آپا دھاپی کا ماحول
پرویز مشرف ایسے وقت میں پاکستان وارد ہوئے ہیں، جب اس ملک کی سیاسی اشرافیہ کو اپنی پڑی ہوئی ہے
پرویز مشرف ایسے وقت میں پاکستان وارد ہوئے ہیں، جب اس ملک کی سیاسی اشرافیہ کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ صدر زرداری ہوں' میاں نواز شریف ہوں' عمران خان یا فضل الرحمٰن سب الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں اور عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ سے لڑتے ہوئے بے حال ہیں۔ ایسے آپا دھاپی کے ماحول میں کون پرویز مشرف اور کہاں کی غداری' کسی کو ہوش نہیں ہے البتہ ان مصائب و مشکلات سے بے نیاز ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جو پرویز مشرف کو دیکھ کر غصے اور انتقام کی آگ میں جل رہا ہے، اس کا بس چلے تو وہ انھیں کچا چبا جائے، جس روز پرویز مشرف کی ضمانت منسوخ ہوئی' ان کا جوش و جذبہ دیدنی تھا لیکن نگراں حکومت نے غداری کا مقدمہ چلانے سے معذرت کر کے انھیں مایوس کر دیا ہے۔
پرویز مشرف پاکستان کا ایسا حکمران ہے' جس کے دور میں غیر معمولی حادثات و سانحات رونما ہوئے' پاکستان پر نظریاتی حکمرانی کرنے والے طبقے کو ان کے دور میں زخم لگے' وہ پاکستان میں اس سلوک کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ زخم خوردہ بااثر طبقہ پرویز مشرف کو نشان عبرت بنانا چاہتا ہے۔ادھر سیاسی اشرافیہ اپنا دامن بچا کر سارا بوجھ نگرانوں پر ڈالنا چاہتی ہے یا اس کی خواہش ہے کہ سب کچھ عدلیہ اور وکلا کردیں،اور وہ گیارہ مئی کے بعد سکون سے حکومت کے مزے لیں لیکن نگرانوں نے سوچا کہ وہ چار دن کی چاندنی سے لطف اٹھائیں' انھیں اس لڑائی میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
مشرف کی ضمانت منسوخ ہوئی تو رضا ربانی' اسحاق ڈار اور زاہد خان صحافیوں کے سامنے آئے، وہ پرویز مشرف اور نگراں حکومت پر خوب برسے۔سینیٹ جمہوریت کا بڑا معتبر اور قابل احترام ادارہ ہے' اس کے ارکان کو قوم کے ٹیکسوں سے اچھی خاصی مراعات ملتی ہیں اور ان کا عوام سے کہیں اوپر استحقاق بھی ہوتا ہے' اگر کہیں وہ سمجھیں کہ ان کا احساس برتری مجروح ہو گیا ہے تو وہ سینیٹ میں استحقاق مجروح ہونے کی درخواست جمع کراتے ہیں' ان کے استحقاق کی زد میں اگر کوئی سرکاری اہلکار آ جائے تو اس بیچارے کا تبادلہ وغیرہ ہو جاتا ہے۔
اب یہ پتہ نہیں کہ رضا ربانی' اسحٰق ڈار اور زاہد خان اپنی اپنی جماعتوں کی نمایندگی کر رہے تھے یا ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے مشرف مخالف ہونے کا ثبوت فراہم کر رہے تھے۔ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے اسلام آباد کی عدالت سے فرار ہونے پر بیچارے نگراں وزیر داخلہ حبیب اللہ صاحب کو طلب کر کے ان کا اس نا اہلی پر پوسٹمارٹم کیا۔ اب بیچارے نگراں کیا کہیں' وہ تو غیر جانبدار' شفاف اور منصفانہ الیکشن کرانے آئے تھے' انھیں کیا پتہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کرنا اور ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرانا بھی ان کے فرائض میں شامل ہو جائے گا حالانکہ پورے پانچ برس سارے سیاستدان اقتدار میں رہے اور کھل کر کھیلتے رہے۔
جنرل پرویز مشرف ان کے اقتدار میں ہی ملک سے باہر گئے تھے۔ سیانوں نے کیا خوب کہا ہے کہ غصہ بہت عقلمند ہوتا ہے' ہمیشہ اپنے سے کمزور پر آتا ہے' اب ہمارے یہ سینیٹرز اور دوسرے جمہوریت پسند سیاستدان بھی بہت غصے میں ہیں، وہ پرویز مشرف کو کھری کھری سنا رہے ہیں۔ سینیٹ نے تو پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کی قرار داد بھی منظور کر لی ہے۔ اس سے زیادہ وہ کیا کر سکتے تھے۔
نگراں حکومت نے مشرف پر آرٹیکل6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج کرانے سے انکار کرکے صورت حال کو خاصا مبہم اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پورے پانچ برس جمہوری حکمران برسر اقتدار رہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں نے اٹھارھویں' انیسویں اور بیسویں ترامیم پاس کیں لیکن پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا حکمنامہ جاری نہیں کیا۔ ایسا مقدمہ پرویز مشرف کی غیر حاضری میں بھی چلایا جا سکتا تھا لیکن سیاسی اشرافیہ ہر مشکل کام سے گھبراتی ہے' وہ یہ کام بھی نگراں حکومت' عدلیہ اور وکلاء کے ذریعے کرانا چاہتی ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ میر ہزار خان کھوسو کو کیا پڑی ہے کہ وہ اوکھلی میں سر دیں۔ وہ ایک قانون دان اور ریٹائرڈ جج بھی رہے ہیں۔
لہٰذا وفاقی حکومت نے کچھ سوچ کر ہی یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ عدلیہ پر تو میں کوئی بات نہیں کروں گا لیکن مشرف مخالف وکلاء کا رویہ ان کے پروفیشن کے اخلاقی و قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ ہر ملزم کا قانونی حق ہے کہ وہ عدالت کے رو برو اپنی صفائی پیش کرے۔ جنرل پرویز مشرف کے وکلاء یا ان کے حامیوں کی توہین کرنا' ان پر تشدد کرنا' اعلیٰ تہذیبی اقدار کے منافی طرز عمل ہے۔ قانون کا پیشہ انسانی تہذیب کے بلند ترین سطح پر کھڑا ہے۔ ایک سچا قانون دان بڑے سے بڑے ملزم پر بھی سب و شتم نہیں کرتا بلکہ آئین و قانون کا راستہ اختیار کرتا ہے، غصہ سے مغلوب ہوکر ردعمل دینا، اس کی سرشت میں شامل نہیں ہوتا لیکن آجکل جو مناظر ٹی وی اسکرینوں پر نظر آ رہے ہیں' انھیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔
ہم تو پہلے ہی سیاسی اشرافیہ کی موقع پرستی اور کوتاہ بینی کے زخم چاٹ رہے ہیں' اگر وکلاء بھی اسی راستے پر چل نکلے تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔ مشرف کا کیا ہے' انھیں کسی جرم میں سزا ملے یا وہ خاموشی سے بیرون ملک چلے جائیں لیکن وکلاء نے تو یہیں رہنا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کی ہمت اور عقل تو یہ ہے کہ 2002 میں قائم ہونے والی اسمبلی نے پرویز مشرف کے ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنا دیا تھا' اس اسمبلی میں متحدہ مجلس عمل کے ارکان بھی اسمبلی میں موجود تھے۔
اس کے بعد 2008میں جو حقیقی جمہوریت قائم ہوئی' اس نے متعدد آئینی اصلاحات کیں بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ 1973 کا آئین اصل شکل میں بحال کر دیا گیا ہے لیکن عملاً صورتحال یہ ہے کہ ضیاء الحق نے آئین میں جو شقیں داخل کیں' وہ آج بھی قائم ہیں' آرٹیکل62,63 اس کی زندہ مثال ہے' اس طرح پرویز مشرف کے دور میں جو ترامیم ہوئیں' وہ بھی موجود ہیں' کیا ان ارکان پارلیمنٹ کا بھی ٹرائل نہیں ہونا چاہیے جنہوںنے آمروں کے اقدامات کو آئین کا حصہ بنایا اور اپنی مرضی کی ترامیم تو کر لیں لیکن آمروں کی ترامیم کو آئین سے نہیں ہٹایا۔