ہماری نیکیاں اور اخراجات
ہمارے گھروں میں تو انواع و اقسام کے پکوان کھائے جارہے ہوں ہمسایہ کے گھر میں فاقے ہوں
ماہ رمضان اپنی تمام تر برکتوں اور رحمتوںکے ساتھ گزر رہاہے ۔ مسلمانان اسلام اس مہینے کی برکتوں اور رحمتوں سے جی بھر کرمستفید ہوتے ہیں، عبادت بھی کرتے ہیں اور اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ و خیرات اور زکواۃ بھی ادا کرتے ہیں، صدقہ خیرات وہ اپنی ذاتی حیثیت میں گناہوں کی بخشش کے لیے کرتے ہیں جب کہ زکواۃ ان پر فرض ہے جس کی ادائیگی سے مال پاک ہوتا ہے اور ارشاد ہے کہ زکواۃ دینے سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے ۔
یہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا اپنی مخلوق پر خاص کرم ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے اپنی مخلوق کو اپنی نوازشوں سے نوازتا رہتا ہے لیکن انسان اس کے باوجود ناشکرا ہے، وہ شکر صرف اچھائی کا کرتا ہے جب کہ مشکل وقت میںوہ اپنے رب سے گلہ کرتانظر آتا ہے کہ اس پر یہ مشکل وقت آیا ہی کیوں حالانکہ اس میں بھی میرے رب کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مشکلات میں آزماتا ہے لیکن ہمارے ایمان اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ ہم مشکل میں بھی اس کا شکر ادا کر نے کے بجائے شکوہ کناں رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم پر رحم کرے۔
رمضان کی آمد کے ساتھ ہی جہاں پر ہمارے مسلمان بھائی اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے سامان خوردو نوش میں اضافہ اپنا ایمان سمجھتے ہیں اسی طرح صاحب حیثیت لوگ رمضان شریف کی برکتیں سمیٹنے عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ و مدینہ روانہ ہو جاتے ہیں ۔ ان دنوں سعودی عرب جانے والی ائر لائنوں میں سیٹ نہیں ملتی ۔ عمرہ ادا کرنے کا رواج ضیاالحق کے زمانے سے عام ہوا ۔ عمرہ جو کسی مسلمان پر فرض نہیں بلکہ ایک نفلی عبادت ہے جس کی روز قیامت باز پرس نہیں ہوگی جب کہ حج بھی ایک بار فرض ہے اور اس کی فرضیت کی بھی چند شرائط ہیں جن میں شرط اول اخراجات کی توفیق ہے۔ ان دنوں عمرہ کی ادائیگی پر ایک لاکھ سے زائد کے اخرجات ہوتے ہیں ۔
اب ایک سوال ہے کہ کیا کسی پاکستانی کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے ملک کے لوگ افلاس سے تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہوں، قابل علاج مریض ڈاکٹر اور دوا میسر نہ آنے کے باعث موت کے منہ میں جارہے ہوں ۔ غربت افلاس کا دوردورہ ہو ۔ افراد افراد کے اور ملک دوسرے ملکوں کے قرضوں تلے دبا ہو کیا ایسے ملک کے افراد کو خدا اور رسول کے نام پر کسی مہنگی نفلی عبادت کی اخلاقاً اور شرعاً اجازت دی جا سکتی ہے ۔
اس ملک میں کوئی عالم دین یہ فتوی دینے کی جرات نہیں کر سکتا کہ ایسے مفلس اور مقروض ملک کے شہریوں کو عمرے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ سب سے زیادہ عمرے اس ملک کا حکمران طبقہ کرتا ہے اور ہمارے علماء اسلامی تعلیمات کے جوہر اور خلفائے راشدین کے عہد کی اصل روح سے بے خبر نہ بھی ہوں تب بھی وہ بوجوہ اس کا اقرار کرنے اور اس کو مثال بنا کر کسی کسی فتوے اور حکم پر تیار نہیں ہیں صرف میرے اور آپ جیسا کوئی غیر عالم غیرسیاسی اور غیر مفاداتی مسلمان ہی یہ فتویٰ دے سکتا ہے کہ جو حالت پاکستان کی ہے اگر کسی ملک کی یہ حالت ہو تواس کے شہریوں اور خصوصاً حکمرانوں کے لیے عمرے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اگر کوئی اس کے باوجود عمرہ ادا کرے گا تو تعزیرات پاکستان کے تحت وہ شخص سزا کا مستحق ہوگا ۔ جرمانہ اور قید با مشقت دونوں سزاؤں کا۔
میں ایک بار عمرے پر گیا اورواپسی پر اپنے کالم میں اس کا ذکر کر دیا، الحمدللہ کہ اس قوم کی عقل سلامت اور اس میں عقل سلیم اور فطرت سلیم کے مالک لوگ موجود ہیں، مجھے ایسے خطوط موصول ہوئے کہ جن میں میری اس فضول خرچی کا ذکر تھا کہ تم نے اتنی بیواؤں ، اتنے یتیموں، اتنی کنواریوں، اتنے مریضوں اور اتنے دوسرے مستحقین کا حق مارا ہے۔یہ رقم تمہیں ان میں سے کسی مستحق کی خدمت میں پیش کر دینی چاہیے تھی ۔ یہ میں اس وقت کی بات کر رہاہوں جب ابھی غربت و افلاس کی وجہ سے خودکشیاں شروع نہیں ہوئیں تھیں اور لوگ دو قت کی روٹی کھا کر سوتے تھے، اب تو شرم کے مارے کسی سے اس کا ذکر نہیں کرسکتے کیونکہ ہر روزاخباروں میں خود کشیوں کا ذکر ہوتا ہے اور ساتھ ہی پتھر دل حکمرانوں کے شاہی اخرجات کا بھی۔ اس عمرے کے بعد مجھے تو مزید عمرے کی جرات نہیں ہوئی البتہ ایک حج جو مجھ پر فرض تھا وہ ادا کر چکا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ پوری قوم مقروض ہے اور کیا کسی مقروض پر حج فرض ہے اس پر علماء کو غور کرنا چاہیے۔
بہر حال عوام کی بات تو ہوتی رہتی ہے، ان میں سے کتنے ہیں جن کے پاس پاکستان کے اندر سفر کرنے کے وسائل ہیں کجا کہ وہ عمرے کا خواب دیکھیں بات تو ان کی ہے جو اعلانیہ عمرے کرتے ہیں، اس حال میں کہ ان کے پیچھے وطن عزیز میں خود کشی کرنے والوں کی لاشیں لٹک رہی ہوتی ہیں اور فاقہ زدہ لوگوں کی ہڈیاں چٹخ رہی ہوتی ہیں۔ عمرے کے اخراجات کے حساب کتاب میں پڑے بغیر یہی رجعت پسندانہ مولویانہ اور دقیا نوسی سوچ یہ کہتی ہے کہ آج کے پاکستان کے حکمران اور امیر طبقہ کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ عمرہ وغیرہ تو دور کی بات دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی کھا لے خواہ اس کی ذاتی دولت کتنی بھی کیوںنہ ہو کیونکہ ایک مسلمان حکمران خصوصاً شرعاً پابند ہے کہ اپنی زندگی ایک عام شہری کی طرح رکھے ۔
سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے وفات کے موقع پر اپنی وصیت میں فرمایا تھا کہ مجھے میرے انھی پرانے کپڑوں میں دفن کرنا کہ نئے کپڑے تو زندہ لوگوں کے لیے ہوتے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ طبقے کی جراتوں اور جسارتوں کا یہ عالم ہے کہ مخلوق خدا کے مصائب اور آلام سے بے نیاز ہو کر وہ خدا اور اس کے رسول پاکﷺ کے حضور حاضر ہو جاتے ہیں۔ اللہ کی کتاب کی تعلیمات سے یہ قطعاً نا آشنا اور بے بہرہ لوگ ان درباروں میں حاضر ہونے کی ہمت اور حوصلہ کرتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی واردات کر کے تھانے میں حاضر ہوجائے۔
ہمارے گھروں میں تو انواع و اقسام کے پکوان کھائے جارہے ہوں ہمسایہ کے گھر میں فاقے ہوں اور ہم اس سے بے خبر بھی ہوں تو اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا ۔ خدا کی قسم ہم لوگ بالکل بھی نہیں بخشے جائیں گے، ہمیں اپنے ارد گرد نظر رکھنی ہو گی ۔ دکھاوے اور نمائشی عبادات کو ترک کر کے حقیقی ضرورت مندوں تک پہنچنا ہو گا اسی میں ہماری بخشش ہے اور ہمارا رب بڑا رحمان اور رحیم ہے لیکن اس کی رحمت محدود ہے اور حقدار کے لیے ہے۔ یہ ہمارا کام ہے بلکہ فرض ہے کہ ہم عمرہ کے اخراجات سوچ سمجھ کر کریں اور اللہ تعالیٰ سے ان کا اجر طلب کریںیہ سوچ کر کہ یہ وہ عدالت ہے جو ہمہ گیر انصاف کرتی ہے کسی سفارش کے بغیر۔ اللہ ہم مسلمانوں پر رحم کرے کہ جو سوچے سمجھے بغیر خرچ کرتے ہیں ۔ ہم آج کے مسلمان سابقہ مسلمانوں کے عمل کو دیکھ لیں کہ وہ ایسے اخراجات کب کرتے تھے۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہمارے صدقات کو قبول کرے۔