خلوص کی آزمائش

قوم نے عمران خان کو چن لیا ہے اوروہ عمران کی شکل میں اپنا مسیحا دیکھ رہی ہے


Abdul Qadir Hassan May 23, 2018
[email protected]

ایک جینوئن اخبار نویس عملی سیاست سے تو ویسے ہی الگ رہتا ہے لیکن میں نے اپنے آپ کو غیر عملی اور اخباری سیاست سے بھی علیحدہ کر لیا ہے ۔لیڈر حضرات عوام کے حوالے اور عوام لیڈروں کے حوالے۔ دونوں نے آپس میں مک مکا کر لیا ہے ۔ گزشتہ کئی الیکشنوں میں دیکھا کہ جو جتنا زیادہ کرپٹ ہے، اس کو عوام اتنے زیادہ ووٹ دیتے ہیں اور جو کم کرپٹ ہوتا ہے، اس کو کم ووٹ ملتے ہیں لیکن جس کی شہرت بہتر ہوتی ہے یعنی جس کی کرپشن ظاہر نہیں ہوتی، اس کی ضمانت ضبط ہو جاتی ہے اور اگر ضمانت بچ بھی جائے تب بھی وہ اسمبلی میں داخل ہونے سے بچا رہتا ہے، اس مک مکا کی رننگ کمنٹری کرنے سے کیا فائدہ عوام جانیں اور ان کے رہنما۔

پاکستانیوں نے رنگ رنگ کے لیڈر آزما لیے ہیں،ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو کچھ وقت کے بعد ایک ایسا لیڈر مل جاتا ہے جس کے پیچھے ساری قوم چل پڑتی ہے اور اس کو اپنی تمام تر امیدوں کا مرکز بنا لیتی ہے تاآنکہ وہ وقت آن پہنچتا ہے جب قوم اس لیڈر سے مایوس ہوکر کسی نئے لیڈر کی تلاش شروع کر دیتی ہے۔ افسوس کہ جتنے بھی لیڈر اس قوم کو ملے ان کے ساتھ قوم نے تو وفا کی لیکن ان لیڈروں نے قوم کے ساتھ بے وفائی بھی کی اور ان کو دھوکا دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو ایسا لیڈر تھا جس پر یہ قوم مر مٹی تھی لیکن وہ بھی بالآخر وڈیرہ شاہی کا شکار ہو گیا، ان کے بعد میں سیاستدانوں کی اصل کھیپ میں ان کی سیاسی وارث بینظیر بھٹو شہید تھیں مگروہ بھی عوام کی توقعات پر پورانہ اتر سکیں۔

موجودہ صورتحال کی اگر بات کی جائے تو عمران خان فی الحال ان خوش نصیب انسانوں میں شامل ہیں جن کی پکار پر اس قوم نے لبیک کہا ہے اور ان کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیا ہے ۔ عمران خان بھی مسلسل عروج کی قسمت لے کر پیدا ہوئے ہیں ان کی قسمت میں کاتب تقدیر نے مسلسل عروج لکھ دیا ہے ۔کھیل کے میدان سے لے کر سیاست کے خار زار تک وہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں مقبول ہیں بلکہ بعض ممالک میں تو انھیں کرکٹ کی وجہ دیوتا بھی سمجھا جاتا ہے۔

کرکٹ میں کامیابی کے بعد انھوں نے قومی خدمت کے میدان میں قدم رکھا تو اس قوم نے جس طرح اس کا والہانہ استقبال کیا اور دولت جیسی اپنی عزیر ترین شئے اس پر نچھاور کر کے اسے حیرت زدہ کر دیا۔ اس مہم سے اسے یہ معلوم ہوا کہ اس قوم کے اندر اس ملک سے محبت کی چنگاری ہر وقت سلگتی رہتی ہے اور جب کوئی اسے ہوا دیتاہے تو وہ بھڑک اٹھتی ہے ۔امیروں اور غریبوں کا فرق بھی اسے اسی مہم کے دوران پتا چلا کہ امیروں کے دل تو سیاہ ہو چکے ہیں اور ان کا ملک کے ساتھ کوئی جذباتی تعلق باقی نہیں رہا، صرف لوٹ مارکا تعلق ہی باقی ہے، اس ملک کے غریبوں کے دل دریا ہیں اور شائد یہی وہ دن تھے جب اس نے ملکی سیاست میں قدم رکھ دیا۔

جناب عمران خان کی سیاست سے اختلافات ہو سکتے ہیں کہ وہ دو دہائیوں کی سیاسی زندگی کے بعد بھی سیاست کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل نہیں کر سکے اور سیاسی نہیں ہو سکے یعنی وہ جھوٹ سے ابھی تک دور ہیں،شایدان کی یہی وہ ادا ہے جو کہ پاکستانیوں کو بھا گئی ہے اور انھوں نے اسے اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیا ہے ۔ ان کی گزشتہ پانچ سال کی سیاسی جدو جہد نے عوام میں ان کی شخصیت کے بارے میں مثبت تاثر قائم کیا ہے، وہ مضبوط ارادوں اور ڈٹے رہنے والی سیاسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔

ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جوانی کا ایک بڑا حصہ مغرب میں گزارنے کے باوجوداپنی پاکستانیت نہیں چھوڑی ۔ وہ جیسے جیسے دنیا میں نام پاتے گئے، اتنے ہی پاکستان کے قریب آتے گئے ۔ مغربی چمک کی نسبت اپنی تہذیب کی گہرائی اور وسعت ان پر کھلتی گئی آج ان کی گفتگو اور لباس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ نوجوان میانوالی سے زیادہ سے زیادہ لاہور ہی پہنچا ہے حالانکہ وہ مغرب کی مدہوش ہواؤں میں اپنے بال لہراتارہا اور ان ہواؤں نے ہمارے بڑے بڑوں کو مدہوش کر دیا اور وہ اب تک اسی مدہوشی میںمست ہیں ۔

قوم نے عمران خان کو چن لیا ہے اوروہ عمران کی شکل میں اپنا مسیحا دیکھ رہی ہے ایک ایسا مسیحا جو کہ ان کے موروثی دکھوں کا مداوا کرے گا اور جنہوں نے اس قوم کو دکھ دیے ہیں، ان سے ان کاحساب بھی لے گا۔ میں عمران خان سے عرض کروں گا کہ یہ قوم دکھوں اور مصیبتوں کی ماری قوم ہے ایک طویل عرصے کے بعد ان کو ایک مسیحا نظر آیا ہے، اس قوم کو مایوس مت کرنا اور کوئی ایسا وعدہ مت کرنا جسے پورا نہ کر سکو کیونکہ یہ قوم سچ سننا اور جاننا چاہتی ہے اس کو سچ بتاؤ یہ آپ کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو گی اور بے وفائی یا وعدہ خلافی برداشت کرنے کی اس قوم میں اب ہمت ختم ہو چکی ہے، ایک امید اور آس ہے جو قوم کو دکھائی دے رہی ہے ۔

یہ سچے اور کھرے لوگ ہیں جو غریب کہلاتے ہیں اور دولت مندوں کے مسلسل استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ عمران انھی کی طرح کا لباس شلوار قمیض بھی پہنتے ہیں اور ان کی زبان میں ان سے باتیں کرتے ہیں جو ان کی سمجھ میں آرہی ہیں اور وہ اس کا جواب دے رہے ہیں جو حیرت انگیز ہے ۔ جہاںتک حالات کا اشارہ ہے، اس کی یہ حیرت بڑھتی جارہی ہے اور عمران کی شخصیت دن بدن بدلتی جارہی ہے۔

اس بدلتی ہوئی شخصیت پر قوم فریفتہ ہوتی جارہی ہے ۔ میری عمران سے درخواست ہے کہ وہ اس قوم کو کبھی مایوس نہ کریں، اسے بڑے ہاتھ لگ چکے ہیں اور اس کا احساس اور ان کا کفارہ عمران نے ادا کرنا ہے اور یہ کچھ ایسا مشکل نہیں صرف نیک نیتی کی ضرورت ہے اور عوام کے ساتھ خلوص کی۔ یہ عوام روپے پیسے کے نہیں اخلاص اور پیار کے بھوکے ہیں اور یہ دولت انھیں جو لیڈر بھی دے گا وہ اس کو اپنا سب کچھ دے دیں گے، صرف آزمائش کی شرط ہے اور اس آزمائش کا اس قوم کو ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں