پیپلز پارٹی مسلم لیگ حکومتوں کا انجام
امریکا میں کانگریس نے پاکستان کے لیے کیری لوگر بل منظور کیا، پاکستان نے اس بل پر تنقید کی
مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی معیاد مکمل کرکے رخصت ہورہی ہے۔ اب عبوری حکومت قائم ہوگئی اور الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق 25 جولائی کو انتخابات ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف کی مدد سے وفاقی حکومت قائم کی۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن، خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومتیںقائم کیں۔ آصف زرداری نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پریس کانفرنس میں افغان صدر حامد کرزئی کو مدعو کیا اور اعلان کیا کہ بھارت اور پاکستان کے سرحدی علاقے میں صنعتی زون قائم کیے جائیں گے۔ اس اعلان کے کچھ دنوں بعد ممبئی میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا۔
صدر زرداری نے پہلی دفعہ غیر ریاستی اداکار (Non State Actors) کی اصطلاح استعمال کی۔ وزیر داخلہ رحمن ملک اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل محمود درانی نے تصدیق کی کہ بمبئی واقعے میں غیر ریاستی اداکار ملوث ہیں۔ صدر زرداری نے جسٹس افتخار چوہدری کو بحال نہ کرنے کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی رکن سلمان تاثیر کوپنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا۔ میاں نواز شریف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنما اور وکلاء تحریک کے قائد بیرسٹر اعتزاز احسن کے ساتھ لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ صدر کی ہدایت پر گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کو توڑ دیا۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں جلوس لاہور سے روانہ ہوا۔ ابھی جلوس گوجرانوالہ تک ہی پہنچا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی نے میاں نواز شریف کو ٹیلیفون کرکے اطلاع دی کہ وزیراعظم نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کی پنجاب کی حکومت بھی بحال ہوگئی۔
امریکا میں کانگریس نے پاکستان کے لیے کیری لوگر بل منظور کیا، پاکستان نے اس بل پر تنقید کی۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس کے بعد جوڈیشل ایکٹوازم کی ایک نئی تاریخ شروع کی۔ میاں نواز شریف کے قریبی معاونین ہفتے میں دو دفعہ وفاقی حکومت کے معاہدوں، ٹھیکوں، تقرریوں اور دیگر فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضداشتیں داخل کرتے اور فوراً ان عرضداشتوں کی سماعت شروع ہوجاتی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فیصلوںکو غیر قانونی قرار دے دیا جاتا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سابق صدر پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے قومی مصالحتی آرڈیننس (N.R.O) کے بارے میں فیصلہ دیا کہ اگر پارلیمنٹ اس این آر او کی توثیق کردے تو یہ قانون بن جائے گا۔ مسلم لیگ ن ہمیشہ سے این آر او کی مخالف تھی۔ ایم کیو ایم وفاق اور سندھ میںپیپلز پارٹی کی اتحادی تھی۔ ایم کیو ایم کے لاتعداد کارکنوں کے خلاف این آر او کے تحت فوجداری مقدمات واپس لیے گئے تھے۔ میاں نواز شریف میمو اسکینڈل کو سپریم کورٹ لے گئے مگر اس مقدمہ میں امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی قربانی کام آئی اور آصف زرداری بال بال بچ گئے۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر اپنے صدر آصف زرداری کے خلاف تحقیقات کے لیے سوئٹزرلینڈ کے حکام کو خط تحریر نہ کرنے پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں تا برخاست عدالت کی سزا دی۔ آصف زرداری نے پرویز اشرف کو نیا وزیراعظم بنایا مگر پھر پیپلز پارٹی کی حکومت کی رٹ ختم ہوگئی۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت کی اور ریٹرننگ افسروں کو نئی ہدایات دیں جس کی بناء پر آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے عجیب و غریب استعمال سامنے آئے۔ 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف، سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ ن اور بلوچستان میں میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کی قیادت میں حکومتیں قائم ہوئیں۔ میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا کہ وہ بھارت سے دوستانہ تعلقات قائم کرلیں گے۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے دہلی گئے اور اپنی نواسی کی شادی میں شرکت کی دعوت دی۔ مارچ 2013 سے کنٹرول لائن پر صورتحال خراب ہونا شروع ہوگئی تھی۔ میاں نواز شریف نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی بھارت اور پاکستان کی سرحد پر صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے۔ انھوں نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے، اسلام آباد میں میٹرو بس اور لاہور میں اورنج ٹرین کے منصوبوں کو اہمیت دی۔
تحریک انصاف کو 2013 کے انتخابات پر تحفظات تھے۔ عمران خان نے 4 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔ لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے دفتر پر پولیس فائرنگ میں 12 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ حکومت نے اس معاملے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنا، وہ عدالت میں پیش ہوئے بغیر باہر چلے گئے۔ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کو منسوخ کرانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ علامہ طاہر القادری نے اس دھرنے کی حمایت کی۔ یوںاسلام آباد کا گھیراؤ ہوا جو کئی ماہ رہا۔ تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنا، میاں نواز شریف کے قریبی دوستوں نے الزام لگایا کہ ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے اس دھرنے کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔(دھرنا رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس کے مطابق آئی ایس آئی کا کوئی کردارنہ تھا)
رینجرز نے سندھ میں بڑے پیمانے پر کارروائی کی۔ کئی صوبائی سیکریٹریوں اور اعلیٰ افسروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات میں تحقیقات شروع ہوئی۔ زرداری کے معاون ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے۔ ایک ماڈل گرل ایان علی کرنسی اسمگلنگ میں اسلام آباد ایئرپورٹ پر گرفتار ہوئی۔ زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی اور صوبائی وزیر شرجیل میمن سمیت کئی بڑے افسر ملک سے فرار ہو کر متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکا چلے گئے۔ آصف زرداری نے ایک پریس کانفرنس میں دھمکی دی کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور میاں نواز شریف سے ملاقات کی استدعا کی۔ میاں صاحب نے زرداری سے ملاقات نہیں کی اور آصف زرداری ملک سے چلے گئے۔ زرداری نے ملک سے رخصت ہوتے ہوئے یاد دلایا کہ عمران خان کے دھرنے میں میاں صاحب کی حکومت بچانے میں پیپلز پارٹی نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
عمران خان کے دھرنے کے خاتمے سے قبل پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا۔ چاروں صوبوں میں ایپکس کمیٹیاں قائم ہوئیں جن میں وزیراعلیٰ کے علاوہ کور کمانڈر، ایجنسیوں کے افسران اور پولیس افسر شامل ہوئے، یوں محسوس ہونے لگا کہ نواز شریف حکومت کی رٹ محدود ہورہی ہے۔ جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران محسوس ہونے لگا کہ مسلم لیگ حکومت بے اثر ہورہی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین الزام لگانے لگے کہ نامعلوم افراد کے ٹیلیفون مل رہے ہیں۔ پھر سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا اور خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ مگر چوہدری نثار حکومت میں شامل نہ ہوئے۔
اگرچہ میاں نواز شریف کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے جلسوں میں خوب پذیرائی ملی، ان کی صاحبزادی مریم نواز ایک بہادر رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں اور مسلم لیگ نے لاہور اور لودھراں سمیت تمام ضمنی انتخابات جیت لیے، مگر پھر بلوچستان میں اچانک تبدیلی آئی۔ بلوچستان اسمبلی کے مسلم لیگی اراکین نے وزیراعلیٰ ثناء اﷲ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ وزیراعظم خاقان عباسی خود کوئٹہ گئے مگر زہری حکومت کو نہیں بچا پائے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل ایکٹوازم کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ انھوں نے اسپتالوں کے دورے کیے، سرکاری اداروں کے سربراہوں اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو ہٹایا اور ہر صوبے کی صحت کے شعبے میں کارکردگی کی رپورٹیں طلب کیں۔
مسلم لیگ ن سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب ہار گئی، یوں خاقان عباسی حکومت کی وہی حالت ہوئی جو گیلانی کے ہٹنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کی ہوئی تھی۔ 2010 پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت صدر کا 58(2)B کا اسمبلیاں توڑنے کا اختیار ختم ہوا۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ (Deep state) نے اس شق کو قبول نہیں کیا ، یوں دونوں حکومتیں کچھ عرصے بعد بے اثر ہوگئیں۔ میاں نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں لیاقت علی خان سے بے نظیر بھٹو کی روحوں سے سوال کے حوالے سے اس صورتحال کا تذکرہ کیا ہے۔ کیا 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایسی حکومت قائم ہوگی جو اپنی معیاد کے خاتمے تک بااختیار رہے گی؟