کون خوش قسمت ہے
ابلیس کے لفظی معنی ہیں ’’انتہائی مایوس‘‘ابلیس کا نام عزرائیل تھا یہ جن تھا فرشتہ نہیں اسے آگ سے پیدا کیا گیا تھا
مدھیا پردیش کے پندرہ سالہ مسلمان نوجوان سہیل خان اپنے علاقے کے ہی نہیں بلکہ دور دراز کے ہندوؤں کے لیے نہایت محترم اور مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سہیل خان کی کمر پر بالوں کا وہ گچھا ہے جس سے انھیں دوسرے انسانوں کے مقابلے میں اہمیت حاصل ہے۔ ان بالوں کی موجودگی سے سہیل خان کو ہندوؤں کے مقدس مذہبی ہنو مان کا نئے جنم سمجھا جارہا ہے، اس لیے سہیل خان کو بجرنگی بھائی جان کے نام سے بھی پکارا جارہا ہے۔ سہیل خان ایک عام سا لڑکا تھا لیکن عمر کے ساتھ ساتھ اس کی کمر پر بالوں کا گچھا بڑھتا گیا، جس نے اسے ایک مقدس مذہبی ہستی کا درجہ دے دیا۔
سہیل خان سے دعائیں لینے اور نذرانے کے لیے دور دراز گاؤں دیہاتوں سے لوگ آتے ہیں۔ صرف یہی نہیں سہیل خان جس اسکول میں پڑھتے ہیں وہاں کے اساتذہ بھی ان کا بہت ادب کرتے ہیں اور ان سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں کہ کہیں ان کوکوئی بات بری نہ لگ جائے اور اس طرح سے وہ کسی آفت میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ سہیل خان کو اپنی اسی طرح کی پذیرائی بہت اچھی لگتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کمر پر بالوں کو کبھی نہیں کاٹیںگے، ہنومان کا یہ نیا جنم ہے یا توہمات کی انتہا لیکن ایسا ہی ہے یہ کس قدر عجیب سی بات ہے کہ ایک انسان اگر قدرت کی جانب سے کچھ مختلف ہے اس کے کان بڑے ہیں، سر چھوٹا ہے، بال لمبے ہیں کمر پر اُگے ہیں تو اسے مقدس ہستی کا درجہ دے کر پوجا جائے نذرانے دیے جائیں اور اس کی غلطیوں کو نظر انداز کردیے جانے کو عافیت سمجھا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شخص کا تعلق بھی اس مذہب سے نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ مقدس ہے اور مذہبی لحاظ سے اعلیٰ درجے پر ہے۔
ایسی ہی باتوں سے ہمیں صرف ایک ہی بات واضح اور صاف نظر آتی ہے کہ بے شک ایک ہی اعلیٰ ہستی ہے جو قادر ہے جو چاہتی ہے ہوجاتا ہے، اس کے لیے کسی قسم کی پلاننگ کی ضرورت نہیں ہوتی اور بہت سے پلان جوکسی بھی مقصد کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ مٹی کی مانند ڈھ جاتے ہیں ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیسے ہوا۔ ایسا تو ہونا ہی نہیں چاہیے تھا یا یہ تو ممکن ہی نہیں تھا لیکن یہ کیسے ہوگیا لیکن وہ ہوجاتا ہے۔ جیسے سہیل خان کی مثال۔
سڑک کے کنارے کسی مذہبی جلسے کے بارے میں تحریر تھا ساتھ ہی ایک بزرگ کی تصویر بھی آویزاں تھی یقینا وہ بزرگ پہنچے ہوئے ہوںگے لیکن ان کا مقام وہی ہوگا جو ہونا چاہیے رب العزت نے انھیں عزت سے نوازا ، بات محض اتنی ہی ہوتی تو کافی تھی لیکن ایک تکلیف دہ امر اس وقت رونما ہوا جب ایک اچھے بھلے شخص نے اپنی بائیک روکی سڑک کے ایک جانب کھڑی کی وہ شخص شکل وصورت سے پڑھا لکھا لگ رہا تھا، ان صاحب نے نہایت عقیدت سے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ان کا رخ اس تصویر کی جانب تھا وہ کچھ دیر وہیں کھڑے رہے اور نہایت عقیدت سے دعا مانگتے رہے ایک مسلمان شخص کے لیے یہ کس قدر تکلیف دہ عمل ہوسکتا ہے جب وہ اپنی حاجات کے لیے غیر اﷲ سے رجوع کرے۔
کس قدر خوبصورت اور آسان طریقہ ہے کہ ہم اپنی حاجات کے لیے کسی سے سوال کرنے کی بجائے صرف اپنے رب سے مخاطب ہوں جس کے لیے اگر پورے خشوع و خضوع سے رجوع کیا جائے تو براہ راست آپ کی درخواست اس عظیم ہستی کے پاس چلی جاتی ہے بلکہ انسان کے دل میں ایک سکون ٹھنڈک ہی اترجاتی ہے ، رب العزت سے جڑا کنکشن انسان کو کبھی مایوسی کی دلدل میں گرنے نہیں دیتا۔
یہ بھی درست ہے کہ کئی بار یوں بھی ہوتا ہے کہ دعا قبول نہیں ہوتی اس کا مطلب ہرگز بھی نہیں ہوتا کہ ہماری دعائیں رائیگاں چلی گئیں بلکہ اس میں بھی ہمارے لیے ہی کوئی فائدہ پوشیدہ ہوتا ہے جو بظاہر ہمیں نظر نہیں آتا، اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی دعائیں قبول ہوجاتی ہیں اور نظر بھی آتا ہے کہ ان پر رب العزت نے کرم کردیا ہے تو وہ حضرات کچھ تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ان میں یقینا ایسی خاص بات ہے کہ ان سے رب العزت کی قربت خاص قسم کی ہے لہٰذا ان پر ہی کرم بھی کیا گیا ہے لیکن ایسی بہت سی دعائیں انسانوں کے لیے آزمائش بھی بن جاتی ہیں یعنی اگر غرور میں مبتلا ہوگئے تو دعا کی قبولیت کا سارا فائدہ تکبر کی دلدل میں دھنس گیا اور اگر عجز و انکساری کا رویہ رکھا تو دعا کی قبولیت کا فائدہ دگنا ہوگیا یعنی دنیا وی طور پر بھی فائدہ اور ب العزت کی بارگاہ میں بھی اعلیٰ مقام۔
ابلیس کے لفظی معنی ہیں ''انتہائی مایوس''ابلیس کا نام عزرائیل تھا یہ جن تھا فرشتہ نہیں اسے آگ سے پیدا کیا گیا تھا، حضرت آدم علیہ السلام کو رب العزت نے تخلیق کیا اور تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کریں یہ سجدہ در اصل حضرت آدم علیہ السلام کی تعظیم کے لیے تھا تمام فرشتوں نے تعظیمی سجدہ کیا لیکن عزرائیل نے اپنے خالق کا حکم ماننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر سمجھتا تھا وہ تکبر میں آگیا تھا لہٰذا اکڑ کر کھڑا رہا تو رب العزت نے اسے ابلیس کے نام سے مخاطب کیا اور اس کی نافرمانی کی وجہ سے اسے جنت سے نکال دیا گیا اور فرمایا کہ تو ان میں سے ہوگا جو ذلیل و خوار ہیں۔ لہٰذا تکبر کی راہ ابلیس کا سفر ہے اس سے بچنے میں ہی انسان کی بھلائی ہے۔
بات شروع ہوئی تھی مذہبی لحاظ سے مقدس اور متبرک ہستی کے حوالے سے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم مسلمان ہونے کے اعتبار سے انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ہمارا وژن بالکل واضح ہے ہمیں ادھر ادھر ٹٹولنے کی ڈھونڈنے کی چھان پھٹک کی ضرورت ہی نہیں۔ ہمارا لنک واسطہ حضور اکرمؐ سے ہمارے رب سے جڑتا ہے اور نہایت آسانی سے ہماری لائن آن ہوجاتی ہے چاہے گناہوں کا ڈھیر پہاڑ جیسا اونچا ہو کہ وہ اعلیٰ ظرف کے ہیں، اعلیٰ اخلاق کے ہیں رمضان المبارک میں ہمیں خاص طور پر اس اہتمام سے اپنے روزوں کی تیاری کرنا ہے کہ یہ مذہبی فریضہ ہم خاص کر اپنے رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے رکھ رہے ہیں اور جب نیت خاص ہو تو منزل تو آسان ہو ہی جاتی ہے۔ خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے۔ (آمین)