انہونی

کہانی بہت لمبی ہے۔ملک میں سویلین بالادستی کی بنیاد اس وقت رکھ دی گئی تھی جب نواز شریف لیڈر بن کر ابھرے۔


Zamrad Naqvi April 21, 2013

پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ''انہونی'' ہو رہی ہے کہ سابق آرمی چیف (ر) جنرل مشرف پر غداری کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ ایسا ماضی میں نہیں ہوا حالانکہ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک سب نے حکمرانی کی۔ پاکستان میں بھی وہی کچھ ہونے جا رہا ہے جو جنوبی کوریا، فلپائن، ترکی اور حال ہی میں مصر میں ہو چکا ہے۔ ہو بہو وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے... آئیے دیکھتے ہیں کہ امریکا کی ہمارے خطے کے حوالے سے پالیسی کب اور کیسے تبدیل ہوئی جس کا نتیجہ آج جنرل مشرف کی گرفتاری کی صورت میں برآمد ہوا۔

اس کا آغاز 2006 ء میں اسرائیل کے لبنان پر حملے سے ہوتا ہے جس کا مقصد مشرقی وسطیٰ کی تشکیل نو سے تھا مگر حزب اللہ کے مٹھی بھر جوانوں کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست نے اس تشکیل نو کے منصوبے پر عمل درآمد وقتی طور پر روک دیا۔ لیکن یہ منصوبہ ختم نہیں ہوا۔مشرق وسطیٰ میں تبدیلی آگئی جس کے نتیجے میں آج ہم مصر، تیونس، لیبیا، یمن میں ''جمہوریت'' دیکھ رہے ہیں۔ امریکا کی مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لانا اس کی مجبوری تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو القاعدہ کا ان ممالک پر قبضہ ہو جاتا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا کہ آخری لمحوں میں کسی سے (القاعدہ) اس کا شکار چھین لیا جائے۔پاکستان میں جنرل (ر) مشرف کی گرفتاری کی صورت میں سویلین بالادستی کا آغاز ہو رہا ہے۔

کہانی بہت لمبی ہے۔ملک میں سویلین بالادستی کی بنیاد اس وقت رکھ دی گئی تھی جب نواز شریف لیڈر بن کر ابھرے۔ پیپلز پارٹی کے ذریعے متعدد مرتبہ یہ تجربہ کیا گیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ اب صورتحال بہت بدل گئی ہے ۔ ملک میں جمہوریت پانچ سال پورے کرگئی ہے ۔ اب جمہوری بالادستی کے حوالے سے صرف ''وقت'' معین کا انتظار ہے۔ امریکی نقطہ نظرسے مسئلہ کشمیر کا حل' پاک بھارت دوستی اور دہشت گردوں اور ان کی دہشت گردی کا خاتمہ جمہوریت سے ہی ممکن ہے اور یوں مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک کی ''ری برتھ'' ممکن ہو جائے گی۔

اسرائیل کے لبنان پر ناکام حملے نے مشرف کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا ورنہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور کرانے سے لے کر مشرق وسطی کی ری برتھ میں پاکستان کا کردار بھی تھا۔ ماضی میں مشرف کی ہنری کسنجر سے ملاقاتیں بلاوجہ نہیں تھیں۔ 2006ء میں مشرف کا اقتدار نصف النہار پر تھا کہ اچانک اس سال کے آغاز پر ان کے خلاف ''سازشیں'' شروع ہو گئیں... اس کا آغاز سیمنٹ اسکینڈل سے ہوا، پھر اسٹیل مل' اسٹاک ایکسچینج اسکینڈل سامنے آئے جب اس سے بھی بات نہ بنی اور مشرف کا اقتدار ڈانوں ڈول نہ ہو سکا تو لال مسجد آپریشن نے ان کے اقتدار کے خاتمہ پر مہر لگا دی ۔

حالانکہ مشرف ہی وہ شخص تھا جنہوں نے طالبان کو جب وہ نومبر 2001ء میں راتوں رات کابل سے فرار ہو گئے تھے، ان منتشر اور بکھرے ہوئے طالبان کو ''محفوظ جنت'' فراہم کی جس کے نتیجے میں وہ چند سال کے عرصے میں وہ پھر ایک بڑی طاقت بن گئے۔ مشرف کا سب سے بڑا جرم امریکیوں کے نزدیک یہی تھاکہ اس نے طالبان کو منظم کر کے امریکیوں کے مقابلے پر لا کھڑا کیا اور اس چیز نے انھیں اقتدار سے محروم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ شروع میں انھیں اقتدار سے محروم کرنے کی یہ تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور 2006ء کے آخر میں مشرف طویل دورہ امریکا پر چلے گئے۔ ان کے مخالفین اپنی ناکامی پر نڈھال تھے کہ آخر کار مارچ 2007ء اور اس کی 9 تاریخ امید کی کرن ثابت ہوئی جہاں سے عدلیہ بحالی تحریک شروع ہو گئی۔

پاکستان میں عدلیہ کا بڑا اہم کردار ہے۔ حالانکہ ماضی کی عدلیہ بلا چوں و چراں ہر آمر کی حمایت کرتی رہی۔ ہمارے ملک میں آخر کار ایک طویل مدت کے بعد یہ ''معجزہ'' رونما ہو ہی گیا کیوں کہ عدلیہ آزاد ہوگئی۔ اب مشرق وسطی سے پاکستان تک کے علاقے میں جہاں بادشاہتیں اور آمریتیں ہیں جمہوریت کی وہ مقدار اس خطے کے عوام کو دی جائے گی جس سے نہ ان کا معدہ خراب ہو... اور نہ ہی دماغ۔

یہ درست ہے کہ مشرف کا جرم ناقابل معافی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا جرم بھی ناقابل معافی ہے جنہوں نے اس جرم میں پاکستان بتنے سے آج تک آمروں کی اعانت کی۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ان تمام لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے جنہوں نے آمروں کی کسی صورت بھی مدد کی چاہے وہ سویلین ہوں یا کوئی اور، ورنہ صرف مشرف کو سزا دینا ادھورا انصاف ہو گا۔

مشرف صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک علامت ہے ان حکمران طبقوں کی جو صدیوں سے عوام پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اکثر لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے پاکستان آ کر غلطی کی ہے۔ انھیں یہ نہیں پتہ کہ وہ پاکستان سوچ سمجھ کر آئے ہیں۔ملک میں جمہوریت کی بالادستی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور ابھی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ دیکھیں اس جنگ میں کون فتح یاب ہوتا ہے ... رہے نام اللہ کا۔

اپریل کے آخر اور مئی کے شروع سے جمہوریت کے لیے احتیاط طلب وقت شروع ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں