سیاسی پرندوں کی اڑانیں
2011ء تک لاہور میں عمران خان کے کامیاب جلسے تک ان موسمی پرندوں کے دو ہی بڑے ٹھکانے تھے
ملک میں عام انتخابات سے قبل سیاسی پرندوں کی اڑانیں اورگھونسلے تبدیل کرنا ہمیشہ کا معمول رہا ہے اور طویل سیاسی رفاقتیں بھی سیاسی مفادات کے لیے ختم کر دی جاتی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سیاسی وفاداری کو تبدیل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا موسم اس بار کچھ عرصے پہلے تبدیل ہو گیا تھا جس کی اہم وجہ ماضی کے مقابلے میں ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہونا ہے۔
2008ء کے انتخابات سے قبل ملک میں صرف سرکاری طور پر نیب کی مدد سے بنائی گئی مسلم لیگ (ق) ہر طرف چھائی ہوئی تھی جس کی وجہ مسلم لیگ (ق) کے موجد کا صدر مملکت ہی نہیں بلکہ افواج پاکستان کا سربراہ ہونا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملک کے دو بڑے سیاسی رہنماؤں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو ملک سے جلا وطن کر کے ان کی پارٹیوں سے سیاسی پرندے توڑ کر مسلم لیگ (ق) کے پنجرے میں جمع کر کے ایک مضبوط حکومت قائم کی ہوئی تھی اور قوی امید تھی کہ 2008ء کے انتخابات مسلم لیگ (ق) آسانی سے جیت جائے گی اور وردی کے بعد بغیر وردی کے بھی پرویز مشرف تیسری بار بھی صدر منتخب ہو جاتے اور ایسا ممکن بھی نظر آ رہا تھا۔
اپنے سربراہوں سے محروم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بڑے بڑے نام مسلم لیگ (ق) کے افق پر چمک رہے تھے اور 2007ء میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا مگر مفادات کی سوچ رکھنے والے سیاسی پرندے جنرل پرویز مشرف کے لگائے گئے درخت مسلم لیگ (ق) کو ہی محفوظ ٹھکانہ سمجھے بیٹھے تھے اور سیاسی طور پر مطمئن تھے کہ انھیں جنرل پرویز کے وردی اتارنے کے بعد بھی کہیں اور جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی کیونکہ مسلم لیگ (ق) کے مقابلے کے لیے کوئی اور جماعت نظر نہیں آ رہی تھی اور دونوں اہم رہنما ملک سے باہر مگر ان کی پارٹیاں ملک میں موجود تھیں۔ انتخابی سرگرمیاں عروج پر تھیں کہ بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف کی وطن واپسی بھی صدر پرویز مشرف کی مجبوری بنا دی گئی تھی وگرنہ وہ ملک کی سیاست سے دونوں رہنماؤں کا کردار ختم کرنے کا عزم کر چکے تھے اور چاہتے تھے کہ دونوں انتخابات سے قبل ملک واپس نہ آئیں تا کہ (ق) لیگ بھاری اکثریت سے جیت جائے۔
اس وقت بھی (ق) لیگ میں آنے والوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں اور بہت کم لوگ مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور ان پارٹیوں سے مخلص رہنما دھونس، دھمکی اور لالچ کے باوجود اپنی پارٹیوں کے ساتھ کھڑے تھے اور بعض دور اندیش آنے والی ہواؤں کے باعث آزادانہ طور الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ 27 دسمبر کو راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں جن کی ہمدردی میں عوام اور سیاسی مزاج تبدیل ہونا شروع ہوا جس کے بعد کایا پلٹ گئی اور ہمدردی کے ووٹ نے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں سب سے زیادہ اور مسلم لیگ (ن) کو دوسری بڑی پارٹی منتخب کرا دیا اور کنگ پارٹی بھی ووٹوں میں نمایاں رہی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔
انتخابی نتائج نے وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو موقعہ دے دیا اور جس طرح لوگ پی پی اور (ن) لیگ چھوڑ کر مسلم لیگ(ق) میں گئے تھے وہ واپس آنے لگے کیونکہ (ق) لیگ کا اقتدار ختم ہونے سے پرویز مشرف کی صدارت کمزور ہوئی اور وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رحم و کرم پر آ گئے اور آخر مستعفی ہو کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور مسلم لیگ (ق) موسمی پرندوں سے خالی ہوتی گئی۔ مسلم لیگ (ق) کے 5 سالہ دور میں ملک میں ترقی بھی ہوئی تھی۔ پنجاب میں کافی کام ہوئے اور ان کے مفاد پرستوں نے بھرپور مالی اور سیاسی فائدے بھی اٹھائے مگر ان کی کارکردگی بے نظیر بھٹوکی شہادت نے تباہ کر دی تھی جس کے بعد (ق) لیگ سے آنے والے برسر اقتدار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں چھاتے گئے مگر دونوں پارٹیوں کے سربراہوں نے یہ نہ سوچا کہ یہ وہی موسمی پرندے ہیں جو برے وقت میں پی پی اور (ن) لیگ کو چھوڑ گئے تھے اور (ق) لیگ کے درختوں پر جابسے تھے۔
2011ء تک لاہور میں عمران خان کے کامیاب جلسے تک ان موسمی پرندوں کے دو ہی بڑے ٹھکانے تھے۔ پیپلز پارٹی اپنی ناقص کارکردگی اور خاص کر ملک کو اندھیروں میں ڈبونے کے باعث عوامی مقبولیت کھوتی گئی اور موسمی پرندوں نے انتخابات کے موقعے پر مسلم لیگ (ن) میں واپس آنا شروع کیا اور جو (ن) لیگ سے مایوس تھے وہ عوامی مقبولیت دیکھتے ہوئے تحریک انصاف میں شامل ہوئے کیونکہ پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے فائدے اٹھانے کے بعد موسمی پرندوں کو نیا آشیانہ میسر آ گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے بھی چھ سات سال میں ان سب موسمی پرندوں کو قبول کر لیا جن کے وہ سخت خلاف تھے اور اب دونوں سابق حکمران جماعتوں کے نامور نام پی ٹی آئی کے درختوں پر چہک رہے ہیں۔
اقتدار کے لیے نواز شریف نے (ق) لیگ والوں کو اپنا لیا تھا جن کو شامل نہ کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔ آصف زرداری تو عمران خان اور نواز شریف سے مختلف نکلے اور انھوں نے (ق) لیگ میں جانے والے اپنوں ہی نہیں بلکہ غیروں کے لیے بھی باہیں پھیلائے رکھیں۔ (ن) لیگ اور پی پی کو اقتدار سے دور دیکھ کر سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کی بڑی تعداد اب پی ٹی آئی میں شامل ہو رہی ہے اور عمران خان بھی اب نواز شریف اور آصف زرداری کی طرح حصول اقتدار کے لیے ہر موسمی پرندے کو قبول کر رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنا عمران، زرداری اور نواز شریف ہی کی نہیں بلکہ سیاسی موسمی پرندوں کی بھی مجبوری اور ضرورت ہے۔