فاٹا کا کے پی میں انضمام خوش آئند قبائلی عوام کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے

مختلف سیاسی رہنماؤں کا پشاور میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال


مختلف سیاسی رہنماؤں کا پشاور میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

24مئی بروز جمعرات قومی اسمبلی میں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کیلئے 31 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی جسے مختلف حلقوں کی جانب سے خوش آئند قرار دیا جارہا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف فاٹا کے عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے بلکہ ان کی محرومیوں کا خاتمہ بھی ہوجائے گا۔ اس اہم قومی پیش رفت پر ''ایکسپریس فورم پشاور'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سردارحسین بابک (صوبائی جنرل سیکرٹری وپارلیمانی سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی)

فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام تاریخی اقدام اور خوشی کا موقر ہے۔ اس کے پیچھے برسوں کی عملی اور مسلسل جدوجہد شامل ہے۔ اس حوالے سے اراکین قومی اسمبلی نے سب سے زیادہ جدوجہد کی۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ فاٹا اور قبائلی عوام کے لیے آواز بلند کی اور اس مقصد کے لیے صوبائی اسمبلی میں قراردادیں بھی منظور کرائی گئیں۔ فاٹا کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا بہت بڑا صوبہ بن گیاہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اس میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی بے شمار مواقع میسر ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ قانون سازی کے بعد انضمام کے حوالے سے مرکزی و صوبائی حکومتیں دیگر تمام انتظامات بھی کریں گی جو ہنگامی بنیادوں پر ہونے چاہئیں کیونکہ فاٹا کے لوگوں نے بڑی مشکلات جھیلی ، جانی ومالی نقصان برداشت کیا اور اب بھی لاکھوں قبائلی ملک کے مختلف حصوں میں اپنی زندگی بسرکررہے ہیں۔ انضمام کے بعد عارضی طور پر دیگر مقامات پر مقیم یہ لوگ بھی اپنے علاقوں کو واپس آنا شروع ہوجائیں گے لہٰذا اب حکومتوں کو بھی انتظامی امور کے حوالے سے فوری طور پر اقدامات شروع کردینے چاہئیں۔ ملک کے اندر اور باہر جتنے بھی پختون مقیم ہیں انہیںچاہیے کہ یہاں سرمایہ کاری کو ترجیح دیںتاکہ جہالت ،بے روزگاری و دیگرمسائل کا خاتمہ ہواور صوبے میں معاشی ترقی ہوسکے۔ جب صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہورہاتھا تو اس وقت یقینی طور پر ایک سے زائد نام ہمارے سامنے تھے تاہم خیبرپختونخوا کے نام کا انتخاب اسی وجہ سے کیاگیا تاکہ مستقبل میں فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے اور اب ہماری جدوجہد بلوچستان کے پختونوں کو یکجا کرنے کے لیے ہے۔ فاٹا، قیام پاکستان سے ہی بفر زون کی شکل میں موجود رہاہے ،جہاں بندوق، منشیات اور مفروروں کو آزادی رہی جو اس خطے کو تباہ کرنے کی سازش تھی لیکن اب انضمام کے بعد قبائلی علاقے خیبرپختونخوا کے اضلاع اور تحصیلوںمیں تبدیل ہوجائیں گے،وہاں پولیس کا نظام ہوگا، تھانے و عدالتیں قائم ہونگی اور انتظامی گورننس کا ڈھانچہ قائم کیاجائیگاجس سے ترقی کا پہیہ چل پڑے گا۔ پاکستان اور افغانستان دو الگ اور آزاد ریاستیںہیں لہٰذا دونوں کو ہی ایک دوسرے کی خود مختاری تسلیم کرنا ہوگی، صرف اسی صورت میں ہمارے مسائل حل ہونگے، اعتماد کی فضا بحال ہوگی ، دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو فروغ ملے گا اور دہشت گردی سمیت دیگر مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔ فاٹا کے انضمام پر افغانستان کا اعتراض بے معنی ہے۔ ہمارے بعض سینئر حلقوں کی جانب سے فاٹا کے انضمام کی مسلسل مخالفت سمجھ سے بالاترہے۔عرصہ دراز سے اربوں روپے قبائلی عوام کے نام پر آرہے ہیں جو کبھی فاٹا سیکرٹریٹ اور کبھی اسلام آباد میں بیٹھے بااثر افراد کھا جاتے ہیں۔ اس لیے اب فاٹا کے حوالے سے فیصلہ سازی میں عوامی شرکت ضروری ہے۔ فاٹامیں آئندہ سال صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن کرانے سے یقینی طور پر خیبرپختونخوا میں حکومت پر اثرتو پڑے گا لیکن جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے فاٹا کو ضم کرنے کے معاملے پر اتفاق کا مظاہرہ کیاہے اسی طرح وہ اس موقع پر بھی معاملات کو اتفاق رائے سے سنبھالیں گی تاکہ کوئی بحران پیدانہ ہو۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ فاٹاانضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں ترقی کا عمل تیز سے تیز تر ہو تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سارے عمل میں عوام شامل ہوں کیونکہ عوام کی شمولیت سے حقیقی معنوں میں ترقی ہوگی اور کھربوں روپے ضائع نہیں ہوں گے۔ اگر ایک مربوط حکمت عملی مرتب کی جائے تو باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک تمام علاقوں میں ترقی ہوگی۔ جو لوگ فاٹا کے معاملے پر ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں وہ یہ دیکھیں کہ اے این پی ،تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی ،قومی وطن پارٹی اور مسلم لیگ ایک جانب جبکہ صرف دو جماعتیں الگ کھڑی ہیں تو کیا یہ ریفرنڈم نہیں؟ سوال یہ ہے کہ جے یوآئی کی احتجاجی کال پر کتنے لوگ باہر نکلے؟ انہیں چاہیے کہ فاٹا پر رحم کریں تاکہ وہاں کے مصیبت زدہ لوگ ترقی کرسکیں ، وہاں کے تباہ حال تعلیمی نظام ،شعبہ صحت و دیگرشعبہ جات کا نظام درست کیا جاسکے۔ جے یوآئی نے مرکزی حکومت میں رہتے ہوئے بہت ظلم کیا کہ فاٹا کے انضمام کو تاخیر کا شکار کرایا ورنہ یہ کام کافی پہلے ہوجاتا۔

صاحبزادہ ہارون الرشید (سابق رکن قومی اسمبلی' نائب امیر جماعت اسلامی و سابق امیر فاٹا )

یقینی طور پر یہ تاریخی موڑ ہے کہ آج فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہورہا ہے ،یہ پاکستان کے27 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ اور 50 لاکھ کی آبادی پر مشتمل علاقہ ہے جو 70 برسوں سے مشکل میں تھا مگر اب وہاں کے لوگوں کو آئینی ،سیاسی ،سماجی اور قانونی حقوق ملیں گے۔ فاٹا اب خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکا ہے، اب فاٹا میں امن قائم ہوگا اورخوشحالی آئے گی جو تمام سیاسی جماعتوں کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ہمارے زمانہ طالبعلمی میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد فاٹا کے حوالے سے جدوجہد کیا کرتے تھے ،انہوںنے1985ء میں فاٹا کے حوالے سے آواز اٹھائی جب فاٹا میں سیاست شجر ممنوع کی حیثیت رکھتی تھی۔ انہوں نے باجوڑ سے وزیرستان تک دورے کیے جس کی وجہ سے انہیں جیلوں میں بھی جانا پڑا اور وہ نظر بند بھی ہوتے رہے۔ قاضی حسین احمد نے1997ء میں باجوڑ کے خار بازار چوک میں جلسہ منعقد کیااور یہ وہی جدوجہد ہے جو آج کامیاب ہوئی اور اب تنازعہ بھی ختم ہوگیاہے۔ جو لوگ فاٹا کے انضمام کے مخالف تھے انہیں بھی اب یہ فیصلہ تسلیم کرلینا چاہیے کیونکہ فاٹا کے لوگوں نے 70 برسوں کے دوران بہت سی مشکلات دیکھی ہیں ۔ فاٹا کو خبیرپختونخوا میں ضم کرنے کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا اتفاق ہے اسی لیے جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر فاٹاانضمام سے متعلق بل کی منظوری دی، اسی طرح مرکزی و صوبائی حکومتیں بھی اسے سپورٹ کریںگی۔ فاٹا کی شمولیت سے خیبرپختونخوا مضبوط ہواہے، اب این ایف سی ایوارڈ کے تحت خیبرپختونخوا کا حصہ بھی بڑھ جائے گا اور مرکز کی جانب سے فاٹاکے ان علاقوں کو جو اب خیبرپختونخوا میں ضم کیے جارہے ہیں کے لیے الگ سے 100ارب روپے بھی دیئے جائیں گے۔ اس وقت ضرورت شفافیت کی ہے تاکہ بھرپور طریقے سے فاٹا میں ترقی کا عمل شروع ہوسکے۔ ہر سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایشو پر اپنا ایک مخصوص موقف رکھے لیکن جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے بھی کچھ تقاضے ہیں کہ جب پارلیمنٹ جمہوری طریقے سے متفقہ یا کثرت رائے سے فیصلہ کر لیتی ہے تو پھر سب کو اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اصل مسئلہ قبائلی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہے لہٰذا سب مل کر کام کریں۔ فاٹا انضمام کوئی حلال، حرام کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک انتظامی مسئلہ تھا جو آئینی طریقے سے حل ہوگیا لہٰذا اسے تسلیم کرنے میں کسی کو کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے ۔

عبدالجلیل جان (صوبائی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام،ف)

فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا بل عجلت میں لایاگیاہے۔ ہم نے کبھی بھی انضمام کی مخالفت نہیں کی بلکہ ہمارا ہمیشہ سے موقف رہاہے کہ جو بھی فیصلہ کیاجائے اس کے بارے میں فاٹا کی عوام سے رائے لی جائے۔ 150 برس قبل سیاہ دن تھا جب ایف سی آر کا کالاقانون قبائلی عوام پر مسلط کیاگیا۔ میرے نزدیک یہ ایک اور سیاہ دن ہے جب ڈنڈے کے ذور پر قبائلی عوام کو خیبرپختونخوا میں ضم کیاگیااوران کی رائے کودبادیاگیاحالانکہ اگر عوام کی رائے لی جاتی تو اس سے بہتری آتی۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے 50لاکھ میں سے دو ہزار افراد کی رائے لی تو اسے کسی بھی طور قبائلی عوام کی رائے نہیں کہا جاسکتا۔ وزیر اعظم اور وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر ہمارے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے تھے اس میں سب سے پہلے فاٹا سے 40ایف سی آرکاخاتمہ شامل تھا۔ تعلیم وصحت کے اداروں کا قیام اور جامع پیکیج جبکہ انضمام کے حوالے سے یہ طے پایاتھا کہ اگر ایسا کرنا مقصود ہواتو اس صورت میں پانچ سالوں کے اندر وہاں کی عوام کی رائے لیتے ہوئے اسے شامل کیاجائیگا،سوال یہ ہے کہ وہ معاہدہ کہاں چلاگیا؟آج جو سیاستدان فاٹا انضمام پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں وہ ذرا خیبر پختو نخوا میں پہلے سے شامل کوہستان ،بٹ گرام ،شانگلہ ،ٹانک اور دیگر پسماندہ علاقوں پر نظر دوڑائیںکہ ان کی حالت کیسی ہے۔ صوبہ اس وقت 375ارب کا مقروض ہے۔ ایسے میں فاٹا کا انضمام ایسا ہی ہے کہ جیسے اسے مرکز کی غلامی سے نکال کر صوبہ کی غلامی میں دے دیاجائے۔ ہم تو حیران ہیں کہ یہ فیصلہ اتنی عجلت میں کیوںکیاگیاہے؟پنجاب میں سرائیکی صوبہ کے قیام کا مطالبہ موجود ہے ،بہاولپورصوبہ کے قیام کا مطالبہ بھی موجود ہے،سندھ میں الگ صوبہ کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور ہمارے یہاں صوبہ ہزارہ کے سلسلے میں تحریک بھی موجودہے لیکن اس جانب توجہ نہیں دی جارہی ۔ سوال یہ ہے کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے سے پختونوں کی نشستوں میں اضافہ ہواہے یا کمی؟سینٹ اور قومی اسمبلی میں ان کی نشستیں تو کم ہوگئی ہیں،اگر فاٹا کو الگ صوبہ بنایاجاتاتو اس صورت میں اس کا الگ گورنر اور وزیراعلیٰ ہوتا،الگ سیکرٹریٹ اور ادارے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ صوبہ کے اراکین وزیراعلیٰ سے بھیک مانگتے رہتے ہیں اور آنے والے وقتوں میں فاٹا کے نمائندے بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہونگے۔ باجوڑ اور وزیرستان کو فنڈز کیسے ملیں گے۔ افسوس ہے کہ پہلے انگریز کا قانون نافذ تھا اور آج واشنگٹن کا قانون مسلط کیا جارہا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 247 کے تحت یہ قبائلی عوام کا حق ہے کہ ان سے پوچھا جاتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں لیکن عوام کی رائے پر قدغن لگادی گئی اور واشنگٹن کے فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کی جانب سے ہمارے فاٹا کے نمائندوں سے رابطہ کیاگیا کہ اس مسئلے پر ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ یہ بھی یاد رکھاجائے کہ امریکہ نے 1995ء میں فاٹا کوخیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی بات کی تھی،اقوام متحدہ بھی انضمام کی باتیں کرتارہاہے اس لیے یہ تمام سیاسی جماعتیں جو آج انضمام کی حامی ہیںوہ لاشعوری طور پر ان کے ایجنڈے پر چل رہی ہیں۔ جب قومی سلامتی کمیٹی گلگت بلتستان کوپانچ سال تک چھوٹ دے سکتی ہے تو فاٹا کو کیوں نہیں؟ فاٹا کی آڑمیں پاٹا کا سٹیٹس بھی ختم کردیاگیا۔ مرکز اب فاٹا کو فنڈز فراہم نہیں کررہا تو انضمام کے بعد وہ فنڈز کیسے دیگا جس کا وعدہ کیاجارہاہے ۔ فاٹا سے 21نشستیں ہوںگی تو اس کا مطلب ہے کہ وزیراعلیٰ فاٹا سے نہیں آسکے گا تو پھر فائدہ کیا۔ میرے نزدیک خوشی کے بجائے اس پر ماتم کرنا چاہیے۔ ترجیح ایف سی آر کا خاتمہ اور اصلاحات تھی لیکن اس کی جگہ انضمام نے لے لی۔ ایم ایم اے کی سطح پر فیصلہ کیاگیاہے کہ جے یو آئی اورجماعت اسلامی یہ معاملہ زیر بحث نہیں لائے گی تاہم اگر صوبہ میں ایم ایم اے کی حکومت بنتی ہے تو ہم یقینی طور پر فاٹا کی عوام سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ،خیبرپختونخوا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر الگ صوبہ چاہتے ہیں۔ صورتحال تو یہ ہے کہ خود ایک شاہ جی گل آفریدی کے علاوہ فاٹا کے ارکان نے قومی اسمبلی میں فاٹابل کے معاملے پر ووٹ نہیں ڈالاجس سے واضح ہوجاتاہے کہ وہ اپنی عوام کا مزاج سمجھ رہے ہیں کہ عوام ایسا نہیں چاہتی۔

طارق احمد خان (سیکرٹری اطلاعات قومی وطن پارٹی )

قومی وطن پارٹی نے اپنے قیام کے بعد ہمیشہ پختونوں اور خصو صاً قبائل کی ترقی و حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے۔ آج اگر وفاقی حکومت نے فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا تو اس میں قومی وطن پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ میں فاٹا سمیت پوری قوم کو اس تاریخی موقع پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ہمارے بزرگوں و نئی نسل کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں آج ہمیں یہ تاریخی دن دیکھنانصیب ہوا ہے تاہم اب بھی تھوڑا اورکام باقی ہے۔ ہمیں اس اہم موقع پر بلوچستان کے پختونوں کو بھی نظر انداز نہیںکر نا چاہیے،انہیں بھی ساتھ ملانے کی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قومی وطن پارٹی کا موقف بہت واضح ہے کہ بلوچستان کے قبائل کو بھی ایک ایڈمنسٹریشن کے نیچے لایا جائے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایک مثبت اقدام اٹھایا گیا جس کے آنے والی نسلوں پر اچھے اثرات مرتب ہو ںگے ۔ قبائل نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنا حق حاصل کیا ہے حالانکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی انگریز کے نافذکردہ کالے قانون ایف سی آر کو ختم کر دیا جاتا تو قبائل کو اتنی صعوبتیں برداشت نہ کرنا پڑتیں۔ جن عناصر نے فاٹا کے عوام کو آرٹیکل ون کے تحت پاکستان کا شہر ی ہونے کے باوجود بھی ملک سے الگ تھلک رکھا انہوں نے بہت زیادتی کی ہے۔ آج بھی جو لوگ ریفرنڈم کے بات کرتے ہیں یا ایک پختون قوم کو مختلف قبائل کا نام دیکر ان کی جغرافیائی حیثیت کو مد نظر رکھ کر علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں وہ پختونوں وخصو صی طور پر قبائل کے خیر خواہ نہیں ہیں تاہم اب ان لوگوں کی سازشیں ناکام ہو گئی ہیں اور فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ جو لوگ اس کو غیروں کے ایجنڈے کی تکمیل قرار دے رہیں وہ قبائل کیساتھ مخلص نہیں ہوسکتے ۔ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام، جمہوری و پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق ہوا ہے لیکن جے یو آئی نے اب بھی اس کو ایشو بنایا ہو ا ہے حالانکہ انہیں چاہیے کہ فاٹا کے عوام اور ملک کے وسیع ترمفاد میں اس فیصلہ کی بھر پور حمایت کریں تاکہ اس پسماندہ علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزان کیا جاسکے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج وہ لوگ بھی انضمام کے خلاف بیانات دے رہے ہیں جو کل تک نعرہ لگاتے رہے کہ ''چترال سے بولان تک'' تمام قبائل ایک ہیں ۔ دہشت گردی کی جنگ اور سالہا سال سے محروم رکھے جانے کے باعث فاٹا کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے یہاں پر سابق انتظامیہ اور ملکان کی بدعنوانیوںاور زیادتیوں کی وجہ سے صحت ، تعلیم اور زندگی کے دیگر ا ہم شعبوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث قبائل غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی انتظامیہ فوری طور پر حرکت میں آکر فاٹا کے محروم علاقوں کی بحالی کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز کر دے تاکہ ان علاقوں کو صوبہ کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جاسکے۔ علاوہ ازیں اہم بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے صاحب حیثیت پختونوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبہ اور خصو صی طور پر قبائل کے حالات زندگی بہتر بنانے کے لئے یہاں پر سرمایہ کاری کریں تاکہ یہ پسماندہ صوبہ جو اب بہت بڑا صوبہ بن گیا ہے، ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

ضیاء اللہ آفریدی (سابق صوبائی وزیرورہنما پاکستان پیپلزپارٹی)

فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام ایک طویل جدوجہد کا نام ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ پاکستان پیپلزپارٹی کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی فاٹا پر بات ہو گی تو پاکستان پیپلزپارٹی کا نام ضرورت آئے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جدوجہد رنگ لے آئی ہے اور آخر کار فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ قبائلی عوام کو انکے حقوق دلوانے کیلئے ملک میں سب سے پہلے عملی جدوجہد کا آغاز ذو الفقار علی بھٹو نے1973 ء کا آئین بناتے وقت کیا تھا اور انکی جانب سے زرمک کالج کا قیام و دیگر عملی کوششیں تاریخ کا حصہ ہیں۔بعدازاں بے نظیر بھٹو نے چالیس ایف سی آر کے خلاف عدالت میں رٹ دائر کی۔ ان کے دور میں فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لئے عملی جدو جہد کی گئی اور پیپلز پارٹی کے سابق حکومت میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو فاٹا تک توسیع دے کر فاٹا انضمام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ یہ قبائلی عوام اور ملک بھر کے لئے انتہائی خوش آئند بات ہے کہ فاٹا اب خیبر پختونخوا کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور فاٹا کے عوام کو کرپٹ انتظامی نظام سے نجات ملے گی جو فاٹا میں تمام مسائل کی جڑ تھا۔اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ فاٹا کے انضمام سے صوبہ پر کوئی بوجھ پڑے گا بلکہ تمام سیاسی جماعتوںکی اب یہ ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کی ترقی کے لئے کام کریں اور عوام کی جانب سے بھی ان پر دباؤ ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس فیصلہ کی حمایت میں کھڑی ہو جائیں کیونکہ اس سے ہماری نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ فاٹا دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ یہاں پر تعلیم کا بندوبست نہیں ہے اور نہ کاروبار و ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں تاہم اب جبکہ فاٹا صوبہ کا حصہ بن گیا تویہاں پر نہ صر ف انتظامیہ اپنا سسٹم بنائے گی بلکہ صحت ،تعلیم و دیگر انفراسٹرکچر بھی بن جائے گا۔ اگر چہ ابتدائی طور پر مشکلات پیش آئیں گی تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ان مسائل پر قابو پالیا جائے گا۔ میں نے قومی مفاد کی خاطر سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتمام واپس لینے کا فیصلہ کیا ، پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی سربراہ آصف علی زرداری کی ہدایت پر میں نے تحریک عدم اعتماد واپس لی ہے تاکہ خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کا بل بھاری اکثریت سے پاس کیا جاسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں