ہم 14 ویں صدی میں کھڑے ہیں
سوچ اور رویے کے لحاظ سے ہم آج بھی 14 ویں صدی میں زندہ ہیں۔
قرار داد مقاصد کی منظوری کے روز ہی پتہ لگ گیا تھا کہ آگے چل کے خسارے ہی خسارے ہونگے لیکن یہ یقین نہ تھا کہ سارے کے سارے ہمار ے ہی ہونگے۔ خسارے بڑھتے ہی چلے گئے ہم ہر خسارے پر چلاتے رہے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا چلانا بڑھتا ہی چلا گیا، اتنے چلائے کہ پھر آواز ہی گم ہوگئی اور پھر ہر طرف سناٹے ہی سناٹے ہو گئے اور بات چلانے سے سرگوشیوں تک جا پہنچی۔
آج جس سے بات کر لو وہ سرگوشی کرتا ہوا ہی ملے گا روتا ہوا ہی ملے گا، کبھی بدعنوان حکمرانوں کا رونا رو رہا ہوگا کبھی کر پشن اور لوٹ مار کی دہا ئیاں دے رہا ہوگا، کبھی انتہا پسندی اور دہشتگردی کی سرگوشی کر رہا ہوگا، کبھی لوڈ شیڈنگ کبھی پانی اور گیس کی قلت کبھی بد نظمی اور بدامنی کا رونا رو رہا ہوگا غرض ہر اس چیز پر جو اس کی زندگی کے لیے عذاب بن چکی ہے رو رہا ہوتا ہے۔
ہر بات کے آخر میں یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے یہ سب کچھ کب ختم ہوگا آخر ہر زیادتیوں اور ناانصافیو ں کی ایک حد ہوتی ہے اور اس حد کے اس پار پھر خوشحالی، چین، امن، ترقی اور سکون ہی ہوتا ہے لیکن اکہتر سال گزرنے کے با وجود ہم ان حدوں کے اس پارکیوں نہیں پہنچ پا رہے ہیں،کیوں نہیں ہمارا سفر ختم ہورہا ہے۔
یاد رکھیں ہم کبھی بھی اپنے اسی رویے اور سوچ کے ساتھ اس پار نہیں پہنچ پائینگے کیونکہ ہماری اسی سو چ اور رویے نے ہمارے پاؤں میں بیٹریاں ڈال رکھی ہیں اور ہم اپنی ان بیڑیوں کی وجہ سے ایک قدم بھی چل نہیں پارہے ہیں اصل میں ہم ساری زندگی اس کیوں کے پیچھے پڑے رہے ہیں اور وہ بھی ہاتھ پاؤں دھوکر ۔ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کو شش ہی نہیں کی کہ آخر یہ سب کچھ ہو کیوں رہا ہے یہ سب آخر ختم کیوں نہیں ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں اصل مسئلہ کیوں میں نہیں بلکہ آخر کیوں میں ہوتا ہے، ہم نے اپنی ساری زندگی علامات کو کوستے کوستے ختم کر دی ہے۔
ہم نے کبھی اس کیوں کو جاننے، سمجھنے اور اس کے پیچھے دیکھنے کی ہی کوشش نہیں کی۔ ہماری دلچسپی ہمیشہ ہی سے بیماری کے خاتمے میں نہیں بلکہ علامات کے خاتمے میں رہی جس طرح اگر کسی شخص کے جسم میں کہیں درد اٹھے یا اسے بخار ہوجائے اور وہ پیناڈول کھاتا رہے اور وقتی طور پر سکون حاصل کرتا ہے تو ایسے شخص کو آپ کیا کہیں گے۔
ظاہر ہے کہ درد یا بخار تو ایک علامت ہے بیماری نہیں اور کوئی صرف علامت کو وقتی طور پر ختم کردے اور اصل بیماری کی طرف توجہ نہ دے تو نتیجہ کیا ہوگا، کہنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ہی حال ہمارا ہوا ہے ہم نے کبھی بھی اپنی اصل بیماری کی طرف توجہ ہی نہیں دی اور جس کا نتیجہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔
اصل خرابی ہماری سو چ اور رویے میں ہے ہم جسمانی طور پر بیسوی صدی میں رہتے ہیں لیکن سوچ اور رویے کے لحاظ سے ہم آج بھی 14 ویں صدی میں زندہ ہیں اور سونے پہ سہا گہ یہ کہ ہم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ دنیا 14 ویں صدی سے آگے ہی نہیں بڑھی۔
زمانے کے ساتھ نہ چلنے اور بہت پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہم سب Autism (اپنی ذات میں مگن رہنے والی بیماری) میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ پوری دنیا بیسوی صدی میں موجود ہے اور ہم دوسری طرف 14 ویں صدی میں کھڑے پوری دنیا کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں اور ہمیں اس بات پر 100 فیصد یقین ہے کہ ہم صحیح اور دنیا غلط ہے کیونکہ ہم اپنے آپکو اپنی نگا ہ سے دیکھ رہے ہیں نہ کہ دوسروں کی نگاہ سے۔اسی وجہ سے ساری دنیا ہم سے ڈر کر دور بھاگتی ہے ہم دنیا بھر میں تنہا رہ گئے ہیں ۔
جب بھی ہم دنیا بھر کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے سماج کے بنیاد پرست، رجعت و قدامت پرست ٹھیکیدار ہمارے سامنے دیوار بن کر کھڑ ے ہوجاتے ہیں۔ آپ نے Autism میں مبتلا ٹیمپل گرینڈن کی کہانی توسن رکھی ہوگی گرنیڈن 1990ء کی دہائی میں دنیا بھر بہت نام کما چکی تھی، اکثر اسے لیکچر دینے کے لیے بلایا جاتا جن میں زیادہ تر اس کا موضوع پیشہ ورانہ تجربات، خود پسندی، Autism کی بیماری پر قابو پانا اور حیوانی رویوں سے متعلق ہوتے تھے۔
اس کے لیکچرز زبردست جارہے تھے وہ معلومات سے بھر پور ہوتے تھے مگر ایسے چند لیکچر ز کے بعد اس کے سامعین نے اس کے لیکچرز پر اپنی جس رائے کااظہار کیا وہ اس کے لیے بڑی اذیتناک تھی لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ براہ راست لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالتی اور مشینی انداز میں اپنے نوٹس پڑھتے ہی چلی جاتی ہے اور بدتمیزی کی حدتک سامعین کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے گریز کرتی ہے۔
حیران کن طور پر گرنیڈن اس بات پر ذرا بھی پریشان نہ ہوئی الٹا لوگوں کی رائے نے اس کے اندر اور جوش و خروش پیدا کردیا کیونکہ لوگوں نے اسے جیسے دیکھا اس کی حقیقی تصویر انھوں نے اسے بھی دکھا دی اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لیے اسے ایسی ہی رائے کی تو ضرورت تھی بڑی تعداد میں ملنے والے فیڈ بیک کی مدد سے اپنی خامیوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنے لیکچرکے اسٹائل میں تبدیلیاں کر ڈالیں ۔ ان میں واقعات اور لطائف شامل کیے اپنے لیکچرز کا دورانیہ کم کردیا خود کو نوٹس کے بغیر بولنے کی مشق کروائی اور ہر لیکچر کے اختتام پر سامعین کی طرف سے آنیوالے تمام سوالات کے تسلی بخش جواب دینے شروع کر دیے۔
اس کے ابتدائی لیکچرز سننے والے لوگ جب دوبارہ اس کے لیکچرز کے سامعین میں شامل ہوتے تو انھیں یقین نہ آتا کہ یہ وہی گرنیڈن ہے اب و ہ لوگوں کو ہنساتی بھی تھی اور اپنے ساتھ لیکچرمیں شامل بھی رکھتی تھی اورایک لمحے کے لیے سامعین کی توجہ ادھر ادھر نہ ہونے دیتی۔ لوگ حیران تھے کہ اس میں یہ معجزانہ تبدیلی کیسے آئی۔
اصل میں بالکل سیدھی سادی سی بات ہے پہلے گرنیڈن اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھتی تھی اس لیے اس کی ساری خامیاں اور برائیاں اس سے چھپی ہوئی تھیں اور جیسے ہی اس نے اپنے آپ کو دوسروں کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیاتو اسے اپنے تمام نقائص نظر آگئے جو اس سے پہلے اس کی نظروں سے اوجھل تھے لوگ ہمارے رویے کو باہر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اسی لیے ہمارے بارے میں لوگوں کا تاثر ہمارے اپنے تاثر سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔
اگر ہم سب Autism بیماری میں ہی مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے لیکن اگر ہم اپنی بیماری اور اپنے عذابوں سے بیزار آچکے ہیں تو پھر آئیے اپنے آپکو اپنی نگاہوں سے نہیں بلکہ دنیا بھر کی نگاہوں سے دیکھناشروع کر دیجیے اور جس وقت آپ اپنے آپ کو دنیا کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردینگے توآپکی ساری خرابیاں برائیاں اور نقائص آپکے سامنے آکر مسکرا رہے ہونگے پھر آپ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔