رائیگانی کا سفر
قانون کی حکمرانی کے نام پر طاقتور کی حکمرانی کا نظریہ روبہ عمل ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تاریخ مردہ تہذیبوں اور ماضی کے سمندر میں غرق ہوجانے والی قوموں کی کتھا کہانی ہے، اسی لیے ہمیں ضرورت نہیں کہ اسے اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کریں۔ یہ ایک ایسا نکتہ نظر ہے جس نے ہمارے نوجوانوں سے سوچ کی وہ گہرائی چھین لی ہے جو ان پر خیال کے دروازے کھولتی ہے۔
قدیم تہذیبوں کی بات جانے دیجیے، ہم نے پاکستان کے اس حصے کی تاریخ کو بھی قطعاً نظرانداز کردیا ہے کہ اب سے صرف 47 برس پہلے اس کا جغرافیہ ہمارے ملک کا جزو لازم تھا۔ اسی کے اکثریتی ووٹوں نے ہمارے لیے ایک نیا ملک تخلیق کیا تھا۔
سابق مشرقی پاکستان جس کی آبادی ہم سے زیادہ تھی، اس کے عام باشندے کی پور پور میں سیاسی شعور سانس لیتا تھا اور اس کی وطن پرستی کا یہ عالم تھا کہ جب انگریزوں نے 'بلیک ہول' کا فسانہ تراشا اور بنگال کے حکمران سراج الدولہ پر سفاکی سے انگریزوں کے قتل کا بہتان تراشا تو ہندو بنگالی مورخین نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ 'بلیک ہول' کا واقعہ ممکن ہی نہیں تھا۔
یہ مشرقی پاکستان کے نمائندے تھے جنھوں نے ابتدا سے یہ مطالبہ کیا کہ ہماری دستور ساز اسمبلی کو اپنا اصلی کام جلد از جلد مکمل کرنا چاہیے تاکہ ہمارا آئین تشکیل پائے اور ہم اس کی روشنی میں مملکت کے کاروبار کو درست سمت میں چلا سکیں۔
پاکستان میں اس کے برعکس ہوا۔ 1947ء سے 1956ء کے درمیان 3 گورنر جنرل، 4 وزرائے اعظم، دو آئین ساز اسمبلیاں اور 9 برس گزر گئے، تب کہیں جاکر پاکستان کا پہلا آئین تیار ہوا۔ یہ 29 فروری 1956ء کی تاریخ تھی جب لوگوں کو یقین تھا کہ یہ آئین منظور کرلیا جائے گا، لیکن آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت عوامی لیگ اور وہاں کی ان چھوٹی جماعتوں نے اسے رد کردیا جو ہندوؤں پر مشتمل تھیں۔ اس آئین کو روک دیا گیا اور اس پر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو ملک کی سیاسی صورت حال مزید خراب ہوگئی۔ اس سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 7 اکتوبر 1958ء کو ملک میں پہلا مارشل لا لگادیا گیا۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور 4 برس بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 1962ء کا آئین نافذ کردیا گیا۔ 1956ء کا آئین آنکھیں کھولنے سے پہلے ہی رخصت ہوا تھا۔ 1962ء کا آئین ایک آمر کا بنایا ہوا تھا، جو اس نے اپنی ضرورتوں کے مطابق تشکیل دیا تھا۔ یہ 1973ء کا آئین تھا جو مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہوجانے اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد باقی رہ جانے والے پاکستان کے نمائندوں نے بنایا تھا۔ 1973ء سے اب تک اس آئین پر جو کچھ گزری، وہ ہماری تاریخ کا المناک باب ہے اور بہت تفصیل چاہتا ہے۔
اس وقت یہاں ان چند ناموں کا ذکر ضروری ہے جنھوں نے پاکستان کے ابتدائی برسوں میں اپنی سی کوششیں کیں کہ کسی طرح ملک کو اس کی بنیاد فراہم کردی جائے اور آئین پر وہ عمارت استوار کی جائے جو ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کی آبادی کے ساتھ مساوی بنیادوں پر انصاف کرے۔ 1947ء سے 58ء تک خواجہ ناظم الدین سے لے کر حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی، اے کے فضل الحق اور دوسرے بہت سے سیاستدانوں نے پاکستان کو دستور دینے اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لیے اپنی تمام کوششیں کیں۔ اس ضمن میں ہم مولوی تمیزالدین کی خدمات فراموش نہیں کرسکتے۔
اسی طرح جسٹس کارنیلیس اور سر جسٹس کانسٹنٹائین نے اپنے فیصلوں سے پاکستان کو سیدھی راہ پر چلانے کی کوشش کی، لیکن مشکل یہ تھی کہ ان عظیم ججوں کی راہ روکنے کے لیے جسٹس منیر موجود تھے، جنھوں نے 'نظریۂ ضرورت' نامی فرزند دل بند پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی گود میں ڈال دیا اور پھر وہ گھبرو جوان ہر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور سول حکومتوں کے کام آیا۔ پاکستانی تاریخ کے ابتدائی برسوں میں ہم میاں افتخار الدین اور سردار شوکت حیات کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے استعفیٰ دیتے دیکھتے ہیں۔
ان کا اعتراض یہی تھا کہ اس اہم ترین کام کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، جس کی وجہ سے ملک کی تعمیر و ترقی میں رخنے پڑ رہے ہیں۔ ان دونوں حضرات کے استعفوں کے چند برس بعد مشرقی پاکستان کی نمایندگی کرنے والی خاتون شائستہ سہروردی اکرام اﷲ نے بھی دستور ساز اسمبلی سے 14 نومبر 1953ء کو استعفیٰ دے دیا۔ وہ اس بات پر شکوہ کناں تھیں کہ ہم جو اس دستور ساز اسمبلی کا حصہ ہیں، خزانے سے تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں اور لوگ ہمیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، ہم اپنے لوگوں کے اعتماد پر پورے نہیں اترے۔
پاکستانی سیاست کے ابتدائی دس برسوں کی جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو بیگم شائستہ کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا۔ انھوں نے 24 فروری 1948ء سے اسمبلی میں اپنی اختلافی رائے کو کھل کر بیان کرنا شروع کیا اور اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان سے ان کا مباحثہ رہا۔ اسمبلی میں ان کی پہلی تقریر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان اراکین کی حمایت میں تھی جنھوں نے تجویز رکھی تھی کہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ایک مرتبہ کراچی اور ایک مرتبہ ڈھاکا میں ہو، تاکہ دونوں طرف کے لوگوں کو آئین سازی اور قانون سازی میں شراکت داری کا احساس ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈھاکا ایک بڑا شہر ہے، اگر مغربی پاکستان کے نمائندے سال میں ایک مرتبہ وہاں جائیں گے تو ان کو سفر میں بس اتنی ہی زحمت ہوگی جتنی مشرقی پاکستان والوں کو دارالحکومت کراچی کے سفر میں ہوتی ہے۔ 24 فروری 1948ء کو انھوں نے وزیراعظم اور دیگر اراکین اسمبلی کے سامنے یہ جملہ کہا کہ ''مشرقی پاکستانیوں میں یہ احساس پرورش پارہا ہے کہ انھیں نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان کے ساتھ مغربی پاکستان کی ''نوآبادی'' کا سلوک کیا جارہا ہے۔ ہمیں اس احساس کو کھرچ پھینکنے کے لیے حتی المقدور سب کچھ کرنا چاہیے۔''
ان کی یہ اختلافی تقریر چٹکیوں میں اڑا دی گئی اور وزیراعظم نے یہ کہہ کر بات تمام کی کہ ''مجھے معلوم ہے کہ عورتوں کو مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا''۔ وزیراعظم کی مراد سال میں ایک مرتبہ اسمبلی کی کارروائی ڈھاکا میں کرنے کی مشکلات سے تھی۔ 24 فروری 1948ء کا دن تمام ہوا لیکن شائستہ سہروردی کا یہ جملہ اٹل ثابت ہوا کہ ''مشرقی پاکستانیوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان کے ساتھ مغربی پاکستان کی نوآبادی جیسا سلوک کیا جارہا ہے''۔
وہ برصغیر کی اس مسلم اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں جس کے لیے سیاست عبادت تھی اور جس کا دل نسلی، لسانی اور صوبائی تعصبات سے پاک تھا۔ 1953ء میں اپنے استعفیٰ کے وقت انھوں نے سیاست کو جن اصولوں پر چلانے کی بات کی تھی اور جن معاملات کے بارے میں احتجاج کیا تھا، اگر ان پر کان دھرے جاتے، سابق مشرقی پاکستان کی حق تلفی نہ کی جاتی، اس کے جائز سیاسی حقوق اسے دیے جاتے تو وہ سب کچھ نہ ہوتا جو 1970ء میں ہوا اور جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا۔
وہ جتنے دنوں دستور ساز اسمبلی کی رکن رہیں، اقلیتوں کے حقوق، اختلافِ رائے کے حق اور جمہوری اصولوں کے خلاف منظور کیے جانے والے ریزولیوشن پر اختلاف کرتی رہیں۔ وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا رکن ہونے کو اپنے لیے وجہ افتخار سمجھتی تھیں، لیکن جب انھیں اندازہ ہوگیا کہ دستور کی تشکیل سے کسی کو دلچسپی نہیں تو وہ ''استعفیٰ میرا بہ حسرت ویاس' کہتی ہوئی صرف دستور ساز اسمبلی سے ہی نہیں، سیاست سے بھی کنارہ کش ہوگئیں۔ انھوں نے کبھی کسی بارے میں شکوہ نہیں کیا۔ کراچی کی علمی، ادبی اور سماجی زندگی میں انھوں نے اپنا حصہ ڈالا اور ایک طویل زندگی گزار کر اس دنیا سے ایک دل شکستہ انسان کے طور پر رخصت ہوئیں۔
وہ پاکستان کو جس حال میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئی تھیں، وہ پاکستان آج بھی ویسا ہی ہے۔ آئیں ذرا اپنی مصروفیات پر نظر ڈالتے ہیں، 1973ء کا آئین موجود ہے لیکن اس کی بالادستی قبول کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جاتا ہے، آئین میں دیے گئے دائرہ کار سے تجاوز کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔
قانون کی حکمرانی کے نام پر طاقتور کی حکمرانی کا نظریہ روبہ عمل ہے۔ جمہوری عمل میں رخنہ ڈالنا، پارلیمنٹ کی بے توقیری کرنا اور عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کا نتیجہ آج ہماے سامنے ہے۔ جمہوریت نے بنگلہ دیش اور ہندوستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کا خاتمہ قریب ہے، خطے سمیت دنیا کے تمام ملک ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور برق رفتاری سے ترقی کررہے ہیں اور ہم ابھی تک جمہوریت کا مذاق اڑانے، منتخب نمائندوں کی تذلیل کرنے، گالیاں بکنے اور تھپڑ مارنے میں مصروف ہیں۔
رائیگانی کا ایک سفر ہے جس سے ہم سب گزر رہے ہیں۔