یہ انوکھی دنیا

اس قصبے کے گنجے عقاب اپنے گھونسلوں کی حفاظت بڑے خوف ناک انداز سے کرتے ہیں۔


اس قصبے کے گنجے عقاب اپنے گھونسلوں کی حفاظت بڑے خوف ناک انداز سے کرتے ہیں۔ فوٹو : فائل

JERUSALEM: ٭Unalaska: گنجے عقابوں سے بھرا قصبہ

گنجا عقاب امریکا کا قومی پرندہ ہے۔ یہ پرندہ امریکی ریاست الاسکا کے ایک چھوٹے سے قصبے Unalaska میں کثیر تعداد میں پایا جاتا، بلکہ یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ اس جگہ سے اس پورے علاقے پر حکم رانی کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ اور آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے یہ تک کہتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یہ پرندہ یعنی گنجا عقاب اس علاقے کے لیے قہر الہیٰ بن جاتا ہے اور یہاں کے مکینوں کے لیے بے شمار مسائل کھڑے کردیتا ہے۔ یہ پرندے یعنی گنجے عقاب بہت بڑی تعداد میں Unalaska نامی ٹاؤن میں اڑتے اور فضا میں تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ آپ کو Unalaska کے ٹیلی فون کے کھمبوں پر بھی بیٹھے نظر آتے ہیں اور اسٹاپ لائٹس کے کھمبوں پر بھی یہ جگہ جگہ براجمان دکھائی دیتے ہیں۔ یہ گنجے عقاب اس ٹاؤن میں اڑتے ہوئے اپنے لیے شکار کی تلاش میں نظریں مسلسل زمین پر دوڑاتے رہتے ہیں اور جیسے ہی انہیں کوئی شکار دکھائی دیتا ہے تو یہ فضا میں غوطہ مارتے ہوئے اس شکار پر بہت تیزی سے جھپٹتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ یا تو ان کا شکار اپنی جان سے جاتا ہے یا پھر اتنا زخمی ہوجاتا ہے کہ پھر اسے سنبھلنے اور ٹھیک ہونے میں ایک طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔

یہ گنجے عقاب عام طور سے Unalaska کے کوڑے خانوں یا کچرا گاہوں میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں جہاں یہ کوڑے کے ڈھیروں کے اوپر منڈلاتے رہتے ہیں۔ ویسے یہ Unalaska کی سڑکوں اور گلیوں سے گزرنے والے مقامی افراد کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے روز مرہ کے سودے کے تھیلے اور بالخصوص شراب کے بیگ بھی نہیں چھوڑتے۔ ادھر کسی کی آنکھ جھپکی اور ادھر ادھر اس کا سامان جھپٹا مار کر لے اڑے۔ لیکن اس علاقے کے یہ چوہدری، یہ گنجے عقاب عام طور سے مچھلی کے شکار سے واپس آنے والے مچھیروں کے انتظار میں رہتے ہی جو شام کو اپنی مفتوحہ املاک (پکڑی ہوئی مچھلی) کے ساتھ واپس آتے ہیں تو یہ عقاب ان کے شکار پر بڑی بے رحمی سے جھپٹ پڑتے ہیں۔



Unalaska Aleutian Islands میں واقع ہے۔ یہ 14 بڑے آتش فشانی جزائر اور 55 چھوٹے جزائر پر مشتمل جزیروں ایک پوری زنجیر ہے جو دونوں بہ یک وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ریاست الاسکا اور روسی جمہوریہ کا حصہ ہیں۔ Aleutian Islands میں واقع یہ ٹاؤن جو 4,700 افراد کی آبادی پر مشتمل ہے، یہ چھوٹا سا قصبہ مچھلی کی بہت بڑی مقدار کو پروسیس کرتا ہے۔ اور مچھلی گنجے عقاب کی روز مرہ کی خوراک ہے۔

اس لیے ماہی گیری کے زمانے میں سیکڑوں گنجے عقاب اس ٹاؤن میں اپنے گھونسلے بناتے ہیں اور یہاں مچھلی کو بھی صاف کرتے ہیں جس کی وجہ سے اچھی خاصی گندگی اور بدبو بھی پورے علاقے میں پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے مقامی افراد بڑی تکلیف برداشت کرتے ہیں۔

اس قصبے کے گنجے عقاب اپنے گھونسلوں کی حفاظت بڑے خوف ناک انداز سے کرتے ہیں۔ وہ اگر کسی کو بہت دور سے بھی اپنی طرف آتا دیکھتے ہیں تو بڑے خوں خوار اور بے رحم انداز سے اس پر جھپٹ پڑتے ہیں اور آنے والے کا حشر خراب کردیتے ہیں اور اسے اس کی زندگی سے محروم کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔

یہاں عام طور سے گنجے عقابوں کے ہاتھوں زخمی ہونے والوں کی تعداد ہر سال بڑھتی جارہی ہے، اب تو ہر سال ایک درجن کے لگ بھگ افراد ان کی وجہ سے زخمی ہوکر اسپتال پہنچ جاتے ہیں اور پھر ان کے صحت یاب ہونے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔

اوپر ہم نے جو بھی باتیں بیان کی ہیں، وہ سب اپنی جگہ، لیکن ان سب باتوں نے ہی اس قصبے کو ایک غیرمعمولی اور شان دار جگہ بھی بنادیا ہے۔ یہاں کے ان گنجے عقابوں کو مقامی افراد ''ہالینڈ کی بندرگاہوں کے کبوتر'' بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ انہیں یہ نام اس لیے دیا گیا کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر گنجے عقاب ساحل کے آس پاس ہی پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چوں کہ یہ گنجے عقاب اس شہر کی لینڈ فل سائٹ کے آس پاس ہی منڈلاتے رہتے ہیں اور یہاں پائے جانے والے کچرے میں سے اپنے لیے کھانے پینے کی اشیا تلاش کرتے رہتے ہیں، اس لیے بھی انہیں اس نام سے پکارا جاتا ہے۔

جب اس ٹاؤن میں تازہ مچھلی موجود نہیں ہوتی تو یہ پرندے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کھاسکتے ہیں جیسے سمندری بگلے، آبی بطخیں، گلہریاں اور چوہے وغیرہ، غرض یہ کچھ بھی کھاجاتے ہیں۔ جب کچھ بھی نہ ملے تو یہ لوگوں کا پھینکا ہوا کوڑا کرکٹ اور کچرا تک کھاجاتے ہیں۔ کیا کریں بے چارے، پیٹ بھی تو بھرنا ہے انہیں اپنا۔

٭زنجبار کا پہاڑی ریستوراں

بحرہند کے بیچوں بیچ ایک پہاڑی چٹان پر یہ پتھریلا ریستوراں واقع ہے جو تنزانیہ کے ساحلی شہر زنجبار کے ساحل پر بڑی شان سے کھڑا ہے۔

یہ ایک ننھا منا سا چٹانی ریسٹورنٹ ہے جہاں کے ذائقے دار سی فوڈز بہت مشہور ہیں۔ اس ریسٹورنٹ کا پورا نام ''سی فوڈ ریسٹورنٹ'' ہے اور یہ اس حوالے سے مشہور ہے۔ اس خطے کا یہ واحد ریسٹورنٹ ہے جو حسین و جمیل Michanwi Pingwe beach سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔



اس ساحل پر جانے اور وہاں سے لطف اندوز ہونے کے لیے سارا دارومدار یہاں آنے والے سمندری مدوجذر پر ہوتا ہے۔ یہ سمندری مدوجذر ہی یا تو آپ کو سمندر کنارے چہل قدمی کا موقع دیتا ہے یا آپ کو غوطہ خوری کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کو سمندر میں بوٹنگ بھی کرنی ہے تب بھی سمندری پانی کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔ اس ریستوراں میں مختلف اقسام کے زنجباری ذائقوں کے حامل سی فوڈز فراہم کیے جاتے ہیں جن کے ساتھ ہمہ اقسام کی شرابیں اور مشروبات بھی مہمانوں کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ سبھی سی فوڈز یہاں ہمیشہ تازہ ملتے ہیں۔

معدومی سے دوچار فطرت کے خاکروب
گِدھوں کو بچانے کے لیے پاکستان میں کیے جانے والے اقدامات

قدرت نے کائنات کی تخلیق کے وقت سب سے پہلے انسان کو پیدا کیا اور اُسے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا۔ زمین پر انسانوں کے رہن سہن اور خوراک کا باقاعدہ ایک نظام وضع کیا اور اس نظام کو چلانے کے لیے درخت، جانور، پرندے، آبی حیات اور مچھلیاں وغیرہ پیدا کیں اور پھر انہیں مختلف اقسام کی ذمے داریاں تفویض کیں۔ قدرت نے جن چند جانوروں اور پرندوں کو ماحول کی صفائی پر مامور کیا۔ اُن میں گِدھ، چیلیں، کوّے، کچھوے اور لگڑبگے شامل ہیں۔ ان جانوروں میں گِدھ ایک ایسا پرندہ ہے جو مردار خوری کے حوالے سے اپنی ایک الگ اور منفرد شناخت رکھتا ہے۔ گِدھ جن مردہ جانوروں کو کھا تا ہے وہ پانی اور فضا کے ذریعے انسانوں میں مختلف اقسام کی جان لیوا بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین، ماحول اور زندگی کے لائف سائیکل میں گِدھوں کی اہمیت اور کردار پر روشنی اس طرح ڈالتے ہیں کہ انسانی زندگی کا بڑی حد تک انحصار فطرت پر ہے اور انسان جنگلی جانوروں اور پیڑ پودوں کے ساتھ بقائے باہمی کے طور پر زندہ رہتا ہے۔



واضح رہے کہ پاکستان میں گِدھ بہت تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کے قدرتی مسکن کی تباہی، موسمیاتی تبدیلیاں اور مویشیوں میں درد کو کم کرنے والی ایک دوا ڈکلو فینک کا عام استعمال ہے۔ قدرتی ماحول اور پرندوں کی ناپید ہوتی ہوئی نسلوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بعض ملکی وبین الاقوامی تنظیموں نے تحقیق کے بعد ڈکلو فینک کو پاکستان، بھارت اور نیپال میں گِدھوں کی تعداد میں تشویش ناک کمی کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے مویشیوں میں اس کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا اور 2006 میں اگرچہ پاکستان اور نیپال میں اس دوا پر پابندی عائد کردی گئی تھی، لیکن یہ امر باعث تشویش ہے کہ حکومتی پابندی کے باوجود یہ دوا عام دست یاب ہے اور دیہات اور دوردراز علاقوں کے لوگ آج بھی اِس دوا کو استعمال کررہے ہیں، جس سے گِدھوں کی آبادی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہوچکی ہے۔

دنیا میں پائی جانے والی گِدھ کی 23انواع میں سے 8 پاکستان میں پائی جاتی تھیں اور جو گذشتہ تین دہائیوں سے ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ تیزی سے ختم ہوئی گِدھوں کی آبادی کو بچانے کے لیے عام لوگوں میں اس کی اہمیت اور اس کے ماحولیاتی کردار کا شعور اُجاگر کرنا انتہائی ضروری ہے۔

گِدھ کو انگریزی زبان میں ولچر کہتے ہیں۔ یہ مُردہ خور پرندہ ہے جو انتہائی بلندی پر پرواز کرتا ہے اسے دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گروپ میں کیلیفورنیا اور انڈین کانڈرس گِدھ کو رکھا گیا ہے۔ اولڈگروپ شمالی اور جنوبی امریکا میں پایا جاتا ہے، جب کہ آخری گروپ جسے اولڈ ورلڈ ولچر سے موسوم کیا جاتا ہے یورپ، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان کے ریگستانی، صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے۔ مُردارخور گِدھ کی چونچ موٹی، سخت اور سامنے سے مُڑی ہوئی ہوتی ہے۔ چونچ کے اُوپر سانس لینے کے لیے دونوں طرف سوراخ ہوتے ہیں اور سر کے کسی قدر نیچے کی طرف دونوں جانب آنکھیں ہوتی ہیں، جو اُسے دو الگ اطراف میں دیکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ ایک شکاری پرندہ ہے، تاہم یہ صحت مند جانوروں پر حملہ یا اُن کا شکار نہیں کرتا بلکہ بیمار اور لاغر جانوروں کو اپنا شکار بناتا ہے۔ گِدھ کے پَر بہت بڑے ہوتے ہیں، جو بلندی سے اترنے میں اُس کی مدد کرتے ہیں۔ ان میں سونگھنے کی صلاحیت یعنی قوت شامہ بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ گروپ کی شکل میں غذا کھاتے ہیں اور جب کسی جانور کی انہیں نعش دکھا ئی دیتی ہے تو وہ فوراً جُھنڈ کی شکل میں وہاں اُترتے ہیں۔



یہ ایک ایسا پرندہ ہے جو مُردار کے اندرونی اعضاء آنت، جگر اور دل انتہائی شوق سے کھاتا ہے۔ اِسے بلندی پر مُردار کی بو پہنچ جاتی ہے اور جب یہ غذا کھا لیتا ہے تو اسے ہضم کرنی کے لئے سو جاتا ہے یا نیم خوابیدہ حالت میں رہتاہے۔ اِسے ماحول کی صفائی کرنیوالا پرندہ بھی کہا جاتاہے کیونکہ یہ جنگلوں اور ویرانوں میں مردار جانوروں کو تھوڑے ہی وقت میں چٹ کر جاتاہے۔

پاکستان گِدھ کی انواع کو تحفظ دینے والی ملکی وبین الاقوامی تنظیموں کے شانہ بشانہ ولچر کنزرویشن کے مختلف پراجیکٹس میں شریک کار ہے اور اس ضمن میں ڈبلیو ڈبلیو ایف (ورلڈوائڈفنڈفار نیچر) پاکستان اور محکمۂ تحفظِ جنگلی حیات وپارکس پنجاب، انوائرنمنٹل ایجنسی ابوظبی اور دی ہاک کنزرویشن ٹرسٹ(HCT) برطانیہ کے باہمی اشتراک سے 2007 سے لاہور سے 80کلومیٹر دور چھانگا مانگا جنگل میں قائم ایک ولچرکنزرویشن سینٹر میں کام کررہے ہیں اور اس سینٹر میں مارچ 2017 میں گِدھ کے دو مختلف جوڑوں کے ہاں دو بچوں کی بریڈنگ ہوئی جو کہ ولچر کنزرویشن کے حوالے سے پہلی کام یاب افزائش نسل کی کاوش ہے، جب کہ محکمۂ تحفظ جنگلی حیات وپارکس پنجاب 90.246 ملین کی لاگت سے ولچر ریسٹوریشن اینڈ کنزرویشن پراجیکٹ میں بھی مصروفِ عمل ہے۔ علاوہ ازیں انٹر نیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این)، وزارت ِموسمیاتی تبدیلی اسلام آباد پاکستان، سندھ وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ اور ایک مقامی تنظیم بانھ بیلی کے مشترکہ تعاون سے نگرپارکر، ضلع تھرپارکر، سندھ میں 2012 سے ایک پراجیکٹ ''سیف ولچر زون'' پر کا م کر رہے ہیں۔

تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ عوام بھی حکومت اور دیگر کنزرویشن ایجنسیوں کے شانہ بشانہ پاکستان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار گِدھ کی انواع کو تحفظ اور فروغ دینے کے لیے اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار بھرپور انداز سے ادا کریں تاکہ فطرت کے یہ خاکروب کرہ ارض پر اپنا ماحولیاتی کردار ادا کر سکیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔