دو منٹ کا سوال ہے
بے شمار کرسی کے طلبگاروں کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا تھا اور وہی جعلی ڈگریوں والے اور پسماندہ ذہنیت کے۔۔۔
اوہ میرے خدا! میں چلتے چلتے رک گئی، وہ 18-17 سالہ لڑکا ملگجے سے لباس میں ملبوس تھا۔ میڈم! سوچتا ہوں کہاں سے شروع کروں؟ تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں ہے، مطلب کی بات کرو، ایک منٹ گزرا جاتا ہے، جی جی! مجھے اندازہ ہے۔ وہ گھگیایا، جی میں بارہویں جماعت کا طالب علم ہوں، گورنمنٹ ڈگری کالج میں پڑھا کرتا تھا، پھر اچانک ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ وہی پرانی کہانی، ہم نے جھنجھلاکر کہا، نہیں پرانی نہیں، نئی کہانی بھی اسی میں شامل ہے، دونوں کی آمیزش اس کی بنیاد میں شامل ہے۔
اف۔۔۔۔! یہ تو کہانی کار نکلا، خیر ہم نے صبر کا گھونٹ پیا اور دھیما لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا، بھئی تم اصل مطلب پر آؤ، پورے پانچ منٹ ہونے ہی والے ہیں۔ مجھے احساس ہے میڈم! وقت پر لگا کر اڑ رہا ہے اور آپ جلدی میں ہیں، کیا سناؤں؟ وہ خلاؤں میں گھورنے لگا، کچھ تو سناؤ! ہم نے آگے بڑھنے کے لیے قدم اٹھایا، دفتر کا مقررہ ٹائم ہوگیا تھا اور اب تک ہم سر بازار کھڑے تھے، صرف دو منٹ کا سوال ہے، اس بار ہم نے گھورنے سے کام چلایا اور وہ نگاہوں کا مفہوم سمجھ گیا، چھوٹی سی عمر میں ہی زمانہ شناسی میں ماہر معلوم ہوتا تھا۔
پھر جو وہ بولا ہے تو ایسا بولا، جیسے کفن پھاڑ مردہ، کہیں کوما، فل اسٹاپ نہیں تھا، بے تکان بولے جارہا تھا۔اس دومنٹ کا انجام اس طرح ہوا کہ ہماری جیب خالی ہوگئی اور اس کی بھرگئی اور وہ بھری جیب لے کر نہ جانے کہاں نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور ہم جب ذرا ہوش میں آئے تو ہاتھ ملنے کے سوا کوئی کام نہ تھا، کافی دیر ہوچکی تھی، لہٰذا دفتر جانا اچھا نہ لگا کہ خوامخواہ شرمندگی اٹھانی پڑے گی کہ لیٹ آئے ہیں اور ڈانٹ، ڈپٹ علیحدہ۔ ظاہر ہے پوچھ گچھ تو ہوگی، اٹینڈنس رجسٹر الماری میں لاک ہوچکا ہوگا۔ گوکہ ہمارا شمار افسران میں ہوتا ہے، لیکن افسران بالا بھی تو دفتر میں موجود ہیں۔
گھر جاکر دو طرح کی کیفیات غالب آئیں ایک خوشی کی کہ چلو 1500 کی حقیر رقم سے اس بے چارے کی مدد ہوگئی، جس کی ماں بیمار ہے، بھائی ٹارگٹ کلنگ کی نذر ہوگیا، بہن کو 5 سال پہلے اغوا کرلیا گیا تھا، جس کا آج تک پتہ نہ چلا، ماں، وقت سے پہلے بوڑھی ہوگئی اور ساتھ میں گھر کا شیرازہ بکھرنے پر نیم پاگل بھی۔ ان حالات میں ان پیسوں سے دوا بھی آجائے گی اور ایک دو دن کے کھانے کا انتظام بھی ہوجائے گا، لیکن دوسری کیفیت بے حد مایوس کن تھی کہ ہمیں اپنی کوتاہ عقلی پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا، آخر ہم کون سے حاتم طائی کی اولاد ہیں، 1500 روپے میں تو ہمارے بھی وہ کام ہوجاتے جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے آج تک رکے ہوئے ہیں۔ ہر ماہ ارادہ کرتے ہیں کہ اس بار دفتر سے واپسی پر یہ چیزیں ضرور لے لیں گے، لیکن ہمیشہ بھول بھال ہوجاتی ہے، کبھی ٹریفک جام اور کبھی حالات خراب ہونے کی وجہ سے اپنے ارادوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔
خیر کوئی بات نہیں، لڑکا واقعی پڑھا لکھا تھا، اور آج کل نوکریوں کا فقدان ہے۔ ان حالات میں لوگ خصوصاً نوجوان ہاتھ میں کچھ چیزیں، مثال کے طور پر مسواک کی لکڑیاں، ازاربند کے پیکٹ اور میک اپ کا تھوڑا بہت سامان لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں، بیچتے کم ہیں، بھیک زیادہ مانگتے ہیں کہ یہ بھی گداگری کا ایک انداز ہے۔ خیر! نیت تو اﷲ ہی کو معلوم ہے، ہم نے تو ثواب اور مدد کے طور پر رقم دی تھی، سو اچھا ہی ہوا۔ ہمارے اطراف میں گداگروں کا جم غفیر ہے، جو بھیک تو مانگتے ہی ہیں، بلکہ ہٹ دھرمی بھی دکھاتے ہیں۔ یا تو آپ شرافت سے کچھ نہ کچھ ضرور دے دیں، یا پھر سختی سے ڈانٹ دیں، پہلی صورت میں ایک فقیر کی کامیابی دیکھ کر دوسرے فقراء اردگرد جمع ہوجاتے ہیں اور شریف انسان بیٹھے بٹھائے مصیبت میں پھنس جاتا ہے اور جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتی ہے، دونوں طرف سے دھواں دھار مقابلہ شروع ہوجاتا ہے اب جسے کامیابی حاصل ہوجائے، وہی فاتح کہلائے گا۔ موجودہ دور میں فتح بھی کیا فتح ہے، فتح کے پردے میں ناکامی اور ناکامی کے پردے میں فتح مضمر ہے۔
اقتدار کے حوالے سے بھی غور کریں تو ایسے ہی حالات ہیں، بے شمار کرسی کے طلبگاروں کو الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا تھا اور وہی جعلی ڈگریوں والے اور پسماندہ ذہنیت کے لوگ کامیاب ہوگئے۔ ان حضرات کے ماضی کو بھی بھلادیا گیا کہ انھوں نے کس مشکل میں ملک و قوم کی خدمت کی تھی ان کا شمار بھی مانگنے والوں میں ہی ہوتا ہے، پہلے ووٹ مانگتے ہیں اور پھر نوٹ۔ یہ ووٹوں اور نوٹوں کا کھیل سالہا سال سے جاری ہے، جس کے پاس نوٹ اور سفارش نہیں ہے بڑے لوگوں سے اچھے روابط نہیں، تو وہ بے چارہ ان خوبیوں کی محرومی کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑسکتا۔ عمران خان جیسے دیانت دار، ملک وطن سے محبت کرنے والے لوگ بہت کم ہیں ان کا ماضی بھی شاندار رہا ہے، پھر شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی نے ان کا وقار بلند کیا ہے اور انھوں نے دعاؤں سے جھولی بھرلی ہے۔
ان کے ہاتھ میں کشکول بھی نہیں ہے اور نہ کبھی آئے گا انشاء اﷲ۔ پاکستان کے صاحب اقتدار نے کشکول کے ذریعے دولت تو بہت حاصل کی ہے، لیکن اعتبار گنوا دیا ہے اب اگر یہ بے چارے غرباء و فقراء نئی نئی چالوں سے بھیک مانگتے ہیں تو ان بے چاروں کی بھی کیا غلطی، اوپری سطح سے بھیک نچلی سطح تک چل رہی ہے۔ کوئی حکومت ایسی نہیں آتی ہے جو نہ کہ اپنے کشکول کا ساتھ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے اور اگر زکوٰۃ و خیرات کی مد میں جو رقم دیار غیر سے آئی وہ مستحقین میں تقسیم کی جاتی تو بے سہارا اور مجبور لوگ تھوڑی سی رقم کے لیے بھی دفتروں کے چکر نہ کاٹتے۔ رہی پیشہ ور بھکاریوں کی بات تو ان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ جن کی ادائیگی حکومت وقت پر لازم ہوتی ہے۔
روٹی کا سوال یا دو منٹ کا سوال وہی لوگ کرتے ہیں جو حقیقتاً ضرورت مند ہیں۔ روزگار فراہم کرنا اور ان پیشہ ور گداگروں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سبیل ضرور نکالنی چاہیے، ورنہ ہم جیسوں کو دفتر کے لیے تاخیر ہوتی رہے گی۔