قبائل ملت کی وحدت میں ضم ہوگئے

کالے قوانین میں جکڑے قبائلی عوام آئینِ پاکستان کے سائے میں شناخت سے محروم لوگ قومی دھارے میں شامل ہوگئے۔


Rokhan Yousufzai May 26, 2018
کالے قوانین میں جکڑے قبائلی عوام آئینِ پاکستان کے سائے میں شناخت سے محروم لوگ قومی دھارے میں شامل ہوگئے۔ فوٹو : فائل

پشتو کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''پانی کو ڈنڈا مارنے سے الگ نہیں کیاجاسکتا''اور یہ کہاوت آج فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام کی شکل حقیقت بن کر ہمارے سامنے آگئی ہے۔

برطانوی سام راج نے اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایک ہی نسل، زبان، مذہب اور ثقافت کے لوگوں کو مختلف ناموں اور علاقوں میں تقسیم کردیا تھا جس کے خلاف وقتاً فوقتاً بعض قومی تحریکیں بھی اٹھیں، جدوجہد بھی کی گئی اور اس سلسلے میں خان عبدالغفارخان المعروف باچاخان کی قیادت میں چلنے والی خدائی خدمت گار تحریک ابتدا ہی سے کاٹے گئے قبائلی علاقوں کو پھر سے سابق صوبہ سرحد کا حصہ بنانے کے لیے سرگرم رہی مگر کسی نے اس کی آواز نہیں سنی۔

بہرحال ''کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے'' کے مصداق جمعرات کے روز24 مئی کو قومی اسمبلی میں فاٹا کو صوبہ خیبرپختون خوا میں ضم کرنے کے لیے 31ویں آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا اور اب فاٹا، پاٹا نہیں رہا بل کہ خیبرپختون خوا کا وہ تاریخی حصہ بن گیا ہے جو انگریزسام راج نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اس خطے سے کاٹا تھا اس تاریخی دن کے موقع پر پختون خوا میپ اور جے یو آئی نے ایوان سے واک آوٹ کرتے ہوئے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اس ضمن میں جے یو آئی تو اتنی قصوروار نہیں کہ فاٹا کے حوالے سے اس کا موقف روز اول ہی سے واضح ہے، تاہم حیرانی پختون خوا میپ پر ہورہی ہے جو ہمیشہ یہ نعرہ لگاتی پھررہی ہے کہ ''لہ چترالہ تر بولانہ پختون یو کڑہ محممودخانہ'' (چترال سے بولان تک محممودخان تمام پختونوں کو یکجا کرو) ہے۔

مگر یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ ''سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا''اور نہ ہی سیاست میں کوئی بات حرف آخر ہوتی ہے، بہرحال جس طرح چودہ اگست کو وطن عزیز برطانوی سام راج کی چنگل سے آزاد ہوا تھا اور وہ دن ہماری تاریخ کے ایک یادگار دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اسی طرح 24مئی بھی ملک کی تاریخ کا ایک اہم دن بن گیا اور جس طرح 14اگست کو یوم آزادی اور یوم قیام پاکستان کا دن کہا جاتا ہے اسی طرح اب 24مئی 2018ء کو ہم ''تکمیل پاکستان'' کے نام سے یاد کریں گے۔ اسی طرح اگر ایک جانب قبائلی عوام، ان کے نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کی بے شمار قربانیاں رنگ لے آئیں تو دوسری جانب برطانوی سام راج کے ہاتھوں ایک ہی نسل اور زبان کے پختونوں کو مختلف حصوں اور ناموں میں تقسیم کیے جانے والوں کو آپس میں پھر سے یک جا کرنے کا آغاز ہوگیا ہے۔

فاٹا اصلاحات بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا کی قومی اسمبلی کی بارہ اور سینیٹ کی آٹھ نشستیں برقرار رہیں گی۔ پانچ سال کے بعد فاٹا سے قومی اسمبلی کی چھے نشستیں جب کہ سینیٹ کی آٹھ نشستیں ختم کردی جائیں گی۔ آئندہ برس فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے فاٹا میں صوبائی قوانین کا فوری اطلاق ہوگا اور منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ ترمیم کے تحت آئین سے فاٹا اور پاٹا کے الفاظ حذف کردیے گئے۔ بلوچستان کے قبائلی علاقے بھی صوبہ بلوچستان میں شامل ہوجائیں گے۔

آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کی قومی اسمبلی میں بارہ نشستوں کو ختم کرکے چھے کردیا گیا ہے۔ اگرچہ سوچنے والی بات ہے کہ جب فاٹا کو آبادی کے لحاظ سے بارہ نشستیں دی گئی تھیں تو صوبے میں انضمام کے بعد اس کی آبادی پر کیا اثر پڑے گا کہ اس سے چھے نشستیں کم ہوجائیں گی، جس سے قومی اسمبلی کی موجودہ 342نشستیں بھی کم ہوکر336ہوجائیں گی۔ فاٹا کی قومی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ خیبرپختون خوا کی قومی اسمبلی کی 45 نشستوں میں چھے کا اضافہ کردیا گیا۔ ضم ہونے والے علاقوں کی صوبائی نشستوں کے ساتھ خیبرپختون خوا کی نشستیں 124سے بڑھ کر 145ہوجائیں گی۔

فاٹا کے بارے میں صدر اور گورنر کے اختیارات ختم کردیے گئے ہیں اور فاٹا وپاٹا کو صوبائی حکومت کے سپرد کردیا گیا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو24 ارب روپے کے ساتھ سو ارب روپے اضافی ملیں گے۔ دس سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہوسکے گا۔ دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے، تاہم ان تمام اقدامات کے لیے ایک مضبوط اور مربوط لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا تاکہ عشروں سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ان علاقوں کی احساس محرومیوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

یہاں سب سے اہم مسئلہ قبیلوں کی مشترکہ جائیداد اور پہاڑوں کی تقسیم اور محکمۂ مال کے قانونی دائرہ کار میں لانا ہے۔ ساتھ دیگر اقدامات اور سہولیات بھی دینا ہوں گی قبائل نے ملک میں امن کے قیام کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں ہر قسم کی سختیاں اور مصیبتیں برداشت کی ہیں عسکریت پسندی اور فوجی کارروائیوں سے ان کے املاک تباہ ہوئے ہیں، گھر ویران پڑے ہیں۔ لہٰذا قبائلی علاقے ایک جامع ترقیاتی فنڈز کا تقاضا کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں قائم چیک پوسٹیں اور بارودی سرنگوں کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور خطرات کا بھی مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ قبائلی عوام کے ساتھ ابتدا سے غیرمنصفانہ، غیرانسانی، امتیازی سلوک اور رویہ روا رکھا گیا جس کی وجہ سے اس اکیسویں عالم گیریت کی صدی میں بھی یہ علاقے ترقی، تعلیم، صحت، روزگار، سیاست، جمہوریت اور ملکی آئین اور قانون سے کوسوں دور رکھے گئے جس کا نتیجہ ہم نے پے درپے چند دہائیوں میں اغوا برائے تاوان، اسمگلنگ، کارلفٹنگ، منشیات، مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی صورت میں دیکھا اور اپنے ہی ہم وطنوں کو انگریز سرکار کے ایک ایسے ظالمانہ نظام ایف سی آر میں جکڑ کررکھا جس کی آج دنیا میں مثال نہیں ملتی۔

قیام پاکستان کے بعد بھی فاٹا کو جس طرح سرزمین بے آئین رکھا گیا تھا اس سے سام راجی نظام کی جھلک ملتی رہی وطن عزیز کے ان لاکھوں بدقسمت باشندوں کو عشروں تک ایک ایسے نظام کے تحت رکھا گیا تھا جس میں ان کی تقدیر کے مالک مٹھی بھر چند ملک صاحبان اور چند افسران ہوا کرتے تھے اور یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ فاٹا میں تعیناتی کو ہمیشہ بینک بیلنس بڑھانے کے لیے ہی استعمال کیا گیا مٹھی بھر ملکان ہی لاکھوں باشندوں کے لیے اراکین کا چناؤ کیا کرتے تھے اور ووٹوں کی باقاعدہ بولیاں لگا کرتی تھیں۔

طویل جدوجہد کے بعد پہلی مرتبہ 1997ء کے انتخابات میں انہیں ووٹ کا حق دیا گیا تاہم سیاسی وقانونی حقوق سے بدستور محروم رکھا گیا۔ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے ماضی میں بھی کوشش ہوئی تھیں مگر بوجوہ کام یابی سے ہم کنار نہ ہوسکیں۔1976ء میں جنرل ریٹائرڈ نصیراللہ بابر کی رپورٹ سامنے آئی تاہم اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء کے عام انتخابات سے قبل قبائلی علاقوں کو سابق صوبہ سرحد میں شامل کرنے کی تجویز پر فوجی بغاوت کے بعد عمل نہ کرسکا۔

بعدازاں 2006ء میں صاحب زادہ امتیاز رپورٹ سامنے آئی، اسے فاٹا میں انتظامی اصلاحات میں پہلی جامع کوشش قراردیا جاتا ہے۔ لیکن آئین سے متعلق ترامیم پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔2008ء میں جسٹس(ر) میاں محمداجمل رپورٹ میں برطانوی راج سے نافذ ایف سی آر میں ترامیم تجویز کی گئیں، لیکن ایف سی آر2011میں سب کچھ شامل نہ کیا گیا پھر2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے سیاسی جماعتوں کو سرگرمیوں کی اجازت دی اور لوکل باڈیز ریگولیشن بھی تیار کیا گیا، لیکن سیکیوریٹی صورت حال کی وجہ سے ان پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ دیکھا جائے تو نائن الیون کے بعد جب خطے میں بدامنی کی نئی لہر شروع ہوئی تو سب سے زیادہ خمیازہ قبائلی باشندوں کو ہی بھگتنا پڑا۔

چناں چہ اس کی ساتوں ایجنسیوں میں پہلے تو عسکریت پسندی نے پنجے گاڑے پھر اس کی بیخ کنی کے لیے فوجی کارروائیاں ہوئیں جس کی وجہ سے فاٹا کی تمام ایجنسیوں کے باشندوں کو دربدری کے عذاب سے گزرنا پڑا، جس کے بعد سنجیدگی کے ساتھ ان علاقوں کو بھی قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیاگیا اور اس حوالے سے پہلے اعجازقریشی کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اصلاحاتی رپورٹ تیار کی اسی رپورٹ کی روشنی میں فاٹا کے مستقبل کے تعین کے لیے وزیراعظم کے مشیر برائے امورخارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی جس نے آخرکار فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کرنے کے حوالے سے اپنی سفارشات تیار کرکے حکومت کو پیش کردیں، جو اب 31ویں آئینی ترمیم کی شکل میں نافذ ہوگئیں اور قبائلی علاقے خیبرپختون خوا کا حصہ بن گیا۔

اس علاقے کو قبائلی علاقہ جات یا فاٹا یعنی Federally Administered Tribal Areasکا نام دیا گیا تھا۔ یہاں کے عوام انگریزوں کی آمد کے بعد ''آزادقبائل'' کے نام سے ایک ایسے کالے قانون اور نظام میں پابند کردیے گئے جس میں یہ لوگ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت سب سے زیادہ محکوم اور مظلوم بنادیے گئے۔ برطانوی سام راج نے پختونوں کے تاریخی خطے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تین حصوں میں تقسیم کرکے موجودہ خیبرپختون خوا کو بندوبستی علاقوں میں شامل کردیا اور قبائلی علاقے انہوں نے افغانستان کے ساتھ فرنٹ لائن بناکر رکھے، مگر مقام افسوس کہ کہ قیام پاکستان کے بعد بھی ان علاقوں اور لوگوں کو بنیادی سیاسی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ چناں چہ یہ علاقے جہالت، غربت اور پس ماندگی کے گرداب میں ڈھلتے گئے۔

یہاں تعلیم، صحت، زراعت اور صنعت نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری اور جہالت کی شرح بڑھتی چلی گئی جس کے نتیجے میں اسمگلنگ، اغواء برائے تاوان، منشیات فروشی، مذہبی انتہاپسندی اور بعد میں دہشت گردی نے باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرلی۔ سردجنگ کے دوران افغانستان میں سابق سوویت یونین کی آمد سے ان علاقوں میں اسلحہ کی ریل پیل شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں مسلح گروہ جنم لینے لگے اور رہی سہی کسر نائن الیون نے پوری کردی۔

خیبرپختون خوا سے ملحقہ سات قبائلی ایجنسیوں کو فاٹا یعنی فیڈرلی ایڈمنسٹرڈ ٹرائبل ایریاز یعنی ''فاٹا'' کہا جاتا تھا، جب کہ کچھ علاقے پراونشلی ایڈمنسٹرڈ ٹرائبل ایریاز ''پاٹا'' کہلاتے تھے۔ فاٹا کے علاقے 28773 مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں۔ فاٹا باجوڑ ایجنسی، مومند ایجنسی، خیبرایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان، اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل تھا۔ قبائلی علاقوں میں ملک کے دیگر علاقوں اور صوبوں کی طرح حکومتی قوانین نہیں چلتے تھے اپنے معاملات اپنے رسم و رواج اور روایات کے مطابق حل کیے جاتے رہے ہیں، جسے ''پختون ولی'' کہتے ہیں۔ قبائلی علاقے دراصل صدر مملکت یعنی وفاق کے دائر اختیار میں آتے تھے، لیکن صوبے میں یہ اختیارات گورنر کے پاس ہوتے تھے۔

ایجنسی کا منتظم جو ضلع کے ڈی سی او کے برابر ہوتا تھا پولیٹیکل ایجنٹ کہلاتا تھا۔ ماضی میں حکومت برطانیہ نے صوبہ خیبرپختون خوا کے لیے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے نام سے قوانین وضع کیے جو عرف عام میں ''ایف سی آر'' کہلاتے تھے، جس کے تحت فاٹا کی تمام ایجنسیوں اور ایف آر میں دیوانی اور فوجداری مقدمات اور دیگر معاملات کے فیصلے ہوتے تھے 1893 ء کو ڈیورڈ لائن معاہدے کے بعد ہندوستان پر قابض انگریز حکم رانوں کو صوبہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پختون اور بلوچ اقوام پر حکم رانی کے لیے ایک ایسے قانون کی ضرورت تھی جس میں زیادہ سے زیادہ اختیارات انگریز افسران (پولٹیکل ایجنٹس) کے پاس ہوں اس مقصد کے لیے انگریزوں نے1901ء میں ایف سی آر کے نام سے ایک قانون نافذ کیا۔

جس کے چھے ابواب اور 64 سیکشن ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کی جانب سے ایف سی آر پر زیادہ تر تنقید اس لیے کی جاتی رہی کہ ایجنسیوں میں تعینات پولٹیکل ایجنٹس نے اکثر اوقات ایف سی آر کا غلط استعمال اور اس کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو تنگ کیا۔ انگریز حکم رانوں نے قبائلی علاقوں میں جو انتظامی ڈھانچا مرتب کیا تھا اس نظام کی بدولت برطانوی سام راج کے لیے اپنے گماشتوں کے ذریعے یہاں حکم رانی کرنا ممکن ہوا اور قبائلی عوام کو خودمختاری کے نام پر مغالطے میں رکھ کر فرنگیوں نے دراصل اپنے سام راجی مفادات کو فروغ دیا اور یوں عام قبائلی ایک طویل عرصے کے لیے ایک طاقت ور مفاد پرست گروہ کے یرغمال بنے رہے۔

برطانوی سام راج سے چھٹکارا پانے کے لیے قبائلی عوام نے بے شمار قربانیاں دیں تاکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک پاکستان میں ان کے ساتھ بھی دیگر علاقوں کے باشندوں کی طرح سلوک کیا جائے گا، قیام پاکستان کے وقت افغانستان سے تاریخی، خونی، اسلامی اور ثقافتی رشتہ ہونے کے باوجود قبائل نے خود کو پاکستان کا حصہ بنایا، لیکن آزادی ملنے اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی ان قربانیوں کے ثمرات قبائلی پختونوں کو نہ مل سکے اور مختلف ادوار میں کسی نہ کسی وجہ کو بہانہ بناکر ان علاقوں میں اسی نظام کو برقرار رکھا گیا۔ اتنی طویل مدت گزرنے کے بعد بھی قبائلی عوام ملک کی اقتصادی اور سیاسی ترقی کے فوائد سے مستفید نہیں ہوسکے۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ سیاسی عمل سے انہیں الگ رکھا گیا اور یوں سیاسی عمل میں شرکت سے جو اقتصادی اور معاشرتی فوائد جنم لیتے ہیں ان سے قبائلی محروم رہے۔ امریکا، سعودی عرب اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مل کر دنیا بھر سے جنگ جوؤں کو فاٹا میں لابسانے اور قبائلی علاقوں کو بیس کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے ملک خداداد کی خاطر ان لوگوں کو اپنے دلوں میں بسایا۔ یہی قبائل ہیں کہ گذشتہ 68 سالوں سے پاکستان کی مغربی سرحد کی حفاظت کررہے ہیں، اور مشرقی سرحد کے برعکس کبھی وہاں ایک لاکھ فوج تعینات کرنے کی ضرورت بھی نہ رہی۔ ان علاقوں کے محل وقوع کی دفاعی نوعیت کی بدولت سرد جنگ کے زمانے میں بھی جب سوویت یونین اور مغرب کے مابین مخاصمت عروج پر تھی ان کا مختلف اور شاید مہذب طریقوں سے استحصال کیا گیا، لیکن اب سرد جنگ کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ دنیا میں گلوبلائزیشن اور علاقائی تعاون کے نظریات فروغ پا رہے ہیں۔

ان حالات کا اثر یقیناً قبائلی علاقوں میں موجود نظام پر بھی پڑرہا ہے۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہمارے حکم رانوں نے قبائل کو اپنے وجود کا قانونی،آئینی اور انتظامی حصہ بنانا گوارا نہیں کیا۔ وہ ایک ایسے ظالمانہ قانون کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، جس کی مثال آج پوری دنیا میں نہیں ملتی، قبائل اپنے انسانی حقوق کے لیے نہ ہائی کورٹ جاسکتے تھے اور نہ سپریم کورٹ۔ موجودہ وفاقی حکومت نے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے جو ترمیم پاس کی وہ ہر لحاظ سے قابل ستائش اور تاریخی اقدام ہے، جس سے سابق فاٹا کے علاقے اور عوام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ عرصۂ دراز سے فاٹا کی اکثریت، اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اکثر اور ملک کے اکثر سیاسی جماعتوں کا بھی یہی ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کیا جائے اور یہ مطالبہ ہر لحاظ سے جائز اور انسانی حقوق پر مبنی تھا کہ قبائلی عوام کی زندگی کا سارا دارومدار کل بھی خیبر پختون خوا پر تھا اور آج بھی رہے گا۔

چاہے تعلیم ہو، صحت ہو، روزگار، ٹرانسپورٹ، اور دیگر کاروبار ہو قبائل عوام کا انحصار خیبرپختون خوا پر ہی ہے۔مطلب مذکورہ شعبوں میں فاٹا کا سارا بوجھ ویسے بھی خیبرپختون خوا اٹھاتا رہا، لہٰذا قبائلی علاقے کے ڈھانچے کی درستی کے سلسلے میں موجودہ اور آنے والی حکومت کو عملی اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔

گزشتہ68 سالہ دور میں یہاں کے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں بہت کم کوششیں کی گئی ہیں، ان علاقوں کی دفاعی لحاظ سے اہم جغرافیائی حیثیت اور ان میں حکومت کی جانب سے شروع کردہ انسداد دہشت گردی کی مہم کی بدولت سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے، اور یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا کہ حکومت اپنے پاس کردہ بل کی سفارشات پر من وعن عمل کرکے دکھائے۔ بہرحال 24 مئی کو پورے ملک اور باالخصوص پختونوں کی تاریخ میں ایک یادگار اور تاریخ ساز دن کے طور پر یاد کیا جائے گا کہ اس دن قبائلی عوام کو حقیقی معنوں میں اس ملک کے شہری سمجھا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔