بحرالکاہل ہند اور ایشیا
عسکری ماہرین ایشیا پیسفک میں چین کے خلاف بننے والے محاذ کے لیے نئے ’’ملٹری‘‘ تعاون کا نام دیتے ہیں۔
RAWALPINDI:
پاکستان1947میں قائم ہوا، اُس وقت گلوبلائزیشن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی، اگرچہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے اس کے آثار نمایاں ہوچکے تھے۔ مخالف فوجی اتحادوں کی تاریخ سے کئی سبق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سبق صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں ہیں، بلکہ انھیں بھی یاد رکھنے چاہئیں جو بھولتے جارہے ہیں کہ سیاسی اور معاشی اتحاد ہی فوجی تعاون کی راہ کھولتا ہے۔ پاکستان نے 1965اور 1971 میں یہ اہم سیاسی، معاشی اور فوجی میدان کے سبق نہیں سیکھے۔
قیام کے وقت ہی سے پاکستان ایک ایسا ملک رہا ہے، جس کے دو بازوؤں کے مابین ہزار میل کا فاصلہ تھا، مشرقی پاکستان عناد رکھنے والے دشمن کے نرغے میں تھا، اور ہمارا یہی پڑوسی ہمیشہ ہماری سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہا ہے۔
معیشت کے ساتھ ساتھ عقل و منطق کا فیصلہ بھی یہ ہوتا کہ مشرقی و مغربی ''بازوؤں'' کو عسکری طور پر اپنی اپنی جگہ مستحکم ہونا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے مغربی پاکستان کی قیادت نے قومی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ بارہ انفنٹری ڈویژنز اور دو آرمرڈ ڈویژنز کے علاوہ کچھ دیگر بریگیڈز کے ساتھ ہماری تقریباً 95 فی صد عسکری قوت پاکستان کے مغربی حصے میں تعینات تھی۔ مشرقی پاکستان میں انفنٹری کا صرف ایک ڈویژن(ایک اضافی بریگیڈ کے ساتھ)، جنگی طیاروں کا صرف ایک اسکوارڈن اور نیوی کی چند گن بوٹس تھیں۔
اگرچہ بعد میں بہت تاخیر سے ہلکے اسلحے سے لیس دو انفنٹری ڈویژن (اس کے ساتھ مقامی سطح پر بنایا گیا ایک اور ایڈ ہاک ڈویژن بھی شامل تھا) بھیجے گئے لیکن اس وقت تک اس حماقت خیز ''حکمت عملی'' کی قلعی کھل چکی تھی جس میں مشرقی حصے کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، 1971میں سقوط مشرقی پاکستان اس ناکامی کا ثبوت ہے۔ 1979سے ہم نے یہ مضحکہ خیز مفروضہ بنا رکھا ہے کہ ''افغانستان میں پاکستان کے لیے تزویراتی گہرائی ہے''، جب کہ افغانستان ہمارے لیے صرف ''دردِ سر'' ہی ثابت ہوا ہے۔
گلوبلائزیشن کی رفتار جوں جوں بڑھتی جارہی ہے، طاقت کے مراکز بھی تبدیل ہورہے ہیں۔ چین کی ابھرتی قوت سے خائف، امریکا کی زیر قیادت مغرب کے سخت گیر عناصر گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کی پیش قدمی روکنے کے لیے طرح طرح کے جتن کررہے ہیں۔ ایشیا کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر بالادستی قائم کرنا مغرب کی حکمت عملی کا بنیادی عنصر ہے۔
صدر اوباما کے دور میں امریکا نے ایشیا کو اپنا معاشی ''محور'' قرار دیا تھا لیکن اس سلسلے میں سیاسی یا اقتصادی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ جاپان نے دوسری عالمی جنگ کے بعد فوج نہ رکھنے کی اختیار کردہ پالیسی تبدیل کر دی۔ چین کے ساتھ اس کی نفرت صدیوں کی تاریخ رکھتی ہے اور اب جاپان کی سیلف ڈیفینس فورسز(ایس ڈی ایف) بحرالکاہل میں اپنی قوت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ اسٹریٹیجکل اعتبار سے بحر الہند میں بالادستی رکھنے والے بھارت کو مغرب نے خطے میں چین کے خلاف قابل اعتماد حلیف تسلیم کرلیا ہے اور ایشیا میں ہونے والے کسی بھی زمینی تنازعے کے لیے یہی چین کا مقابل ٹھہرا ہے۔
عسکری ماہرین ایشیا پیسفک میں چین کے خلاف بننے والے محاذ کے لیے نئے ''ملٹری'' تعاون کا نام دیتے ہیں۔ اس صف بندی میں جاپان، بھارت اور امریکا ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ اسرائیل کی غیر معمولی فوجی قوت خاموش ہے جب کہ اس صف بندی میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصربھی شامل ہیں۔ حوثی ان میں دو اوّل الذکر ممالک کو ایک برس سے یمن میں پیش قدمی سے روکے ہوئے ہیں، اپنی سرحد سے دور طاقت کے مؤثر استعمال کے حوالے سے مصر کی صلاحیت بھی مشکوک ہے۔ تاہم جاپان کو ایشیا میں کسی بھی زمینی جنگ کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دہائیاں درکار ہوں گی۔ دوسری عالمی جنگ کا اپنا تجربہ پیش نظر رکھتے ہوئے، جاپان کوئی ایسی جنگ چھیڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے؟
امریکا اور جاپان بحرالکاہل (بالخصوص بحیرۂ جنوبی چین کے علاقے ) میں چین کو قابو کرسکتے ہیں جب کہ امریکا اور بھارت مشترکہ طور پر بحر الہند میں اس کے آگے بند باندھ سکتے ہیں۔ اس سے کیا واقعی فرق پڑتا ہے کہ چین سمندروں میں قائم ہونے والی ان صف بندیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے گا؟ بالکل تیرہویں صدی کے اوائل کی طرح۔ چنگیز خان نے ہمیشہ سوداگروں کے لیے زمینی راستے کھلے رکھے، اس نے کئی بار یہ کہا تھا کہ منگول کبھی سمندروں پر غالب نہیں آسکتے۔
1904میں معروف برطانوی جغرافیہ داں ایچ جے میکنڈر نے ''تاریخ کا جغرافیائی محور'' کا تصور پیش کیا تھا جس کے مطابق یوریشین خطہ میں طاقت کے مراکز قائم ہونا تھے۔
میکنڈر کی بات درست ثابت ہونے میں سو برس لگے۔ امریکا کو ایشیا (کوریا، ویت نام، افغانستان) میں لڑی جانے والی زمینی جنگوں میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی طرح ایشیا کی مرکزی سرزمین پر جاپان کے ساتھ بھی ایک ماضی ہے۔ اپنی طاقت ور بحریہ کے ساتھ وہ بھارت کو زمینی مقابلے میں چین کے قابل کرنا چاہتا ہے۔ یہ انداز فکر ہمیں 1971سے قبل اور بعد کی پاکستانی حکمت عملی کی یاد دلاتا ہے، ایشیا میں قدم جماتی ہوئی دیگر قوتوں کو دیکھا جائے تو یہ حکمت عملی حقیقت کے منافی محسوس ہوتی ہے۔
نکسن نے 1970کی دہائی میں سوویت یونین کے ساتھ چین کے اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چینیوں کو مغرب میں رسائی دی۔ وقت بہت بدل چکا۔
عین ممکن ہے کہ بحرالکاہل میں صف آرا ہونے والوں کو میدان جنگ میں چین اور روس کے مشترکہ جواب کا سامنا کرنا پڑے؟ امریکا کا طیارہ بردار بحری بیڑہ اتنا طاقت ور ہے کہ کسی بھی زمینی جنگ پر براہ راست اثر انداز ہوسکتا ہے، لیکن کیا ایشیا کی بڑی سرزمین پر سمندر میں ہونے والی یہ صف بندی کوئی اثر دکھا پائے گی؟صرف فضائی قوت سے جنگیں نہیں جیتی جاتیں، اس کے لیے میدان پر فوج اتارنا ہی پڑتی ہے۔
نہیں تو یہ بحری بیڑے صرف لگژری کروز ہی ثابت ہوں۔ طاقت کے مراکز یوریشین سرزمین کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ گو کہ چین اور روس اس خطے کی سب سے بڑی قوتیں ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں اس وسیع عریض علاقے ، مختلف افراد، ثقافتوں، روایات اور مسائل رکھنے والے میں بالادستی حاصل نہیں ہوئی ہے، یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب یہاں سڑکوں اور ریل پٹڑیوں کے جال بچھانے کے لیے مشترکہ کاوشیں کی جائیں۔
اسی وجہ سے ''ون بیلٹ ون روڈ'' کا تصور، سی پیک جس کا حصہ ہے، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کے لیے یوریشیا مرکز ثابت ہوگا جس میں ممالک اور مختلف قوتوں کے غیر معمولی اتحاد تشکیل پائیں گے، پاکستان بھی اس میں شامل ہوگا۔ مغرب سے مشرق کی جانب جاتے ہوئے، بحیرۂ عرب سے وسطی ایشیا تک اس خطے کی اہمیت یہ ہے کہ روس اور چین ، پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
ہمارے حکمت کاروں کو بھارت، کشمیر اور افغانستان پر نظریں گاڑے رکھنے کے بجائے اب کچھ بڑے منظر ناموں کی جانب بھی دیکھنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمیں مختلف ممالک، قوتوں اور معیشتوں کے مابین بننے والے رابطوں میں مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی بھی یک طرفہ اتحاد سے دور رہنا ہوگا جیسے سعوی عرب اور امارات کا اتحاد یا چاہے اس میں ایران اور ترکی کا حوالہ ہی کیوں نہ شامل ہو۔
اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم ان ممالک میں سے کسی کے ساتھ عسکری روابط نہیں رکھ سکتے، ایسا ممکن ہے لیکن اس کی قیمت پر اور دیگر ممالک سے دوری اختیار نہیں کی جاسکتی۔ جس طرح ہم نے امریکا کے زیر قیادت فوجی اتحاد کا حصہ رہنے کے باوجود چین کے ساتھ ساٹھ برس اپنی دوستی نبھائی ہے، اسی طرح ہمیں امریکا کے لیے بھی دروازے کھلے رکھنے ہوں گے۔ یمن جنگ میں فوجیں نہ بھیج کر ہم نے اپنی ذمے داریوں کا ادراک کیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم ایک ایسا فورم ہے جہاں اقتصادی اور سیاسی مسائل کے ساتھ سلامتی کو درپیش سوالات ایک ساتھ اٹھائے جاسکتے ہیں اور ان کا حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں، یہ کالم پاک امریکا تعلقات پران کے سلسلۂ مضامین کا چوتھا حصہ ہے)