بحران
ایم کیو ایم کو لسانیت کے اپنے گھسے پٹے نعرے کو بھی ’’ہمیں رہنما نہیں منزل چاہیے‘‘ کی طرح درست کرلینا چاہیے۔
کوئی تحریک یا مہم جوئی خاص مقاصد کے حصول کے لیے ہی شروع کی جاتی ہے۔ اس میں شامل افراد اپنی جدوجہد کو ذریعہ بناکر تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے سر توڑ کوششیں کرتے ہیں۔
رہنماؤں کا کام اپنی قوم کو منزل تک پہنچانے میں رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ کوئی قوم اپنے رہنما کو منزل قرار نہیں دے سکتی اور نہ ہی کوئی رہنما خود کو منزل قرار دے سکتا ہے۔ ایسا عجوبہ دنیا میں کم ہی ہوا ہے مگر ایسے رہنماؤں کا حشر ہٹلر اور مسولینی جیسا ہی ہوا ہے۔
شکر ہے کہ ایم کیو ایم نے پورے پینتیس سال بعد اپنے نعرے ''ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے'' کی تصحیح فرما کر اب اسے یوں کر دیا ہے ''ہمیں رہنما نہیں منزل چاہیے'' 5 مئی 2018ء کو لیاقت آباد کے ٹنکی گراؤنڈ میں منعقد ہونیوالے ایم کیو ایم کے جلسے میں اپنے برسوں پرانے بگڑے ہوئے اس نعرے کو درست کرکے مہاجروں پر مہربانی فرمائی گئی ہے۔اس نعرے کی درستگی پر مہاجر ایم کیو ایم پاکستان کے بے حد شکرگزار ہیں۔
دراصل انھیں اس نعرے کی وجہ سے برسوں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے اب بہرحال نجات مل گئی ہے مگر کیا پی آئی بی اور بہادر آباد والے صرف پیپلز پارٹی کے جلسے کا جواب دینے کے لیے متحد ہوئے تھے یعنی صرف چند گھنٹوں کے لیے اور اب پھر وہی سراسیمگی کا عالم ہے اور دھڑے بندی کا ماحول ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ٹنکی گراؤنڈ میں اپنا جلسہ منعقد نہ کرتی تو شاید دونوں دھڑوں کا مشترکہ جلسہ بھی نہ ہو پاتا۔ تاہم اس تھوڑی سی دیر کے متحدہ جلسے سے چاہے کچھ اور فائدہ ہوا ہو کہ نہیں مگر اتنا تو ہوا کہ مہاجروں کو شرمندہ کرنیوالے نعرے کی درستگی ہوگئی جس کی موجودگی سے مہاجروں کو اپنے مہذب ہونے اور تعلیم یافتہ ہونے پر بھی شبہ ہوتا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو ایک خالد مقبول صدیقی ہی کیا بہادر آباد کے تمام ہی رہنما اصولوں پر قائم رہنے والے لوگ ہیں۔ موجودہ دھڑے بندی کے تناظر میں ان کا فاروق ستار سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا اختلاف سراسر اصولی ہے۔
کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے لیے ایک نیا چہرہ ہیں۔ ان کی ایم کیو ایم میں ڈرامائی شمولیت چند ہی ماہ میں انھیں ڈپٹی کنوینر شپ تک پہنچانا اور محمود آباد کے ضمنی الیکشن میں امیدوار بناکر الیکشن لڑانا، پھر شکست کے بعد سینیٹر بنانے کے لیے سب سے آگے لانا فاروق ستار کی یہ شخصیت نوازی پارٹی کے اصولوں سے کھلا انحراف تھا۔
فاروق ستار کو 22 اگست کے بعد ایم کیو ایم کے تمام رہنماؤں نے اپنا متفقہ لیڈر تسلیم کرلیا تھا اور وہ ان کی اسی طور پر عزت و تکریم کرتے رہے۔ دیکھا جائے تو فاروق ستار اس کے حقدار بھی تھے اس لیے کہ انھوں نے پارٹی کے لیے ماضی میں بہت تکلیفیں سہیں، پولیس کے تشدد کے علاوہ جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کی تھیں۔ کامران ٹیسوری کا پارٹی میں اچانک داخلہ اور فاروق ستار کی جانب سے پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے زیادہ پذیرائی کی جانا اور نو وارد کو اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے دیے جانا ہی شک وشبے کا جواز بنا۔
پارٹی رہنماؤں کا اس بات پر اعتراض اصولی تھا جس پر فاروق ستار کی جانب سے سخت برہمی دکھانا اور اپنا الگ گروپ بنانا پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ انھوں نے بہادر آباد والوں کے خلاف سخت بیانات بھی دیے۔ پھر انٹرا پارٹی الیکشن کرا کے اپنی علیحدہ رابطہ کمیٹی بنالی اور اس کے خود کنوینر بن گئے۔ اس طرح انھوں نے پارٹی کا شیرازہ بکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپنا ایک علیحدہ جلسہ بھی منعقد کیا۔ جو جلسے کے بجائے جلسی ثابت ہوا۔
پارٹی کی قیادت اور پتنگ کے مسئلے پر الیکشن کمیشن تک بات کے پہنچنے، ساتھ ہی قیادت کے مسئلے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے گھر کی بات باہر گئی جس سے ووٹرز پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اب اس کے نتائج عام انتخابات میں بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فاروق ستار کی سیاست نہ تو ان کے چاہنے والوں کی سمجھ میں آسکی ہے اور نہ ہی بہادر آباد والے سمجھ سکے ہیں۔
ٹنکی گراؤنڈ کے جلسے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ اب فاروق ستار بہادر آباد والوں سے متعلق تمام غلط فہمیوں اور رنجشوں کو بھلاکر باہم شیر و شکر ہوجائیں گے اور ایک ساتھ چلنے کا اعلان کریں گے مگر پھر وہی قیادت کا مسئلہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بہادر آباد والوں کی طرف سے نہ پہلے کوئی مسئلہ کھڑا کیا گیا تھا اور نہ اب کوئی مسئلہ کھڑا کر رہے ہیں بلکہ وہ کھلے دل سے انھیں بہادر آباد آکر ایک ساتھ کام کرنے کی دعوت دے رہے ہیں تاہم اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ فاروق ستار کا اصل مسئلہ قیادت ہے مگر انھیں سوچنا چاہیے کہ ان کی جانب سے اپنا الگ گروپ بنانے، ایک شخص کی خاطر پارٹی کے وجود کو خطرے میں ڈالنے اور اپنے برسوں پرانے ساتھیوں سے اچانک بے رخی برتنے جیسے معاملے کو بھلا کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے تاہم اس کے باوجود بہادر آباد والوں کی جانب سے ان کے لیے نرم رویہ اختیار کیا جانا دراصل ان کی سابقہ خدمات کا کھلا اعتراف ہے بہرحال انھیں اپنے بدلے ہوئے رویے پر ضرور ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔
گزشتہ اتوار کو پی آئی بی کے کے ایم سی گراؤنڈ میں ایم کیو ایم کے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے پارٹی کی قیادت کے مسئلے کو پھر اٹھایا ہے انھوں نے کہا کہ انھیں خیرات میں رابطہ کمیٹی کی کنوینر شپ نہیں چاہیے۔
بہادر آباد کے دوست الیکشن لڑنا چاہیں تو لڑیں وہ نہیں لڑیں گے البتہ وہ ایم کیو ایم کا مر کر بھی ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اختلاف کی وجہ کامران ٹیسوری نہیں بلکہ ان کی سربراہی ہے۔ انھیں قیادت کی آفر تو ضرور ہو رہی ہے مگر انتخابی ٹکٹ دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان کے اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ ان کی اصل لڑائی اختیارات کی ہے۔ وہ خود کو پہلے جیسا بااختیار کنوینر دیکھنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے حالیہ رویے نے پارٹی کے رہنماؤں کے دلوں میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔
انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور ان کا اس موقعے پر قیادت اور ٹکٹ بانٹنے کے مسئلے پر الجھنا پارٹی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے ووٹرز دھڑے بندی کی وجہ سے پہلے ہی بکھر چکے ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ پی ایس پی کو ہوا ہے۔
پی ایس پی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ایم کیو ایم کو پی ایس پی سے انتخابی اتحاد بھی کرنا پڑے تو اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ فاروق ستار اپنے بعض بیانات کے ذریعے پی ایس پی کے رہنماؤں کو پہلے ہی ناراض کرچکے ہیں تاہم اگر خالد مقبول صدیقی، عامر خان اور کنور نوید پی ایس پی کی قیادت سے رابطہ کریں تو ضرور بات بن سکتی ہے۔
پی ایس پی کی مقبولیت کا راز اس کا لسانیت سے گریز ہے اور اس کا یہ فارمولا بہت کامیاب ثابت ہوا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم کیو ایم کو لسانیت کے اپنے گھسے پٹے نعرے کو بھی ''ہمیں رہنما نہیں منزل چاہیے'' کی طرح درست کرلینا چاہیے تاکہ وہ تمام طبقات کی جماعت بن سکے۔ اب خود مہاجر لسانیت کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے انھیں بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔