اور بے حد جدید غریب عوام سے مراد لیڈروں کے اہل و عیال ہیں، قرابت دار، دوست یار ہیں، پانچ سال بند ڈوری میں بندھی بلبل۔ جسے ووٹ ڈالنے کو اور شور شرابے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ قائد اعظم کی وراثت ہے اور مجبوری ہے کہ پانچ سال میں ایک بار اسے چوری ڈالنی پڑتی ہے۔ اس کی دل پسند خوراک قومی ترقی کے جھوٹے اور حسین وعدے اور پھر پانچ سال تک یہ اہل و عیال اور دوست یار ترقی کرتے رہتے ہیں۔
نواز شریف نے کہا چیف جسٹس اپنا کام کرنے کے بجائے دودھ کی کوالٹی چیک کر رہے ہیں، یہی فرق ہے آپ میں اور ان میں وہ اپنا کام نہیں کرتے، قوم کا کام جو آپ کی ذمے داری تھی اور ہے وہ کر رہے ہیں اور آپ اور بھائی بند اب بھی اپنا کام کر ہی نہیں رہے بلکہ دکھا رہے ہیں۔
اس ملک کے پہلے وزیر اعظم نے ہندوستان کو پانچ انگلیاں جوڑ کر مکا بنا کر پانی اور دریاؤں کے مسئلے پر خوفزدہ کردیا تھا، حالانکہ شیروانی کے نیچے اس کی قمیض بوسیدہ تھی۔ بھارت پاکستان کے دریاؤں کے ساتھ جو چاہے کر رہا ہے اور یہ اپنی بیلٹ باندھ رہے ہیں۔ ایک بند نہیں بنا سکے دریا پر۔ بات ہم نے کہاں سے شروع کی اور کہاں تک جا پہنچی۔ اس ملک کے عوام کے ٹیکس کا پیسہ عیاشیوں کے علاوہ اپنی شہرت پر بھی خرچ کیا جا رہا تھا جو چیف جسٹس نے روک دیا، جھوٹا تصویری خبرنامہ ختم ہوگیا جو تیس سال سے چل رہا تھا یہ عجیب لوگ ہیں ایٹم بم ڈاکٹر قدیر تیار کرکے سزا پاتا ہے اور یہ چاغی کی پہاڑیوں اور بم کے ایجاد کنندہ خود کو قرار دیتے ہیں، پیسہ عوام کا محنت سائنسدانوں کی تو کون خوامخواہ۔ آیندہ یہ روایت ختم کرنی چاہیے کہ عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے تیار شدہ منصوبوں پر ان کے نام کی تختی کیوں؟ یہ تو خود عوام سے تنخواہ لیتے ہیں اور بھاری تنخواہ اور مراعات واقعی غریب عوام ادا کر رہے ہیں اور ان کے خاندانوں کو پال رہے ہیں۔ پتا نہیں پاکستانی قوم کی قسمت میں سانپ پالنا قدرت نے کیوں لکھ دیا قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں انسان سمجھ نہیں سکتا۔
بدقسمتی سے کیونکہ یہ انتہا ہے لہٰذا ذکر بھی بار بار اس طرف بیدل ہوجاتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ کلاہ ہو یا عمامہ، ٹوپی ہو یا HAT، اس ملک کے ساتھ ہر ایک نے غیر مصلحانہ رویہ رکھا ہے، بھٹو نام رکھنے سے زرداری پوشیدہ نہیں رہ سکتا وہ کس طرح یہ آپ نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں سے ختم کردیا گیا تو کیا ہوا دنیا میں ہے اور لوگوں کے پاس محفوظ ہے، جس طرح ضیا الحق نے بھٹو کی تمام ریکارڈنگ Erase کروا دی تھیں لیکن بھٹو کی تقریریں کہیں نہ کہیں محفوظ تھیں اور کافی ریکارڈ کا حصہ بن گئیں۔ خود اقتدار کا مزہ چکھ چکے اب اولاد کو سیاسی تجارت میں شامل کرنے کا پروگرام ہے مگر اقتدار ایک نشہ ہے اور نشے کے عادی کے بارے میں کچھ کہہ نہیں کرسکتے۔
تمام سہولیات وزیر اعظم کی رکھتے ہوئے مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں ہٹایا، کی رٹ لگانے والے کی ذہنی حالت سے آپ کو اس نشے کی ہلاکت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ عوام کے ٹیکس سے قائم فنڈ کا نام گورنمنٹ سپورٹ فنڈ یا پاکستان سپورٹ فنڈ ہونا چاہیے تھا۔ چلیے آپ نے کچھ رکھ دیا مخالفین بدلتے ڈرتے ہیں مگر ہاتھ میں اپنی بیٹی کے دے دیا، کس قانون کے تحت؟ صوبوں کے منصوبے عوام کے پیسوں سے تکمیل پاتے ہیں یہ لیڈر یا ان کی اولاد کا ایک پیسہ اس میں شامل نہیں بلکہ تختی سے لے کر مشروبات تک سب سرکاری یعنی عوام کا پیسہ ہے تو ان پر بورڈ ان لیڈروں اور ان کی اولاد کے کیوں؟
ان طریقوں سے اپنی اولاد کی تشہیر مقصود ہے تاکہ کل وہ بغیر کسی خرچ کے عوامی لیڈر بن جائیں اور جو زبان یہ کل کے لیڈر استعمال کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جس تہذیب سے پیش آرہے ہیں وہ قابل مذمت ہی کہا جاسکتا ہے صرف والدین ہی خوش ہوسکتے ہیں جو خود خاصے مہذب ہیں۔
عوام کو سب مل کر بے وقوف بنا رہے ہیں لال ٹوپی والا بھی اور سندھی بلوچی ٹوپی اور کلاہ والا بھی، پگڑی عمامہ تو پرمٹ کے نام ہوا ۔ چند ماہ یہ پاکستان کو عوام کا پاکستان کہیں گے، خود کیک کھائیں گے، عوام کی بھوک کو ختم کرنے کے جھوٹے دعوے اور وعدے کریں گے ایک دوسرے پر خریدنے اور بکنے کا الزام لگائیں گے اور نتیجہ الیکشن کا آنے کے بعد شکار یعنی عوام کے حصے بخرے کرنے کو جنگلی جانوروں کی طرح شیر و شکر ہوجائیں گے، ہلکا پھلکا غرائیں گے اور عوام کے حقوق کو کھانے میں مصروف رہیں گے۔ان کے اس طرز عمل نے ملک کو دو لخت کیا، راتوں کو یہ ان لوگوں سے ملتے اور دن میں ان کے خلاف بیان دیتے رہے اور ملک کا یہ حال ہوگیا، نواز شریف کے تو بیانات موجود ہیں کہ ''ضیا الحق کے مشن کو مکمل کریں گے'' وہ خود کو روشناس کرانے والوں کے خلاف، عدلیہ کے خلاف، احتساب عدالت کے خلاف زبان درازی کرتے رہے اور چھوٹے بھائی لیپا پوتی کا کام کرتے رہے اس میں عباسی تیسرے بھائی بنے اور کچھ کرنے کی کوشش کی کامیاب یا ناکام وقت بتائے گا۔
سندھ میں دیہی شہری اور لسانی تفاوت کو جان بوجھ کر ہوا دی جا رہی ہے اور اس میں ادیب شاعر فیکٹر بھرپور کام کر رہا ہے۔ ہنسی بھی آتی ہے سن کر پڑھ کر، کون سندھ کے عوام پر ظلم کر رہا ہے۔ ظاہر ہے سندھ کو سندھ کے لیڈر چلا رہے ہیں تو انصاف کس سے مانگ رہے ہو، مزاحمتی ادب کس کے خلاف تخلیق کر رہے ہو سب تمہارے ہی بھائی بند ہیں شوگر ملیں بھی آپ کے لیڈروں کی اور کسان کی دہائی بھی آپ کا موضوع۔ کوئی نادیدہ ہاتھ نہیں ہے سارے ہاتھ آپ کے دیکھے بھالے ہیں ان پر عوام کے حقوق کا خون تلاش کریں۔ آخر خدا کو بھی جواب دینا ہے کہ نہیں؟