بیانیہ اور غیر بیانیہ
بڑی پارٹیوں کے لیڈر دونوں طرف کھیلتے ہیں، بیانیہ بھی اور غیر بیانیہ بھی۔
اس حکومت کا ایک ہفتہ باقی ہے اور پھر غروب آفتاب کے بعد ایک نئے دنگل کا اکھاڑا سجے گا۔کئی پہلوان صف آرا ہوں گے کچھ گریں گے اورکچھ بچیں گے۔ جو بچیں گے وہ ایوانوں میں آئیں گے۔ ان میں سے کچھ حکومت بنائیں گے اور کچھ اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھیں گے۔ ان دو مہینوں میں اربوں روپے خرچ ہونگے، غریبوں کی چاندی لگے گی۔ شرفاء ان کی دہلیز پر آئیں گے۔ وہ سنائیں گے یہ سنیں گے، اف نہ کہیں گے، معافیاں مانگیں گے اور نئے عہد و اقرار ہوں گے۔ قسمیں کھائیں گے اور حسب معمول پھر لوگ ان کی باتوں میں آجائیں گے۔
یہاں دو طرح کے انتخابات ہوتے ہیں ایک بیانیہ کی بناء پرانتخابات اور دوسرا برادریوں، پنچایت، جرگوں، ریتوں، رسموں،ذات پات اور قبیلے کی بناء پر۔
بڑی پارٹیوں کے لیڈر دونوں طرف کھیلتے ہیں، بیانیہ بھی اور غیر بیانیہ بھی۔ بھٹو نے بھانپ لیا تھا کہ ان کا تعلق خالصتأ سندھ سے ہے لیکن جیتنا ان کو پنجاب سے ہے۔ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوگئے۔ انھوں نے اس بیانیہ کے وہ طبل بجائے کہ وہ بیانیہ اور شوشہ پکڑ گیا۔ وہ پاکستان کے وفادار نکلے اور شیخ مجیب غدار۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور شیخ مجیب اسٹیبلشمنٹ کے خلاف۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتخابات تھے جو بالغ رائے دہی پر ہوئے۔ شاید اتنے شفاف انتخابات آج تک نہ ہوسکے ہوں اور یہ شفاف انتخابات پاکستان کے ہی گلے پڑ گئے۔
میں اس وقت، پاکستان امریکا کی جدید نو آبادیاتی کالونی تھا شیخ مجیب آزاد امریکا سے پاک پاکستان کی بات کرتے تھے اور اس وقت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھے۔ اسٹیبلشمنٹ پنجاب سے تھی۔ ویسٹ پاکستان سے بڑا مینڈیٹ بھٹو کا تھا اور ایسٹ پاکستان پورا مینڈیٹ شیخ مجیب نے لیا۔ بھٹو کو ایک بندہ نہ ملا جس کو وہاں وہ کھڑا کر سکیں۔ لیکن شیخ مجیب کو سندھ سے میرے والد ملے پنجاب سے عاصمہ جہانگیر کے والد ملک جیلانی ملے بلوچستان سے اکبر بگٹی ملے اور سرحد سے بہت سے ملے۔
اس وقت شیخ مجیب نے اسٹیبلشمنٹ کو بہت بیک فٹ دھکیلا۔ وہ تھے تو بنگالی قوم پرست مگر اسی طرح سے جیسے کہ پاکستان کی سیاست میں جیسے آج میاں نواز شریف ہی جس نے بینظیر کو پنجاب سے بوکاٹہ کرنے کے لیے ''جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ'' کا نعرہ دیا ۔1967ء کے صدارتی ریفرنڈم میں جب فاطمہ جناح نے ایوب سے مقابلے کی ٹھان لی تو شیخ مجیب فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوئے۔
وہ نہیں تھا غدار مگر غداری کا تلک اس کے ماتھے پر سجا دیا گیا اور اس کے بعد وہ 24 مارچ 1971 کی شام میں میرے والدشیخ مجیب کے دھان منڈی گھر میں آخری بار ملتے ہیں۔ شیخ مجیب کہتے ہیں قاضی صاحب! اب ہم دو الگ ملکوں کے شہری ہیں اگر آپ واپس نہیں جانا چاہتے ہیں تو میں آپ کا یہاں کسی دوست کے پاس رہنے کا بندوبست کردوں، یہاں کل سے بہت خونریزی ہونے والی ہے۔
ابا لکھتے ہیں کہ جب وہ ان کو ٓاخری بار الوداع کہنے کے لیے بغل گیر ہوئے تھے تو انھوں نے ابا کو ایک بوسہ دیا اور ابا نے بھی۔ان کی آنکھ سے آنسو ٹپک پڑے اور ابا بھی رو پڑے۔ میر غوث بخش بزنجو جب نوابشاہ MRD کی تحریک کے دور میں آئے تھے تو کہنے لگے24 مارچ 1971کی اس شب تمہارے والد کو میں نے ڈھاکا میں بچایا تھا اور ہم اس آخری جہاز جو ڈھاکا سے روانہ ہوا اس کے ذریعے سری لنکا پہنچے ورنہ تمہارے والد ڈھاکا میں مارے جاتے۔
میں ایک جذباتی نوجوان DSF جام ساقی کی تنظیم سے وابستہ تھا ۔ بزنجو صاحب کوکہہ بیٹھا مرنے دیتے میرے ابا کو ہمارا ایک لہو مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی بہتا۔ ہمارے ریڈیو اور ابلاغ عامہ ہمیں کچھ بھی نہیں بتاتے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ وہاں کوئی سوشل میڈیا بھی نہیں تھا ہمیں یہی کہا گیا کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھٹو کے ساتھ اور خود پنجاب کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ۔ ابا کہتے تھے کہ جب بنگالیوں پر برے دن آئے تو ولی خان، جی ایم سید جیسے بڑے بڑے تو نگر و دولائی بیچ کے راستے لے کر بیٹھ گئے۔
میں نے یہ سوال اس وقت کے NAP کے لیڈر خیر بخش مری سے انٹرویو میں پوچھا تھا اور اس شریف آدمی نے اعتراف بھی کیا، بس صرف یہ کہا کہ ہم NAP میں اپنی بات رکھتے تھے مگر NAP نے ہماری نہ سنی۔ NAP پر پابندی لگ گئی ۔ خیر بخش مری تو غدار ٹھہرے ولی خان، باچا خان سب کے سب غدار اور بھٹو محب وطن۔ مشرف کے زمانے میں بگٹی غدار۔ ضیاء الحق کے زمانے میں بھٹو غدار۔ بینظیر غدار یہ غدار وہ غدار۔
واپس آتے ہیں بحث کی طرف۔ شیخ مجیب کیا تھے۔ وہ نجی بیانیہ کے لیڈر تھے اس کے پنچایتوں، برادریوں، ذات پات، قبیلائی ووٹ نہ تھے اور نہ ہی کوئی ایسی چیز۔ اس نے مشرقی پاکستان کواپنا بیانیہ دیا ہمارا سونار بنگلا، وہ بلا کے مقر ر تھے۔ جب نوابشاہ میں1970 ء میں ہمارے مہمان ہوئے تو میں نے ان کے گود میں بیٹھ کر وہ جلسہ دیکھا تھا اور پھر ان کی تقریر سنی تھی۔
بدنصیبی سے آج کے پاکستان میں کوئی خالص بیانیے کا لیڈر نہیں۔ سچ پوچھیے تو یہاں صرف بیانیے کا کاروبار ہے۔ اور گلشن کا یہ کاروبار خوب چل رہا ہے، بھٹو بیانیہ بھی رکھتے تھے اور جاگیردار بھی۔ میاں نواز شریف بھی اسی طرز کے سیاستدان ہیں۔ بھٹو نے جب اسٹیبلشمنٹ کو چھیڑا یا اسٹیبلشمنٹ نے بھٹو کو، تو جاگیردار بھاگ گئے اور بیانیہ اس کے ساتھ مرتے دم تک رہا۔ ان کی پھانسی جمہوریت کی شان اونچی کرگئی اور پھر اس کی بیٹی اس کے دو بیٹے بھی تاریک رہوں پر مارے گئے۔ مگر جمہوریت نہ جھکی۔
بیچارے سندھی، نہ تن پہ پیرہن تھے نہ پاؤں میں چپل۔ ان کے پیٹ پیٹھ سے لگتے تھے مگر بھٹو کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں روشنی آجاتی تھی اور ساری بھوک مر جاتی تھی۔ وہ اپنا عہد وفا اس کی بیٹی بینظیر کے نام کر چلے کہ اس کی بیٹی بھٹو سے بھی ایک لحاظ سے دو قدم آگے تھی، مگر تھی یہ سندھی وڈیروں کے پاس گروی۔ بھٹو اور بینظیر کے پاس یہ لوگ بھی بیٹھتے تو وڈیرے بھی۔ بھٹوگیا، بینظیرگئی تو سندھ سے بیانیہ بھی گیا اور اب آصف زرداری، بلاول بھٹو کے زمانے ہیں۔
سندھ نے بیانیہ سے نجات پالی۔ وہ گڑھی خدا بخش بھٹو میں لوگ گدھا گاڑی چلاتے ہیں جو چالیس سال پہلے چلاتے تھے۔ میاں نواز شریف کے پاس بیانیہ بھی ہے اور غیر بیانیہ بھی۔ اس نے جب یہ روشنی اپنالی ہے کہ غیر بیانیہ اس سے چھوٹا جا رہاہے اور بیانیہ اسے پکڑتا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ نہیں ہوگا جو بھٹو اور سندھیوں کے ساتھ ہوا۔ بھٹو کے سندھیوں کے ساتھ اس لیے ہوا کہ بھٹو نے ان کی تقدیر نہ بدلی۔ وہی بوسیدہ سے مکان وہی ٹپکتی چھت اور اس کے بعد زرداری کی حکومت نے تو باقی جو بچا تھا وہ بھی چھین لیا۔
اب سندھی بحیثیت قوم غذا کی کمی سے الجھی ہوئی قوم کے سواء کچھ بھی نہیں۔میاں نواز شریف بیانیہ اس لیے مضبوط کہ سینٹرل پنجاب کی حیثیت مضبوط اور وہاں کے اکثریتی متوسط طبقے سے ہے۔ کل جو بینظیر کہتی تھیں کہ سندھ میں کھنبے یا میٹر ریڈر کو سیٹ دوں گی تو وہ بھی جیت جائے گا۔ آج یہ سچ نہیں۔ آج سوائے وڈیروں کے وہ کسی کو بھی سیٹ دینے کے لائق نہیں فقط سینیٹ ہی ہے جہاں شیری رحمان آسکتی ہیں۔
اب یہ میاں نواز شریف سینٹرل پنجاب میں کہہ سکتا ہے کہ وہ جسے بھی سیٹ دیں وہ جیتے گا۔
اس بار جب الیکشن دہلیز کو لگے ہیں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں پھر نہ ایک معلق (ہنگ) قومی اسمبلی سینیٹ کی طرح ابھر آئے۔ سارے پنجایتی، برادریوں، ذات پات، والے لوگ جیت کر آگے آئیں اور کوئی بھی سادہ اکثریت بنا پائے، یوں پھر کوئی قدوس بزنجو یا صادق سنجرانی سامنے آئے۔بہر حال جو بات ریکارڈ پر رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ کل یہاں میاں نواز شریف بھی جنرل ضیاء الحق کے صادق سنجرانی و قدوس بزنجو تھے۔ اور بھٹو بھی جنرل ایوب کے کچھ تھے۔ یہ سب کچھ جو نہ تھا وہ بینظیر تھی۔
مغربی پاکستان جو آج کا پاکستان ہے، مشرقی پاکستان کی جدائی کے بعد اپنی جمہوری قوت کھو بیٹھا ہے اور یہی ہے جو ہے اور ہونا ہے، شاید رہنا ہے۔یاں وہی ہے جو اعتبار کیا۔ آج کے میاں صاحب واپسی وہیں کو لوٹ جائیں گے جس طرح شاعر کہتا ہے:
پہنچی وہیں پہ خاک
جہاں کا خمیر تھا