کتابوں کی روشنی
کچھ لکھاری یہ کہتے ہیں کہ ادب رو بہ زوال ہے، کچھ کا خیال ہے افسانے نہیں لکھے جا رہے ہیں جوکہ سو فیصد غلط ہے۔
''منزل مراد'' (ناول) ، چند معاصر قلم کار اور ''نوائے پریشاں''۔ جن کتابوں کے نام میں نے درج کیے ہیں ان کتب کے مصنف ڈاکٹر پروفیسر ہارون الرشید ہیں، ایک تو مسئلہ یہ ہے کہ شہر کراچی میں ایک نام کی کئی شخصیات منظر عام پر ہیں لیکن ہر کسی کی شناخت اس کی تحریروں یا اس کے سماجی امور سے وابستہ ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید اپنی تحریروں، درس و تدریس اور صوفیانہ طرز زندگی کے حوالے سے اپنی علیحدہ پہچان رکھتے ہیں وہ دو چار کتابوں کے تخلیق کار نہیں بلکہ بقول ان کے 25 کتابیں اشاعت کے مرحلے سے گزری ہیں۔ اس کا عرصہ پندرہ سولہ سال پر محیط ہے۔ انھوں نے تین ناول اور تاریخ و تنقید کے حوالے سے 9 کتابیں لکھیں جن میں چند کے نام ''اردو ادب اور اسلام'' یہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ''اردو کا جدید نثری ادب'' جدید اردو شاعری ''چند معاصر قلم کار'' ایک کتاب ان کی کئی سال قبل ''نیاز فتح پوری کے مذہبی افکار'' کے عنوان سے شایع ہوئی تھی۔
تحقیق و اجتہاد (سات محقق علما کے افکار کا جائزہ) اس کے ساتھ ساتھ شعری تخلیقات جو کتابوں کی شکل میں موجود ہیں ان کی تعداد پانچ ہے۔ پروفیسر ہارون الرشید اپنے مضمون بعنوان ''ابتدائیہ'' میں اپنی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں ''میری تصنیف و تالیف کا عرصہ نصف صدی پر محیط ہے، میں نے ادبی موضوعات کے علاوہ سیاسی، معاشرتی اور اصلاحی موضوعات پر بھی کتابیں لکھیں اور ہر شعبہ زندگی کا جائزہ اسلام کی روشنی میں لینے کی کوشش کی ہے۔ ''نوائے پریشاں'' کے دیباچے میں لکھتے ہیں (7 مئی 2016ء) اب جب کہ میری عمر 80 سال کے قریب ہے میری آنکھوں کی بینائی معدوم ہوتی جا رہی ہے اور ضعف کی وجہ سے چلنا پھرنا بھی محال ہوگیا ہے، مرا قلم ہے رکنے کا نام نہیں لیتا۔'' میری زندگی اب آخری منزل پر ہے آنکھوں کا دیا بجھ رہا ہے:
کوئی دن کا مہمان ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحری ہوں بجھا چاہتا ہوں
(3 مارچ 2017ء)
ہمارے قابل احترام ہارون الرشید کی تحریروں میں سادگی اور روانی بدرجہ اتم موجود ہے، کہیں بھی اور کسی سطر میں ابہام کی کیفیت نظر نہیں آتی ہے۔ ''چند معاصر قلم کار'' کے عنوان سے ہی اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ہم عصر قلم کاروں کی خوبیوں اور ان کی صلاحیتوں کو نمایاں کرنے کے لیے یہ مضامین لکھے ہیں۔ پہلا مضمون قیصر سلیم مرحوم کا ہے جن کا نام خصوصاً ناول نگاری اور تراجم کے حوالے سے پڑھنے والوں کے ذہن میں ہمیشہ روشن رہے گا۔
افغانستان کے پس منظر میں لکھے گئے ناول کا ترجمہ ''ہیں ضو فشاں ہزار دروں خانہ آفتاب'' یہ اس قدر پر تاثیر ناول ہے پڑھنے والے کے سامنے افغانستان کا ماحول، طالبان کا ظلم، سماجی و معاشرتی حالات سامنے آجاتے ہیں۔ قیصر سلیم کا اوڑھنا، بچھونا ادبی کام تھے، اللہ مغفرت فرمائے۔ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی اور دوسرے اہم قلم کاروں پر بھی بھرپور انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان کی شخصیت کے ساتھ ان کے علمی و ادبی کارنامے تحریروں کی صورت سامنے آئے ہیں۔
ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی کے بارے میں لکھتے ہیں۔''ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی کا اصل میدان شنید و تحقیق تھا، وہ ایک مذہبی اور تعمیری ذہن رکھنے والے ادیب تھے، انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ناول نگاری سے کیا تھا اور سات ناولوں کے خالق تھے۔ میری خوش قسمتی کہ میں بھی ان سے واقف تھی، انھوں نے میرے ناول ''نرک'' پر طویل مضمون لکھا تھا جو ان کی کتاب ''کھرے سکے'' میں شامل ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید کا ناول ''منزل مراد'' حالات حاضرہ کا عکاس ہے۔ ماضی کی المناکیوں کا نوحہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے اور گھریلو مسائل اور تفکرات کی صدا بھی سنائی دیتی ہے۔ تحریر کی روانی اور اسلوب کی دلکشی نے ناول میں ایسے دل فریب رنگ بھر دیے ہیں جو اپنے اندر کشش رکھتے ہیں۔ اپنے قائدین سے محبت، عقیدت اور اپنے وطن پاکستان کی تعمیر اور عملی کاوشوں کی صدائیں الفاظ کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔
نوابزادہ لیاقت علی خان جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شہادت کے وقت ان کی زبان پر آخری الفاظ جو تھے وہ یہ کہ ''اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور ان کی شیروانی کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان تھی، جیب میں 76 روپے تھے اور بینک میں چند سو روپے جو اس ماہ کے خرچ کے لیے تھے۔''
اب ایسی کوئی مثال مل سکتی ہے، حامد صاحب نے تاسف بھرے انداز میں کہا، ناول میں سقوط پاکستان اور بنگلہ دیش میں غیر بنگالی مسلمانوں کے قتل عام کا بھی مختصراً تذکرہ اور ساتھ میں مختلف گھرانوں کی کہانیاں بھی منظر عام پر آئی ہیں، یہ ایک اچھا اور کامیاب ناول ہے، شائستگی زبان کی سادگی اور جملوں کی برجستگی نے اسے قابل مطالعہ بنا دیا ہے۔
پروفیسر ہارون الرشید کی شاعری کی کتاب ''نوائے پریشاں'' میں مختلف موضوعات پر لکھے گئے اشعار شامل ہیں ان کی شاعری اسلامی رنگ کی آمیزش سے باوقار اور معتبر ہوگئی ہے۔علم و ادب سے تعلق رکھنے والے حضرات پروفیسر اشتیاق طالب کی ادبی و شعری سرگرمیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ سات کتابوں کے مصنف ہیں، ''اندھیرا غار'' کے نام سے ایک بچوں کا ناول بھی لکھ چکے ہیں۔ پانچ شعری مجموعوں کے تخلیق کار ہیں جن میں نعتیہ مجموعہ اور ''اردو دوہا'' کے عنوانات سے کتابیں شامل ہیں۔
انھوں نے دوہا نگاری کے بارے میں لکھا ہے کہ اس طرف میں حادثاتی طور پر آیا ہوں وہ بھی عالی جی کے دوہوں'' عالی چال'' سے متاثر ہوکر، ورنہ میری تمام تر شاعری غزل کی ہے، نمونے کے طور پر چند دوہے:
ڈرے وہ کیوں دنیا سے آخر کرے جو سچا پیار
سچے پیار کے آگے گوری جھکتا ہے سنسار
میرے بلانے کو وہ چنری ہوا میں جب لہرائے
جھوم کے دھرتی ناچے' امبر رنگ دھنک برسائے
تخت و تاج پر زور و زر پر مت کر اتنا مان
دو دن کا ہے میلہ مورکھ بن جا تو انسان
یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ کچھ لکھاری یہ کہتے ہیں کہ ادب رو بہ زوال ہے، کچھ کا خیال ہے افسانے نہیں لکھے جا رہے ہیں جوکہ سو فیصد غلط ہے۔ مجھے افسانوں کے حال ہی میں کئی مجموعے موصول ہوئے ہیں، جوکہ خوش آیند بات ہے۔ ''روشنی کے درخت'' جمیل عثمان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان کے کئی افسانے ادبی جریدوں میں میری نگاہوں سے گزرے ہیں اور اب یہ ایک سو ساٹھ صفحات کی کتاب منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہے۔
فلیپ پر صبا اکرام بھائی اور بھائی اے خیام کی آرا درج ہیں، صبا اکرام کی رائے کے مطابق ''جمیل عثمان نے جس طرح اپنے افسانوی مجموعے ''جلاوطن کہانیاں'' میں شامل افسانوں میں مشرقی پاکستان کے المیے کو منعکس کیا ہے، صرف وہ ان کے نام کو ایک کہانی کار کے طور پر زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔'' ایک قومی درد کو انھوں نے کہانیوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا ہے۔ اس سانحے پر لکھے گئے افسانوں کی تاریخ جمیل عثمان کے اس مجموعے کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہوگی۔''
کتاب میں سولہ افسانے شامل ہیں متذکرہ کتابوں کے ساتھ یہ کتاب بھی میڈیا گراف اور جب کہ ''اردو دوہا'' ، ''میرا ڈور'' نے شایع کی ہے۔جمیل عثمان ایک قابل قدر افسانہ نگار ہیں، اسلوب بیان دلکش مکالمے برجستہ اور موثر افسانے کی فضا تاثراتی ہے جو قاری پر تادیر اثر کرتی ہے۔ دوسرا راستہ، جینی کا بیٹا، قیدی ایسے افسانے ہیں جنھیں پڑھنے کے بعد بھلانا ذرا مشکل ہے۔
جمیل عثمان کے زیادہ تر افسانے مغربی ماحول میں تخلیق ہوئے ہیں ان کو پڑھنے کے بعد مغرب کی تہذیب ومعاشرت نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ مصنف نے زندگی کا بیشتر حصہ دیار غیر میں گزارا ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے قلمکار ہیں۔ جنھیں کہانی کہنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ مجموعے کی تمام کہانیاں بے حد شاندار ہیں۔