ہم دیکھیں گے
حال تو پورے ملک کا اور تمام طے شدہ اور پسند کے مطابق طے نہ ہونے والے صوبوں اور علاقوں کا ہے۔
پاکستان کے عوام بہت بہادر ہیں! اس جملے پر آپ کو کوئی حیرت نہیں ہوئی ہوگی اور ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ اس قوم نے قدرتی آفات، دشمن کے حملوں کے علاوہ اپنے ملک کے اندر اپنی حکومت یعنی مرکزی اور حکومتوں یعنی صوبائی کے ظلم کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا، کر رہے ہیں اور کریں گے۔ ان کو لیڈروں نے زندہ باد، مردہ باد کا ایک ایسا نشہ دے رکھا ہے جو ''آئس'' سے زیادہ پراثر ہے اور رہے گا۔
ہر بچہ شروع سے ہی ایک چھوٹے جھنڈے کے ساتھ جوان ہوتا ہے جوکہ پاکستان کا نہیں کسی سیاسی جماعت ،کسی تنظیم کا نشان ہوتا ہے، جس کے ذریعے لیڈروں کی افزائش نسل ہو رہی ہوتی ہے اور غریب کا بچہ ان کی پوزیشن مضبوط کرنے کا کام انجام دیتا ہے ۔ بھوکا ، پیاسا بد حال رہتا ہے اس کے گھر کے دور دور تک خوشحالی کا گزر نہیں ہے اور وہ خوشحالی کے سلوگن گلا پھاڑ کر لگاتا ہے اور ایک دن خاموش ہو جاتا ہے، اگر ذہن انقلابی ہونے لگے تو خرید لیا جاتا ہے یا خاموش کردیا جاتا ہے اور اس کی برسی سیاسی مقاصد کے کام آتی ہے۔
حال تو پورے ملک کا اور تمام طے شدہ اور پسند کے مطابق طے نہ ہونے والے صوبوں اور علاقوں کا ہے مگر بلوچستان اور سرحد میں مارکیٹ تیز ہے سرحد اب پختون خواہ ہے، پختون لیڈر خواہ نہیں ہو پا رہا مگر سرحد معاف کیجیے گا پختون خواہ میں چادر، ٹوپی، پگڑی، عمامہ نے ہر طرف سے فاٹا کی رسیاں باندھ رکھی ہیں وہاں برطانیہ کا قانون چاہتے ہیں پاکستان کا نہیں، سابقہ سینیٹ چیئرمین کو اب انتظامی صوبے بھی برے لگ رہے ہیں، لوگ غلام رہیں جرگے کے آزاد نہ ہوں، کسی کی حصہ داری ختم ہوگئی تو ایوان میں بیٹھتے شرم آرہی ہے، سپریم کورٹ کے نا اہل کردہ کی حمایت پر پسینہ بھی نہیں آرہا۔
چادر والے بھائی صاحب کا خاندان آسودہ کردیا گیا لہٰذا وہ ساتھ کھڑے ہیں نااہل کے مستقبل پر نگاہ ہے، اپنا پیٹ اور اپنا مفاد اور سب کا مشترکہ نعرہ ہم پہلے افغان ہیں پھر پاکستانی، پاکستانی فوج نے افغان دہشت گردوں کی یہاں سہولت کاری مشکل سے ختم کرائی ہے جانوں کا نذرانہ دے کر لہٰذا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے اور کشمیر کمیٹی کے بادشاہ سلامت اور دوسروں میں چیخ پکار مچی ہے ''غریب کی جورو سب کی بھابھی'' لہٰذا سب کی تان، عمران، وہ سیاست میں گھس بیٹھیا نظر آتا ہے ان کو، روایتی سیاست کچھ نہ کچھ توڑ رہی ہے، کاروبار مشکل ہو رہا ہے۔ خود بیچیں خود خریدیں تو خیر ہے اور چپ چاپ ستر سال سے ہو رہا ہے ان کے بقول ہم نہیں کہتے اس بار دوسروں نے یہ کام کرلیا تو انھیں سینیٹ میں بیٹھتے شرم اور غصہ آرہا ہے۔ کاروبار اگر ہاتھ سے نکل جائے تو غصہ لازمی ہے اب مرکز سے کیا بارگین کریں باردانہ تو مک گیا۔
تھر میں مور مر رہے ہیں اور مور جیسے بچے بھی مگر عورتیں گاڑیاں چلا رہی ہیں اور تھر نہ جانے کیا ہوگیا ہے یہ دیکھتی آنکھوں اور سرکاری قلم کو محسوس نہیں ہوتا، تھر میں غذا اور صحت کے مسائل حل نہیں ہو رہے بلیک ہیلی کاپٹر میں شہزادہ گھوم رہا ہے، جونیئر زرداری یہ بے نظیر ثانی تو مشکل ہے جونیئر زرداری بن چکا ہے بے نظیر کارڈ کے بعد زرداری اب بے نظیر ہم شکل کارڈ استعمال کرکے وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کر رہے ہیں اپنے لیے، مگر تاریخ میں شاہ جہاں اور اورنگ زیب موجود ہیں شاید اس بار شاہ جہاں جیت جائے گا، سیاست کا میدان ہی ایسا ہے کہ رشتے دم توڑ دیتے ہیں اور مفاد جیت جاتا ہے یہاں تو دونوں طرف مفاد ہے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
ایک ماہ پرانی بات ہے مگر بات تو ہے، یہ چاہتے ہیں پنجاب میں کوئی نہ آئے ہم ساٹھ فیصد کو الو بناکر مرکز اور بڑے صوبے پر قبضہ رکھیں من مانیاں کریں کوئی روکے تو ''کیوں نکالا، کیوں نکالا، کیوں نکالا'' ہوجائے، یہ انداز ہے۔ موجودہ رفیق کے بجائے وہ اعلیٰ مرتبت رفیق ہوتے زندہ تو سیاست میں شرافت ہوتی جس کا سب نے مل کر جنازہ نکال دیا ہے ، قد آور سیاست دانوں کے بجائے اب بونے اور ان کی بونا سیاسی ٹیم گراؤنڈ میں ساتھ ہے۔
پنجاب کی تقسیم کے علاوہ کوئی صورت نہ اصل پنجاب کی ترقی کی ہے نہ پاکستان کی ''قلم کار'' کتنا بھی لاہور کو پاکستان کو لاہور میں ضم کرلیں یہ ہو نہیں سکتا یہاں بھی یادگاروں اور تاریخ کے شہید یہ کام کرنے کا ٹھیکہ کرنے اور لینے والوں کو نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہ تو جاتی امرا کے بعد لاہور کا نام دہلی رکھنا چاہتے ہیں۔ ڈر لگتا ہے کل علامہ اقبال کے نام کے آگے عرف اپنے وقت کے امیتابھ نہ لکھ دیں۔
پنجاب کو فیصلہ کرنا ہے، تحریک پاکستان کو کامیاب کیا تھا سب کے لیے اب صرف لاہور پاکستان کیوں۔ اگر محدود ہوگئے تو آپ جو بن جاؤ گے جس کے خلاف رہے علامہ اقبال اور جن کے فلسفے پر عمل کرکے قائد اعظم اور ساتھیوں نے پاکستان حاصل کیا ۔ پاکستان سیاچن سے کراچی تک ہے، یہ تو ناشتے کی میز پر کارگل اپنے دوستوں کو دے آئے، جو اب تک ہزاروں کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے اورکشمیر کمیٹی جو سیاسی رشوت ہے وہ چپ اور یہ مہر بہ لب۔ اس میں دنیا سے بات کرنے والا لیڈر اور لوگ ہونے چاہئیں اور اس کمیٹی کا بھی احتساب ہونا چاہیے اس کی گردن پر کشمیریوں کے لہو کا حساب ہے جو بڑھتا جا رہا ہے۔
پنجاب کو پاکستان کے لیے بیدار ہونا چاہیے پرخلوص اور بے غرض ہوکر، اب غلام محمد کا کردار ختم ہونا چاہیے لیاقت اور قائد اعظم کا کردار ایک بار پھر چاہیے۔ پنجاب بڑا صوبہ ہے اس وقت اس کو اس میں کردار ادا کرنا چاہیے، پنجاب کو تقسیم ہوکر سب صوبوں کو متحد اور برابر کرنا چاہیے تاکہ اس پر کوئی انگلی نہ اٹھائے اور دوسرے صوبوں کے نام نہاد قومی لیڈر اور ان کی اولادیں ڈرامے بازی بند کریں اور پاکستان کے عوام مل جل کر ایک بار پھر سیاسی آزاد پاکستان حاصل کرلیں جس پر کسی خاندان کا راج نہ ہو بلکہ ایک طے شدہ قانون کے مطابق سب کے حقوق برابر ہوں اور دولت کے ارتکاز کو روک کر پاکستان کو ترقی دی جائے۔ وقت آگیا ہے 2018 ہی سنگ میل ہے اور یہاں پاکستان کے عوام کا درست فیصلہ ہی ان کو اور ان کی اولادوں کو پاکستان واپس دلواسکتا ہے جس پر چند وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں اور پگڑیوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
پاکستان عوام کا ہے چند خاندانوں کا نہیں 22 کروڑ عوام کے سامنے یہ بھیڑ بکریاں ہیں جو اقتدار کے تخت پر بیٹھے جگالی کر رہے ہیں۔ ووٹ کا ہنٹر درست استعمال کریں اور ان کو مار بھگائیں تاکہ عوامی راج قائم ہو۔ پاکستان سب کے لیے۔ سب پاکستان کے لیے۔ یہ ہے اصل ترقی کا راستہ۔ ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم ہی دیکھیں گے، مشرق سے نکلتا سورج بھی اور اس کی سنہری کرنیں بھی کھیتوں میں اگتی ہریالی اور ہر قدم پے خوشحالی، لازم ہے کہ ہم ہی دیکھیں گے۔