انصاف فی الفور
عدلیہ نے جس طرح عدل کے کام کاآغاز کیاہے وہ لائق تحسین ہے۔
ہماری عدلیہ انصاف کی سر بلندی کے لیے آج جو کردار ادا کر رہی ہے اسے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ماضی میں ہم نے کتنی ناانصافیاں برداشت کی ہیں۔ سیاسی حکمرانوں کی ناانصافیاں، افسروں کی ناانصافیاں اور معاشرے کے بااثرافراد کی ناانصافیاں ۔ ہمیں یعنی عوام کو خاک بسر لوگوں کی ان زیادتیوں سے بچانے والا کوئی نہیں تھا۔
دو قانون تھے امیر کے لیے، غریب کے لیے ۔ لیکن ادھر کچھ عرصہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کی آمد سے یاکم و بیش اس عرصہ سے ان لوگوں کو بھی انصاف ملنا شروع ہو گیا ہے جو کبھی یہ کہا کرتے تھے کہ انصاف تو ہم غریب اور بے وسیلہ لوگوں کو کیا ملنا ہے مگرچلو زنجیر ہلاکر دیکھ ہی لیتے ہیں ۔ اب لگتاہے کہ قانون کی عملداری کا آغاز ہو چکا ہے اور بے وسیلہ لوگوں کے لیے یہ زنجیریںہتھکڑیوں کے بجائے عدل کی گھنٹیاں بجا رہی ہیں اور اس سے محسوس یو ں ہو رہا ہے کہ قانون سب کے لیے ایک ہی ہے خواہ وہ غریب اور بے وسیلہ ہو یا امیر اور باحیثیت۔
جب رپورٹنگ کا آغاز کیا تھا تو استاد کی نصیحت کے مطابق عدلیہ اور فوج کے بارے میں خاموش رہتا تھا جب کہ اسمبلیوںکی رپورٹنگ میں بھی نہایت احتیاط برتی جاتی کیونکہ سیاستدان اپنی کسی بھی بات سے مکر سکتے ہیں اور آپ ان کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتے ۔ تب سے اب تک ایک جھجک ہے، فوج نے تو بار بار مارشل لا لگاکر اور ملکی سیاست میں دخل در دخل دے کر یہ جھجک خود ہی دور کر دی ہے مگر عدلیہ کا معاملہ الگ ہی رہا اور توہین عدالت کا خوف ہر ایک پر لٹکتا رہا لیکن عدلیہ کی تعریف کرنے میں کوئی ڈر جھجک نہیں اور عدلیہ والے بادشاہ نہیں ہیں کہ بقول شیخ سعدی بادشاہ کبھی تعریف پر ناراض ہو جاتے ہیں اور کبھی دشنام طرازی پر انعام بخش دیتے ہیں ۔
میں تو یونہی ایک کم آمیز آدمی ہوں دوسرے عدلیہ اور ان سے منسلک وکلاء سے میں کیوں دوستی کی کوشش کروںگا۔ ماضی کی بات کی جائے تو عدلیہ تک رسائی کی میرے پاس کوئی صورت نہیں تھی اور وکلاء حضرات کی فیسوں کی گنجائش نہیں تھی اس لیے ان لوگوں سے دوستی کے کیا معنی اور یہ تو میں عرض کر ہی چکا ہوں کہ عدالتوں کے ذکر سے مجھے ڈر لگتا ہے ۔ چوہدری اعتزاز احسن جیسے میرے دو چار کرم فرما وکلاء جن کو میں کسی عام سے ڈسٹرکٹ کورٹ میں بھی کہوں تو چلے چلیں گے ۔ اس لیے مجھے اطمینان ہے کہ اول تو عدلیہ کے بارے میں لکھے گئے لفظ کسی توہین کے زمرے میں نہیں آئیں گے لیکن اگر سہواً کوئی غلطی ہو بھی گئی تو شائدمعافی کی گنجائش نکل آئے کیونکہ میرے وکیل بھی بہت اور کامیاب ہیں۔
عدلیہ نے جس طرح عدل کے کام کاآغاز کیاہے وہ لائق تحسین ہے، ان کے اقدامات سے حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کو نہیں عوام کو انصاف ملنے جا رہا ہے ۔ بڑے لوگوں کے ساتھ انصاف ہو گا تو اس کے اثرات عوام تک خود بخود پہنچ جائیں گے۔ عوامی ضروریات کی گرانی کے متعلق جناب چیف جسٹس نے جس طرح از خود نوٹس لیے ہیں اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کو عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے اور وہ ان معاملات کو قانون کے مطابق حل کرنے کے خواہاں ہیں ۔
آئے روزوہ کسی نہ کسی عوامی مسئلے کے متعلق عدالت لگائے بیٹھے ہوتے ہیں،خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کہیںتو کسی بے بس انسان کو پناہ مل سکتی ہے ۔ عدالت کسی مظلوم کا آخری سہارا ہوتی ہے، وہ اس سہارے تک اپنی ناداری کی وجہ سے نہ بھی پہنچ سکے تب بھی یہ تسلی زندہ رہنے کے لیے کافی ہے اگر وہاں تک کسی طرح پہنچ گئے تو پھر انصاف ضرور ملے گا ۔ کورٹ میں جج صاحبان انصاف کر رہے ہیں، میں کس کانام لوں اور کسے چھوڑ دوں ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ عہد کر لیا ہے کہ وہ انصاف اور عدل کو زندہ کردیں گے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں بھوک اور غلامی میںتو زندہ رہ سکتی ہیں مگر ظلم اور ناانصافی میں نہیں، ان کے دل مر جاتے ہیں ۔ اسی انصاف کو زندہ کرنے کے لیے معزز جج صاحب دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، غریبوں کے ساتھ امیر بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑے نظر آتے ہیں ،ان سے بھی پوچھ گچھ ہو رہی ہے اور انصاف ہوتا نظر آرہاہے۔ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ قومیں تباہ اس لیے ہوئیں کہ امیروں اور بڑے لوگوں کے لیے الگ قانون اور غریبوں اور چھوٹے لوگوں کے لیے الگ قانون تھا لیکن میں اس بڑے گھر انے کی عورت کو ضرور سزا دوں گا ۔
فاطمہؓ بھی ہوتی تواس کو بھی سزا ملتی ۔حضورﷺ کو اپنی صاحبزادی سے زیادہ عزیز کوئی دوسری چیز نہ تھی، وہ میکے تشریف لاتیں تو سرور کونینﷺ اپنی چارد بچھا دیتے تھے۔بڑے گھرانوں کے لوگ بھی اپنی صفائیاں دے رہے ہیں اور ان کا بھی حساب کتاب ہو رہا ہے، عوام اس کو بڑی بے یقینی کے ساتھ دیکھ رہے ہیںکیونکہ انھوں نے اس سے پہلے بڑے لوگوں کو کٹہرے میں کم ہی دیکھا ہے اور اب وہ ایک ایسا انصاف ہوتا دیکھ رہے ہیں جو سب کے لیے یکساں ہو گا ۔
عرض یہ کررہاہوں کہ مجھے اپنی عدلیہ کی طرف سے انصاف کی خوشگوار اور ٹھنڈی ہوا آرہی ہے ۔اللہ نہ کرے یہ ہوا بند ہو اوراس کی جگہ پھر حبس ہو جائے لیکن ایک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انصاف کو سستا کیا جائے اور نیچے کی ماتحت عدالتوں کی مناسب نگرانی بھی کی جائے اور وہاںانصاف کے عمل کو تیز بھی کیاجائے تا کہ یہ تاثر ختم ہو کہ دادا پردادا کے زمانے کے مقدمے ان کے پوتے پڑپوتے بھگت رہے ہیں۔ انصاف میں تاخیر انصاف نہ دینے کی ہوتی ہے ۔ چیف جسٹس صاحب یہ قوم فوری انصاف مانگتی ہے۔