جو زلزلہ آیا

اگر ہم زلزلے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماہرین کے مطابق زلزلے کی دو اقسام ہیں.


[email protected]

16 اپریل 2013 کی سہ پہر 3 بج کر 44 منٹ اور 13 سیکنڈ پر پاکستان، ایران، بھارت اور کئی خلیجی ممالک میں خوفناک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.8 تھی، پاکستان کے مختلف علاقوں لاہور، پشاور، کوئٹہ سمیت ملک کے مختلف حصوں بشمول کراچی میں زمین لرز اٹھی، بلوچستان کا شہر ماشکیل تباہ ہوگیا، 41 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے جب کہ ملک کے دیگر علاقوں اور بیرون ملک میں اس زلزلے کی وجہ سے ہلاکتوں اور تباہی و بربادی کی متضاد اطلاعات ہیں۔

کراچی کے علاقے لیاری اور کھارادر میں دو عمارتوں کے گرنے سے 5 افراد زخمی ہوئے، سندھ سیکریٹریٹ کی 2 عمارتوں میں ہلکی دراڑیں، نیز کراچی میں واقع متعدد فلیٹس کی عمارتوں میں دراڑیں پڑگئیں۔ واضح رہے کہ کراچی میں کسی بھی بڑے زلزلے اور قدرتی آفت کے قوی اور تباہ کن امکانات موجود ہیں جب کہ اس سے بچاؤ حفاظت اور نبرد آزما ہونے کی تمام تر سہولیات ندارد ہیں، ماہرین متعدد بار اپنے خدشات سے آگاہ کرچکے ہیں۔

زلزلے کے اسباب، محرکات اور وجوہات کے بارے آج آپ کی خدمت میں سائنسی، مذہبی اور ادبی شعبوں کا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں، کالم کے اختصار کے پیش نظر مختصراً جائزہ پیش خدمت ہے۔ آغاز زلزلے کی سائنسی توجیہہ سے کروں گا، اس ضمن میں سائنس دانوں (ماہرین ارضیات) کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیے! ماہرین کے مطابق خشکی پر آنے والے زلزلے عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں، پہلی وجہ آتش فشاں پہاڑ ہیں جن کے پھٹنے سے آنے والے زلزلے کی شدت زیادہ نہیں ہوتی، زیادہ تر تباہی دوسری قسم کے زلزلے سے آتی ہے اور اپنی تمام تر ترقی کے باوجود انسان اس ناگہانی آفت کی بروقت پیش گوئی کرنے والا نظام دریافت نہیں کرسکا اور تاحال قدرت کے اس معمولی اقدام کے آگے اکیسویں صدی میں بھی بے بس ہے، دراصل ہم جس زمین پر آباد ہیں اس کی اندرونی ساخت میں بہت سی پرتیں ہیں، جن میں نرم اور سخت پتھریلی پرتیں بھی موجود ہیں۔ زیرزمین پتھریلی چٹانوں کی معمولی حرکت سے بھی زمین کی اوپری سطح تہہ و بالا ہوجاتی ہے گزشتہ دنوں جو زلزلہ آیا اس کی وجہ زیر زمین چٹانوں کا کھسکنا تھا۔ جس سے زمین کی اوپری سطح پر موجود عمارتیں اور مکانات لرز کر رہ گئے۔

اگر ہم زلزلے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماہرین کے مطابق زلزلے کی دو اقسام ہیں اور جہاں تک زلزلے کی لہروں کا تعلق ہے، اس کی اچانک حرکت سے سائسمک لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ جب یہ لہریں زمینی چٹانوں میں سے گزرتی ہیں تو ان پر دباؤ بڑھاتی ہیں جس سے سٹرین پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ لہر گزر جاتی ہے یعنی دباؤ ختم ہوجاتا ہے تو پھر سٹرین بھی غائب ہوجاتا ہے اور چٹانی سلسلہ اپنے حجم اور شکل میں واپس آجاتا ہے۔

لہروں کو تین اقسام پرائمری، سیکنڈری اور سطحی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پرائمری لہریں اولین ہونے کے ناطے دیگر زلزلیاتی لہروں سے تیز ہوتی ہیں۔ جونہی پرائمری لہریں کسی میڈیم سے گزرتی ہیں تو اس میڈیم کے اجزا لہر کے راستے کے ساتھ ساتھ آگے پیچھے تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔

اس لہر کی رفتار پانی میں ڈیڑھ کلومیٹر فی سیکنڈ اور زمین میں تیرہ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ دوسری قسم سیکنڈری لہروں کی ہے جس کی شدت پرائمری لہروں سے کم ہوتی ہے۔ تیسری سطحی لہریں ہیں یہ زمین کی اوپری سطح میں ہوتی ہیں اور گہرائی میں جاتے جاتے ختم ہوجاتی ہیں۔ سطحی لہروں کی مزید دو قسمیں ہیں پہلی قسم میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ سطح زمین کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔ دو سری قسم میں لہریں سمندر کی لہروں کی طرح دائروں کی صورت میں چلتی ہیں۔

اس وقت برصغیر کی زمینی پلیٹ شمال کی جانب تین سے چار سینٹی میٹر سالانہ ایشین پلیٹ کی طرف جارہی ہیں۔ یہ عمل لمبے عرصے سے جاری ہے کبھی پاکستان کا زلزلوں سے مرکز سے فاصلہ 380 کلومیٹر تھا جو اب 70 سے 90 کلومیٹررہ گیا ہے۔ ان کے درمیان جو علاقہ ہے وہ پہاڑوں میں تبدیل ہوگیا ہے، کوہ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم اسی سلسلے کی وجہ سے ہیں۔ زمین کے اندر جب اس طرح کے دباؤ بڑھیں گے تو انرجی اسٹور ہوتی رہے گی جو بعد میں خارج بھی ہوتی رہے گی۔

اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ جہاں سے فالٹ گزررہی ہے یعنی پٹی زلزلے کی زد میں آتی ہے وہاں عمارتیں تعمیر کرنے کے بجائے چراگاہیں اور پارک بنائے جائیں تاکہ زلزلہ آنے کی صورت میں جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو۔ واضح رہے کہ کراچی کے قریب بھی رن آف کچھ کا مشہور فالٹ لائن واقع ہے اور زیرزمین چٹانیں اپنی پوزیشن تبدیل کر رہی ہیں۔

زلزلوں کے ضمن میں اسلام اور علمائے کرام کا نقطہ نظر بے حد اہمیت کا حامل ہے لہٰذا مختلف شعبہ ہائے حیات سے دوسرا انتخاب میرا زلزلوں کے متعلق اسلامی توجیہہ ہے جس سے معلوم چلتا ہے کہ ''انسان اس کرہ ارض پر اپنی شامت اعمال سے خود بھی زلزلوں کو دعوت دیتا ہے''۔

قرآن حکیم، احادیث شریفہ اور تاریخی حقائق سے یہ امر روز روشن کی طرح بالکل عیاں اور واضح ہوجاتا ہے کہ سنت اﷲ کے مطابق جب بھی کسی سرزمین یا قوم پر کوئی بھی آسمانی یا زمینی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ یا تو اﷲ عزوجل کی جانب سے آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے یا پھر عذاب الٰہی و قہر خداوندی کا نقارہ! جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے ربّ اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی، تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بہت بڑی سزا دی، انھوں نے اپنے کیے کا مزہ چکھ لیا اور ان کا انجام گھاٹا ہی گھاٹا ہے''۔ (سورۃ الطلاق)۔ اسی طرح سورہ آل عمران میں فرمایا کہ ''تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں، زمین میں چل پھر کر دیکھ لو ان لوگوں کا کیا انجام ہوا، جنہوں نے (اﷲ عزوجل کے احکام و ہدایات کو) جھٹلایا یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اﷲ عزوجل سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے ہدایت اور نصیحت''۔

''سورۃ الزلزال'' کا آغاز ان الفاظ میں فرمایا گیا کہ ''جب زمین پوری طرح جھنجھوڑدی جائے گی اور وہ اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی، انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے، اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی، اس لیے کہ تیرے ربّ نے اسے حکم دیا ہوگا'' اسی طرح احادیث شریف میں سے صرف ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ''قیامت سے قبل کثرت سے زلزلے اور چیخ و پکار کا عذاب آئے گا، نبی کریمؐ نے امت کو آگاہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ قیامت سے پہلے کے سال زلزلوں کے سال ہوں گے یعنی کثرت سے زلزلے آئیں گے'' (بخاری شریف)۔ لہٰذا اس مختصراً اسلامی تجزیے کی روشنی میں کوئی بھی قوم خود اپنے اعمال کی کسوٹی پر کسی بھی قدرتی آفت کو پرکھ سکتے ہیں کہ آیا وہ عذاب الٰہی ہے یا آزمائشیں ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں