ایک انسان کو ہی بچا لیجیے
ایک انسان کو بچانا ایک خاندان، ایک نسل کو بچانا ہے، کسی کو گناہ اور جرائم سے بچانا اس معاشرے کو بچانا ہے۔
ISLAMABAD:
یہ ستمبر 2008 کی بات ہے کہ جب قصبے سوکڑ تونسہ شریف کی نورو مائی فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے تحت ملنے والی امداد لینے علاقے کے پوسٹ آفس گئی ۔ غریب بیوہ عورت اپنے اور اپنے بچوں کے لیے آنے والی عید کچھ آسان کرنا چاہتی تھی۔ نورو مائی کو مگر سرکاری بابوؤں نے بتایا کہ فہرست میں اس کا نام نہیں ہے۔ ''ہائے ہماری قسمت''، نورومائی کے منہ سے نکلا۔ اسے دل کا دورہ پڑا اور وہیں اسی پوسٹ آفس میں جہاں فوڈ اسٹیمپ پروگرام کی لسٹ میں اس کا نام موجود نہیں تھا وہیں نورومائی مر گئی۔
کوئی احتجاج کیے بغیر، کسی کوکوئی بددعا دیے بغیر یہ دنیا چھوڑ گئی۔ ادھر عنبرین کو مرے بھی آج کوئی دس سال ہونے کو ہیں۔ عنبرین کچا قلعہ شاہ فیصل کالونی حیدر آباد کے رہائشی غازی خان کی 2 سالہ بیٹی تھی۔ نومبر 2008 میں عنبرین بیمار ہوگئی۔ عنبرین کا باپ غربت کے باعث عنبرین کا صحیح سے علاج نہیں کروا پایا اور نومبر 2008 کے آخر میں عنبرین دوا نہ ملنے پہ سول اسپتال حیدرآباد میں کسی سے کوئی شکایت کیے بنا خاموشی سے تکلیفوں سے بھری اس زندگی سے منہ موڑ گئی۔عنبرین کے باپ کے پاس مگر اپنی بچی کے کفن دفن کے پیسے نہ تھے چنانچہ مری ہوئی عنبرین کو اس کے باپ غازی خان نے تدفین کے لیے ایدھی سینٹر کے حوالے کردیا۔
2009 کے اوائل میں 22 سالہ انیس کا نکاح ہوا تاہم دو ماہ بعد طے شدہ رخصتی نہ ہوسکی۔ سسرال والوں کو جہیز میں 2 لاکھ روپے چاہیے تھے۔ انیس کے گھر والوں کے لیے یہ مطالبہ کبھی نہ سر ہونے والا کوہ ہمالیہ تھا۔ اسی سال ماہ جون میں کوٹ لکھپت لاہور میں 22 سال کی انیس نے چلتی ٹرین کے سامنے آکر خودکشی کرلی۔ کسی کو کوئی الزام دیے بنا انیس خاموشی سے مر گئی ۔ 19 ستمبر 2013 کے ایک عام سے دن گمنام سی زینت، فائزہ، نازیہ اور منیرہ نے میلسی لنک نہر میں کود کر جان دے دی ۔ موضع ہمبل والا، تحصیل کہروڑ پکا، ضلع لودھراں کا ایک غریب کسان بشیر پنور اپنی سات میں سے صرف دو بیٹیوں کی ہی شادیاں کر پایا تھا ۔ 25 سے 40 سال کی اس کی ان چار بیٹیوں نے خود کو مار کر اپنے باپ کا بوجھ ہلکا کر دیا۔
آج سے کوئی دس سال پہلے میں نے ایسی خبروں کی فائل بنانے کی کوشش کی مگر چند دن میں ہی ہمت جواب دے گئی۔ پانچ سال بعد پھر ایسی ہی کوشش کی مگر ہمت پھر ساتھ چھوڑ گئی۔ کوئی اپنا دل آخر کتنا سخت کرسکتا ہے؟ یہ تو دکھوں کی زمین ہے۔ ایسی تو یہاں روز کی خبریں ہیں۔ عام سی خبریں۔ نورومائی تو عام سی عورت تھی، اس نے اس ملک کے مال سے نہ تو برطانیہ میں محل خریدے تھے نہ سوئٹزر لینڈ میں بینک اکاؤنٹ کھلوائے تھے کہ یہ ملک اس کی تعظیم کرتا، شہروں اور ہوائی اڈوں کے نام اس کے نام پر رکھتا۔
دوا نہ ملنے پر مر جانے والی 2 سال کی عنبرین کی قبر کوئی ارب پتی کھرب پتی ہر دلعزیز ،ہرگام مقبول شریف خاندان کے پینتالیس چھیالیس سالہ ہونہار ارب پتی نونہال کی جے آئی ٹی کی لیک ہوجانے والی تصویر جیسی اہم تاریخی خبر تھوڑی تھی کہ جس پہ یہ میڈیا آسمان سر پہ اٹھا لیتا اور شریف خاندان کے فیملی کالم نگار و اینکر اس تصویر کے لیک ہونے کو مشرقی روایات کا جنازہ قرار دے کر سینہ کوبی کرتے۔ عنبرین جیسے بچے تو یہاں روز ہی مرتے ہیں۔
راجواڑے سندھ کے صحرا تھر میں دیکھ لیجیے جہاں ایک ایک ہفتے میں کتنے ہی بچے غذا اور دوا علاج کی کمی سے مر جاتے ہیں اور پٹواری لکھاری اینکر تھرکول میں ڈمپر چلانے والی چند عورتوں اور سندھ اور ملک کے تباہ حال قدرتی ماحول کو مزید برباد کردینے والے منصوبے کی گرد تلے حالیہ دس سالوں میں سندھ خصوصاً کراچی کی بے حساب لوٹ مار اور تباہی چھپا کر سندھ کو خیبر پختونخوا سے بہتر صوبہ بناکر پیش کرتے ہیں۔ جہیز اور شادی کے پیسے نہ ہونے پہ خودکشی کرنے والی لڑکیاں کیونکہ کسی میگا کرپٹ شخصیت کی بیٹیاں نہیں تھیں اس لیے یہ میڈیا انھیں صاحبزادیاں نہیں پکارے گا۔ یہ قوم کی جیسے بیٹیاں ہی نہیں تھیں کہ ان کے مر جانے پہ میڈیا پلٹ کر دیکھنے تک کی زحمت نہیں کرتا۔
مگر پروردگار عالم، رب ذوالجلال سب دیکھ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کئی کئی کروڑ کی گاڑیوں میں کشاں کشاں جاکر میگا کرپٹ حکمران خاندانوں کو دعائیں دینے والی سادہ منش درویش صفت دینی شخصیات نے میگا کرپٹ خاندانوں کی دل جوئی کو یہ نوید دے رکھی ہو کہ فلاں فلاں عبادت اور نیکی کے عوض ان کے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے، تمام حرام حلال ہوجائے گا، ان کی بدولت ہر روز نت نئے دکھ اور تکلیفیں جھیلنے والی خدا کی مخلوق کی خدا کے حضور فریادیں اور بددعائیں بے اثر ہوجائیں گی۔ مگر خدائے بزرگ و برتر نے تو صاف صاف بتا دیا ہے کہ وہ رتی برابر بھی حقوق العباد کے گناہ معاف نہیں کرتا جب تک جس جس کسی کے ساتھ جو جو زیادتی ہوئی ہو وہ دل سے بنا کسی جبر کے معاف نہ کردے۔ اس کے ہاں کوئی شاہ رخ جتوئی نہیں کوئی ریمنڈ ڈیوس نہیں، اس کے ہاں کوئی این آر او نہیں۔
نہ ختم ہونے والے ظلم اور دکھوں کی اس سرزمین پہ ہر روز ناحق جان سے گزر جانے والی ہر نورومائی، عنبرین، انیس، زینت، فائزہ، نازیہ، منیرہ خدا کے ہاں سب کا ہی حساب حکمرانوں، ان کے درباریوں، گماشتوں، پٹواریوں، حامیوں کو دینا ہوگا۔ وہاں نہ بااختیار سیاستدانوں کو ان کی پارٹیاں بچا پائیں گی نہ کوئی ادارہ۔ اور وہاں صرف حکمرانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام خوش حالوں کو بھی اس کا جواب دینا ہوگا کہ انھوں نے خدا کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرکے غربت کے ہاتھوں زندگی سے تنگ، روز جیتے روز مرتے انسانوں کا بھلا کیوں نہ کیا؟
خداوند کریم شاید ہم سے یہ نہ پوچھے کہ ہم نے دوسرا، تیسرا، ساتواں، آٹھواں عمرہ کیوں نہ کیا؟ ایک درجن سے کم عمرے کیوں کیے؟ افطار پارٹیاں اور زیادہ کیوں نہ دیں؟ فلاں فلاں درویش کی خدمت میں نئی لینڈ کروزر کیوں نہیں پیش کی؟ اگلی سات نسلوں کے لیے کتنا مال بنایا؟ مگر خدا یہ ضرور پوچھے گا کہ میری مخلوق میرا کنبہ ہے۔
میرے کنبے کے غریبوں، بے کسوں، مجبوروں کی تم نے میری عطا کی ہوئی طاقت اور دولت سے مدد کیوں نہ کی؟ خدا غربت و بے کسی کے ہاتھوں ہونے والے تمام گناہ، تمام جرائم کا ہم میں سے ہر اس شخص کو بھی ذمے دار ٹھہرائے گا جس نے مال و طاقت رکھنے کے باوجود خدا کی مخلوق کی مدد کرکے اسے ان حرام کاموں سے بچایا نہیں۔ تو پھر آپ بچا لیجیے جہاں جب بھی ممکن ہو کسی ایک انسان کو ہی بچا لیجیے۔ چند لاکھ روپے کسی کو اپنا روزگار خود پیدا کرنے کے لیے دے دیجیے،کسی کو کسی مشکل سے نکالنے کے لیے ہی دے دیجیے، اپنے ملازموں کی تنخواہیں جتنی ممکن ہو بڑھا دیجیے، یہ بھی ممکن نہیں تو جس طرح بھی جتنی بھی ہوسکے کسی کی مدد کر دیجیے۔ ایک انسان کو بچانا ایک خاندان، ایک نسل کو بچانا ہے، کسی کو گناہ اور جرائم سے بچانا اس معاشرے کو بچانا ہے۔
ارشاد نبویؐ ہے ''شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی خلق ہے اور ایمان کے بعد افضل ترین نیکی خلق خدا کو آرام دینا ہے۔'' اب اور کچھ کہنے کو رہ جاتا ہے؟