ملکی سیاسی منظرنامہ اور امریکا
اس میں امریکا کا قصور کم مسلمانوں کا زیادہ ہے جو فرقوں اور مسلکوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے ہیں۔
www.facebook.com/shah Naqvi
مئی 12کو نواز شریف کا انٹرویو ایک معاصر انگریزی اخبار میں کیا چھپا ایک طوفان آ گیا۔ طوفان تو پہلے ہے سے بپا تھا، یہ کہیے کہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ نواز شریف کے اس بیان نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔ فوراً ہی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا جس میں وزیراعظم سمیت آرمی چیف'فضائیہ' بحریہ کے سربراہان' وزیر دفاع اور دیگر اعلیٰ افسران شریک ہوئے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے اس اجلاس میں نواز شریف کے انٹرویو کو متفقہ طور پر غلط اور گمراہ کن قرار دیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ اجلاس کے شرکاء نے قرار دیا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ اس بیان سے جو رائے دی جا رہی ہے اورتاثر ابھرا ہے وہ یا تو غلط فہمی پر مبنی ہے یا رنجش کے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا ٹھوس حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فوراً بعد وزیراعظم نے نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد انھوں نے پریس کانفرنس کی۔ اس میں انھوںنے کہا کہ نواز شریف کے انٹرویو کی غلط رپورٹنگ ہوئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلاوجہ ہی بلایا گیا تھا۔ بعد میں نواز شریف نے کہا کہ میںنے کیا غلط کہہ دیا۔ جو میںنے کہا وہ دوسرے بھی کہتے رہے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ اس بیان کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات اس وقت بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ ٹرمپ جیسا شخص امریکا کا صدر ہے۔ امریکی جنگجو اسٹیبلشمنٹ اس کے پیچھے ہے۔ عسکری طاقت کے ساتھ جھوٹ مکرو فریب دھوکہ بازی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اپنے عوام اور دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنا سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
ان کا سب سے بڑا طریقہ واردات یہ ہے کہ دن رات اتنا جھوٹ بولو کہ جھوٹ سچ اور سچ نقار خانے میں طوطی کی آواز بن جائے۔ بڑی مشکل سے ایک دفعہ کا بولا ہوا سچ ہزار دفعہ بولے جھوٹ کا کیسے مقابلہ کر سکتا ہے۔ بیچارا سچ اس صورتحال میں تو اپنی موت آپ ہی مر جاتا ہے۔ یمن' شام' افغانستان سے لے کر پاکستان تک صورت حال تباہ کن ہے۔ یہ صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑ رہی ہے۔
یمن میں 30لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد ان کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ 70 فیصد سے زائد اسپتال ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ شادی اور جنازوں پر حملے معمول بن گئے ہیں۔ اب تک 14 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ یہ تفصیل اس لیے کہ پاکستانی عوام کو بہت کم علم ہے کہ یمن میں کیا ہو رہا ہے۔ شام' افغانستان مسلم ممالک ہیں یہاں پر بپا ہونے والی ہولناک تباہی سے کون واقف نہیں۔ دہشتگردی پچھلے 40 سال سے مسلم دنیا میں امریکی ہتھیار ہے جس کی بنیاد مذہبی انتہا پسندی پر ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ اس میں امریکا کا قصور کم مسلمانوں کا زیادہ ہے جو فرقوں اور مسلکوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے ہیں۔ امریکی سامراج کے دیے گئے ایجنڈے پر تکفیریت کا الزام لگا کر ہم نے اپنی آئندہ نسلوں میں تباہی کے بیج بو دیے ہیں۔ جب تک ہم اس شغل سے باز نہیں آئیں گے امریکا کاسر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں رہیں گی۔ مذہب کی بنیاد پر دہشتگردی کی آڑ میں امریکا نے مسلم دنیا پر قبضہ کیا ہواہے۔ اس بہانے مشرق وسطیٰ میں فوجی اڈے قائم ہیں جہاں ہزاروں امریکی فوجی اور بحری بیڑے تعینات ہیں۔
چند ہفتے پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ سعودی عرب سمیت دیگر عرب بادشاہتیں اگر ہم ان کے پیچھے کھڑے نہ ہوں تو صرف دو ہفتوں میں ختم ہو سکتی ہیں۔ انھوںنے یہ بھی کہا کہ ماضی میں ہم7 ٹریلین یعنی سات سو ارب ڈالر ان بادشاہتوں کی حفاظت پر صرف کر چکے ہیں لیکن اب یہ خرچہ ان عرب بادشاہتوں کو خود اٹھانا پڑے گا۔
ہم یہ اخراجات مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ یعنی چوری اور اس پر سینہ زوری۔ یعنی خطہ عرب کے تیل سمیت دوسرے قدرتی وسائل بھی بیدردی سے دونوںہاتوں سے لوٹو پھر ان سے معاوضہ بھی طلب کرو... ابھی میں یہ لکھ ہی رہا تھاکہ اخبار میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کی ترجمان ڈانا ڈبلیو وائٹ کا بیان دیکھا ۔ انھوںنے کہا کہ پاکستان فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے اب اس کو فیصلے کرنا ہوں گے اور پاکستان افغانستان دونوں نے دہشتگردی کو فروغ دیا ہے۔
قوم تیار رہے۔ دہشتگردی کے حوالے سے ابھی بہت سے''راز'' امریکا کے ہاتھ لگنے والے ہیں۔ نواز شریف موجودہ لڑائی میں کسی حدتک بھی جا سکتے ہیں۔ انھوںنے اپنے بچاؤ کے لیے ابھی ایک کارڈ استعمال کیا ہے۔ بہرحال ان کے اس بیان کو ابھی تک وہ حمایت نہیں مل سکی جس کی انھیں توقع تھی، اس بیان کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن جیسے دوست اور اتحادی نے کہا ہے کہ حساس معاملات پر باتیں نہیں ہونی چاہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اظہار سے ریاست کو نقصان پہنچتا ہے۔ انھوںنے کہا کہ نواز شریف نے مسلم لیگ(ن) کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی کہا ہے کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص سے کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ قومی سلامتی کے معاملات پر اس قدر بے احتیاطی کا مظاہرہ کریں گے جونہ صرف خود ان کے اور ان کے خاندان اور پارٹی کے لیے پریشانی کا سبب بنے گا بلکہ ملک و قوم کے لیے بھی مسائل پیدا کرنے کا باعث ہو گا۔
دوسری طرف اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ نواز شریف کو ان حالات میں سنبھل کر بولنا چاہئے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لفظوں کے کئی معنی نکلتے ہیں۔ اعلی پوزیشنز پر بیٹھنے والوں کو سوچ سمجھ اور سنبھل کر بولنا چاہئے۔
الیکشن وقت پر ہوں گے یا نہیں اور جمہوریت کا کیا مستقبل ہے اس کا پتہ جولائی میں چلے گا جس کا آغاز جون کے آخر سے ہو جائے گا۔
سیل فون۔0346-4527997