کراچی میں بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی

آصف علی زرداری کی صدارت میں سندھ میں کوئی لسانی جھگڑا نہیں ہوا مگر لسانیت کی جڑکوٹہ سسٹم ختم نہیں کیا گیا۔


Muhammad Saeed Arain May 22, 2018

KARACHI: لیاقت آباد ٹنکی گراؤنڈ میں پیپلزپارٹی کے جلسے کے بعد سیاسی کشیدگی میں اس لیے اضافہ ہوا کہ بلاول زرداری کی تقریر لکھنے والوں کو اندازہ نہیں تھا کہ بلاول زرداری سے کرائی گئی تقریرکراچی میں لسانی اور سیاسی کشیدگی بڑھا دے گی۔

بلاول کی تقریر لکھنے والے اتنے بھی ناسمجھ نہیں تھے کہ انھیں اندازہ نہ ہو کہ ایم کیو ایم کے سیاسی گڑھ میں کی جانے والی بلاول زرداری کی لسانی تقریر منفی صورتحال اختیار کرسکتی ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ ایم کیو ایم کو پہنچا اور اس کے دونوں گروپوں کو ایک ہوکر اسی گراؤنڈ میں پیپلز پارٹی کو منہ توڑ جواب دینے کا سنہری موقعہ مل گیا ۔

پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے دور میں سندھ میں جوکوٹہ سسٹم نافذکیا تھا وہ دس سال کے لیے تھا ، جس میں سندھیوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے پہلے جنرل ضیا الحق نے اور بعد میں میاں نواز شریف نے دو بار توسیع کی اور 40 سال گزر جانے کے بعد بھی کوٹہ سسٹم قائم ہے جس میں توسیع نہیں ہوئی ۔کوٹہ سسٹم پیپلز پارٹی نے جس وقت نافذ کیا تھا اس وقت واقعی اگر اندرون سندھ والوں سے زیادتی تھی تو اس کی تلافی بھٹو صاحب کے ہی دور میں بڑی حد تک کردی گئی تھی جو کسر رہ گئی تھی وہ جنرل ضیا الحق نے بھی پوری کرنے کی کوشش کی تھی۔

جنرل ضیا جب ایم آر ڈی تحریک کے دوران میرے آبائی شہر شکار پور آئے تھے تو انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ سندھیوں کو چاہیے کہ وہ سرکاری ملازمتوں کے لیے اسلام آباد سمیت ہر جگہ جائیں جب کہ ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی کو شکار پور سے باہر سکھر میں بھی ملازمت ملے تو وہ پہلے اپنی ماں سے اجازت مانگتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ میرٹ پر ہر کسی کو ملک بھر میں سرکاری ملازمت کرنے کا حق ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی صوبے اور پس ماندہ علاقے سے ہو۔

اندرون سندھ ہی نہیں پنجاب، بلوچستان اور صوبہ سرحد کے سیکڑوں دیہی علاقوں میں بھی بعض جائزوجوہات کے باعث تعلیم کمزور اور پس ماندگی تھی۔ ہر صوبے کے امیر، جاگیردار، زمیندار، سردار وغیرہ خود اپنے علاقوں کو پسماندگی اور جہالت میں مبتلا رکھتے تھے اور اپنی اولادوں کو کراچی، لاہور، بہاولپور و دیگر بڑے شہروں کے علاوہ بیرون ملک بھیجا کرتے تھے۔

کراچی ملک کا بڑا اور تعلیم یافتہ لوگوں کا شہر ضرور تھا مگر اس وقت کے اردو بولنے والے اعلیٰ افسروں نے میرٹ پر سختی کو اپنا اصول بنا رکھا تھا اور وہ لسانی بنیاد پر کسی کی حوصلہ افزائی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بڑے شہروں کے علاوہ ملک بھر کے پسماندہ علاقوں میں اچھے تعلیمی اداروں کا فقدان تھا اور متوسط طبقہ بھی اپنے بچوں کو بڑے شہروں میں تعلیم دلانے کی مالی حیثیت نہیں رکھتا تھا جب کہ دیہاتوں میں رہنے والے اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے جس کی وجہ سے اندرون سندھ ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب، بلوچستان، سرحد وغیرہ میں بھی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں کے مواقعے میسر نہیں تھے اور سندھ سے تعلق رکھنے والی پہلی وفاقی حکومت نے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کیا اور ان سے پہلے حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔

کوٹہ سسٹم پر ساٹھ اور چالیس فیصد پر عمل ہوتا توکراچی میں احساس محرومی نہ بڑھتا مگر پی پی حکومت نے غیر جانبداری کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔ بھٹو صاحب کے آخری دور میں اردو بولنے والوں کے بڑے نام پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے مگر ان کی قدر نہیں ہوئی اور وہ مایوس ہوکر بیٹھ گئے اور انھی حالات میں ایم کیو ایم کو ابھرنے کا موقعہ ملا ۔

ایم کیو ایم سے قبل بھٹو حکومت میں ممتاز بھٹو کی حکومت میں پہلی بار سندھ میں لسانی جھگڑے ہوئے اور اندرون سندھ سے کراچی و حیدرآباد نقل مکانی ہوئی اور اندرون سندھ پیپلز پارٹی کا کردار قوم پرستانہ رہا جب کہ پی پی قومی پارٹی تھی مگر وہ نہ جانے کیوں اردو بولنے والوں کو ساتھ لے کر نہ چل سکی۔

کوٹہ سسٹم کو دس سال بعد ختم ہوجانا چاہیے تھا اور سب کو ان کی صلاحیت پر ملازمتیں ملنی چاہیے تھیں۔ 1988 میں بے نظیر حکومت میں آئیں، اندرون سندھ ہی نہیں کراچی میں بھی لسانی جھگڑے ہوئے تو ایم کیو ایم بن چکی تھی مگر بے نظیر بھٹو نے سندھ کو غلام مصطفیٰ جتوئی جیسا وزیر اعلیٰ نہیں دیا جو عبداللہ شاہ جیسا نہ ہوتا تو بھی 1990 میں سندھ میں لسانی بنیاد پر نقل مکانی نہ ہوتی مگر قائم علی شاہ اور آفتاب میرانی سندھ کی صورتحال معمول پر لانے میں نا کام رہے۔

آصف علی زرداری کی صدارت میں سندھ میں کوئی لسانی جھگڑا نہیں ہوا مگر لسانیت کی جڑکوٹہ سسٹم ختم نہیں کیا گیا اور پی پی پی کی سندھ حکومت کے آخری دنوں میں لیاقت آباد کے جلسے میں بلاول زرداری سے گڑے مردے اکھڑوا کر تقریر لکھنے والوں نے غیر ضروری طور پر کوٹہ سسٹم یاد دلا دیا ۔

متحدہ متعدد بار پی پی سمیت وفاقی اور صوبائی اقتدار میں تھی تو اسے کوٹہ سسٹم یاد نہیں تھا اور پانچ سال تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد اب آپس میں لڑ رہی تھی تو پیپلز پارٹی کے جلسے میں غیر ضروری بلاول کی متنازعہ تقریر سے کوٹہ سسٹم اور الگ صوبے کی تقریروں نے کراچی میں لسانی کشیدگی بڑھائی تو حکیم سعید گراؤنڈ میں پی پی اور پی ٹی آئی کی ضد اور جھگڑے نے سیاسی کشیدگی بڑھا دی ہے۔

بلاول زرداری اپنی حکومت میں کراچی کے لیے کچھ کر دکھانے کا ثبوت اور کوٹہ سسٹم اب ختم کرانے کی پالیسی لے کر لیاقت آباد آتے تو بات کچھ اور ہوتی اور لوگوں کی ہمدردی اور سیاسی حمایت حاصل کی جاسکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ متنازعہ تقریر نے تنازعہ ہی نہیں کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں