گرمی کا کچھ تدارک یوں بھی
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے کہیں اچھے نتائج آ رہے ہیں تو کہیں خطرے کے سگنل بج رہے ہیں۔
پچھلے چند برسوں سے ماحول میں تبدیلی آرہی ہے ، یعنی گرمیوں کے مہینے طویل اور سخت ہوتے جا رہے ہیں اور سردیوں کے مہینے مختصر اور شامیں گلابی کی حد تک رہ گئی ہیں ، پاکستان میں ہیٹ اسٹروک کے حوالے سے گرمیوں کا موسم خاصا خطرناک ثابت ہوا ہے پچھلے چند برسوں میں گرمی سے پیدا ہونے والے امراض کا نشانہ بننے والے افراد کی تعداد تین ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔
اس برس بھی حال کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے گو لوگوں میں اس کے بارے میں آگاہی ہوچکی ہے اور اپنے آپ کو شدید گرمی سے بچانے کے طریقے اختیار بھی کیے جا رہے ہیں پھر بھی خاموشی اور آہستگی سے سرائیت کرتی اس گرمی نے ابھی کے چند دنوں میں بھی خاصے لوگوں کو نگل لیا۔
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے کہیں اچھے نتائج آ رہے ہیں تو کہیں خطرے کے سگنل بج رہے ہیں جیسے حال ہی میں گزرنے والے موسم سرما میں ریاض جیسے گرم شہر میں لوگوں نے برف باری کے مزے اڑائے۔ سائنسدان اس کلائمیٹ چینج کو کلائمیٹ ڈیزاسٹر بھی کہتے ہیں جس میں زمین پر درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے گرمی بڑھ رہی ہے اور زندگی کا ایک متوازن نظام متاثر ہو رہا ہے اس درجہ حرارت کے بڑھنے سے قطب شمالی اور قطب جنوبی میں پہاڑوں کے اوپر برف کے بڑے بڑے گلیشئرز بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
اس طرح ان کے پگھلنے سے میٹھے پانی کے یہ قدرتی اسٹورز ضایع ہوکر سمندر میں گر رہے ہیں ایک طرف آبادی کے لیے ایسے پانی کی زیادتی ان کی تباہی کا باعث ہوسکتا ہے تو دوسری جانب پینے کے پانی کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں ۔
پاکستان میں خاص کرکراچی میں پانی کے مسائل جن کی مانند کھڑے ہیں ،گرمیوں میں پانی کی قدروقیمت کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے لیکن افسوس ہمارے ہاں مسائل سنبھالنے کے بجائے اس قدر بڑھا دیے جاتے ہیں کہ پھر وہ اختیار سے نکل کر بے اختیاروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، اب یہ بے اختیار کس طرح ان قدرتی وسائل کو صارفین تک پہنچاتے ہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن اس وقت اہم بات پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی کی ہے کہ اس سے انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔
یہ بات درست ہے کہ درخت ماحولیاتی تبدیلی میں ستون کی مانند کھڑے رہتے ہیں یہ فضائی آلودگی کو جذب کرتے ہیں اور بارشوں اور طوفانوں میں انسان کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ قدرتی طور پر ہریالی کو دیکھنے سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور تراوٹ کا احساس ہوتا ہے یہ درخت بھی پانی کے طلب گار ہیں خوش قسمتی سے پاکستان ایک ایسے خطے پر واقع ہے جہاں نیم، پیپل، چیڑ، شیشم، شاہ بلوط، صنوبر، دیودار، ساگوان کے علاوہ مختلف پھلوں کے پیڑ آسانی سے اگ سکتے ہیں ہمارے ہاں گھروں میں بھی لوگوں میں باغبانی کا شوق پایا جاتا ہے ان درختوں اور پودوں سے ماحول میں خوبصورتی، فضا میں توانائی اور خوشبو کے علاوہ انسانی فطرت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
چند برسوں سے تعمیرات کے بڑھاؤ اور ترقی کے نام پر بے شمار درختوں کوکاٹا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جنگلات برائے نام ہی رہ گئے ہیں چھانگا مانگا کے جنگلات کے نام سے ذہن میں جو تصور ابھرتا ہے اگر اس کی اصل تصویر دیکھ لی جائے تو دل افسردہ ہوجاتا ہے کیونکہ ان جنگلات میں درختوں کے ساتھ آبادی نے اپنا گھیرا بڑھا دیا ہے اب چھانگا مانگا جنگلات کے حوالے سے نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے پہچانا جاتا ہے۔
بات ہو رہی تھی درختوں کی اہمیت اور گرمی کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی کہ جسے ہم محض قدرتی آفات کہہ کر اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ حضرت آدم کی نسل سے تعلق رکھنے کے واسطے رب العزت نے ہمیں ذہین ذہن سے بھی نوازا ہے ہم اس قدرتی آفت سے بچاؤ کے لیے درخت اگا کر ان کی مناسب دیکھ بھال کرکے اپنے تئیں شکریہ تو ادا کرسکتے ہیں کوشش تو کرسکتے ہیں لیکن بات پھر وہیں آکر رک جاتی ہے کہ ہمارے یہاں مسائل کو اس قدر بڑھالیا جاتا ہے کہ وہ اختیار سے باہر ہوجاتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر بھی اس کا بڑا چرچہ ہے کہ جس میں کونوکارپس نامی پودے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے یہ پودے 2008 میں شہر کو ہرا بھرا کرنے کی مہم کے سلسلے میں لگائے گئے تھے۔
کونو کارپس نامی پودے کے بارے میں بھی بات ہوگی پہلے یہ بات واضح کردینی ضروری ہے کہ درخت بھی جاندار ہیں اور انھیں بھی پھلنے پھولنے کے لیے مناسب پانی کی ضرورت ہے بلکہ ایک نئی تحقیق نے تو درختوں پودوں پر پیار محبت اور غم و غصے اور طعنہ زنی جیسے خالص انسانی جذبات بھی آزما کر دیکھ لیے کہ پیار محبت نہ صرف انسانوں اور جانوروں کے لیے مثبت ہتھیار ہیں بلکہ درخت اور پودے بھی اسی صف میں کھڑے ہیں، ایک جوان براسیکا کا پودا اس طرح اور اس قدر مقدار میں پانی لیتا ہے کہ اگر انسان اس طرح پانی پیے تو ہمیں ہر ایک گھنٹے میں تین گیلن پانی زندہ رہنے کے لیے درکار ہوگا۔
کونوکارپس دوسرے پاکستانی پودوں کے مقابلے میں انتہائی سستے دام تھے یہ جلد بڑھتے ہیں اور انھیں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی دراصل اس کی جڑیں خودبخود تیزی سے بڑھتی ہیں اور پانی کو جذب کرلیتی ہیں ۔نارتھ امریکا سے درآمد کیے اس پودے کو لگاتے ہوئے یقینا کم بجٹ اور کم پانی کا ہی سوچا گیا ہوگا لیکن اگر اس پودے کے متعلق ریسرچ کرلی جاتی تو زیادہ اچھا رہتا۔
کویت کے سائنسی ریسرچ ادارے (KISR) کی ایک محقق ڈاکٹر ہانی الزلزالا کا کہنا ہے کہ کونوکارپس کی جڑیں عمودی طور پر پانی کی تلاش میں بڑھتی ہیں اور یہ مٹی کی نمی کو جذب کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جڑوں کی سختی اس قدر ہوتی ہے کہ یہ سخت اشیا میں بھی آسانی سے داخل ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے بڑے بڑے سوراخ، لوہے کی پانی کی پائپ لائنیں بھی متاثر ہوتی ہیں اور یہ کنکریٹ کے انفرااسٹرکچر کو بھی متاثر کرتی ہیں ان درختوں کو اگانے کے سلسلے میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ یہ آبادی سے خاصے دور اور ایسے علاقوں میں اگائے جائیں جہاں ماحول میں رطوبت کی زیادتی اور زیادہ بارشوں سے دلدلی میدان وجود میں آتے ہیں۔ کونو کارپس درخت ماحول کے لیے اس صورت میں بھی سازگار ہوتے ہیں کہ یہ درجہ حرارت کو متوازن رکھنے، فوٹو سینتھیسس (Photosynthesis) کو بہتر کرنے اور شور کی آلودگی کے علاوہ دھول کو بھی روکنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
ان تمام خصوصیات کے ساتھ ان نقصانات کو بھی دیکھتے ہوئے عراق میں اور 2014 میں کویت میں بھی ان پودوں کو شہری علاقوں میں اگانے میں پابندی کا سامنا ہے صرف یہی نہیں بلکہ دبئی میں بھی ان درختوں کو ان کے جلد پھلنے پھولنے اور کم پانی استعمال کرنے کے باوجود اگانے سے احتراز برتا جا رہا ہے بلکہ 2011 میں ان تمام بڑے بڑے تعمیراتی پراجیکٹ جن میں یہی درخت ہرے بھرے لہلہاتے تھے سختی سے کاٹنے کے احکامات صادر کردیے گئے تھے ان بڑے بڑے پروجیکٹ جن میں اریبین رینچز، دی گرینز، دی اسپارلکر، دی میڈوز اور امیریٹس ہلز وغیرہ شامل ہیں کہا جا رہا ہے کہ ان کے رہائشیوں کے بجلی اور پانی کے بلز میں پانچ ہزار درہم سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور جب اس کی وجہ تلاش کی گئی تو وجہ خوبصورتی اور سبزے میں اضافہ کرتے کونوکارپس درختوں کی جڑیں نکلیں جنھوں نے پانی اور سیوریج کی لائنوں کو تباہ کردیا یہاں تک کہ بہت سی دیواریں بھی انھی جڑوں کی آغوش میں دم توڑ گئیں۔
ہم پاکستانی سونے کو بہت انجوائے کرتے ہیں اگر دبئی والے ان درختوں کو نہ کاٹتے تو ہمیں بھی ہوش نہ آتا اور ہم صرف کیوں۔۔۔۔ آخر کیوں کرتے رہتے بہرحال اس کیوں کا جواب بھی نظر آ ہی گیا ہے تو خدارا اپنے پیارے دیس کا پیارے پیارے پودوں اور درختوں کو اگانے کا نظام پھر سے شروع کریں کہ نیم کے خوبصورت چھاؤں والے ٹھنڈے درخت لہلہاتے ہوئے ہمیں آواز دے رہے ہیں۔