دوسرا راجہ رنجیت سنگھ
راجہ رنجیت سنگھ کے بعد میاں شہباز شریف کا پنجاب پر حکمرانی کا دور طویل ترین ہے۔
آج جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں ہماری موجودہ حکومت اپنے پانچ سالہ اقتدار کا آخری دن جوں توں گزار کر رخصت ہونے والی ہے بلکہ آج کی شام سورج غروب ہونے کے ساتھ حکومت کا سورج بھی غروب ہو جائے گا اورچند ماہ کے لیے ہی سہی نئی عارضی حکومت کل سے اقتدار سنبھال لے گی اور عام الیکشن کے انعقادکی ذمے داری ادا کرنے کے بعد نئی منتخب ہونے والی حکومت کو اقتدار سونپ کر رخصت ہو جائے گی۔
اس عارضی حکومت کے بارے میں بھی مختلف حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ شائد نگران حکومت کا عرصہ اقتدار طویل ہو جائے اور اس کے ذمے کچھ ایسے اہم کام اور امور اس کو سونپ دیئے جائیں جن کی ادائیگی کے بعد عام الیکشن ہوں لیکن جس طرح کے ملکی اور بین الاقوامی حالات ہیں ان میں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ ہم دنیا کے ایک ایسے خطے میں موجود ہیں جہاں پر دنیا کی بڑی طاقتوں کے براہ راست مفادات وابستہ ہیں اور پاکستان موجودہ زمانے میں اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کی باگ ڈور کسی عارضی حکومت کے ہاتھ میں ہو اس لیے بہتر یہ ہے کہ نگران حکومت اپنی الیکشن کے انعقاد کی بنیادی اور آئینی ذمے داری پوری کر کے رخصت ہوجائے اور نئی آنے والی حکومت پاکستان کے مستقبل کی ذمے دار بن جائے ۔
نواز لیگ کے بھر پور اورپر شور اقتدار کا سورج آج غروب ہو جائے گا اور نیا الیکشن اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ ملک میں آیندہ حکمرانی کس کی ہو گی ۔ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی وفاقی حکومت میں پانچ سالہ دور اقتدارکے بعد جب کہ ان کے برادر خورد میاںشہباز شریف دس سالہ اقتدار کے بعد پنجاب کی حکمرانی سے الگ ہو رہے ہیں ۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے اقتدار میں عوام اور ملک کے لیے کیا خدمات سر انجام دیں اس کا فیصلہ آنے والے الیکشن میں ہو جائے گا ۔ میاں نواز شریف طویل جلا وطنی اور اقتدار سے دوری کے بعد دو ہزار تیرہ میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تو وہ ایک بدلے ہوئے نواز شریف تھے۔
ان کا اس نواز شریف سے کوئی تعلق نہ تھا جو کہ جلا وطنی سے پہلے کا نواز شریف تھا شائد طویل جلا وطنی کی وجہ سے وہ مقتدر قوتوں سے ناراض تھے اوراس ناراضگی کو انھوں نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد آشکار کرنا مناسب سمجھا جس سے پاکستانی عوام میں ان کا تاثر ایک ناراض حکمران کے طور پر ابھرا۔میاں صاحب اتنے سخت کیوں ہو گئے اور کسی قسم کی لچک دکھانے کو تیار نہیں اس کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔
میاں صاحب نے پہلے دور اقتدار میں فوج کے مطالبے پر استعفیٰ دیا تھا اور اس غلطی کا احساس ان کو بعد میں ہوا جب ان کے بہی خواہوں نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا، اسی طرح دوسری دفعہ بھی میاں صاحب فوج کے ہاتھوں اقتدار سے رخصت ہوئے بلکہ جان بچا کر سعودی عرب روانہ یا بھاگ گئے، دونوں ادوار میں وہ فوج کے ہاتھوں رخصت ہونے پر مجبورہوئے اس میں ان کی اپنی کوتاہیاں بھی شامل ہیں وہ عوام کو ایک اچھی حکمرانی دینے سے قاصر رہے اس لیے عوامی سطح پر بھی ان کی اقتدار سے علیحدگی کے بارے میں کوئی احتجاج دیکھنے سننے میں نہ آیا حتیٰ کہ لاہوریئے بھی اپنے وزیر اعظم کی رخصتی پرخاموش رہے ۔
تیسری دفعہ میاں صاحب جب اقتدار میں آئے تو یہ بات بڑی واضح تھی کہ وہ دو دفعہ چوٹ کھا کر اقتدار سے علیحدہ ہو چکے ہیں اس لیے وہ اب حکمرانی میں تدبر سے کام لیں گے اور تمام اداروں کے ساتھ مل جل کرکام چلائیں گے لیکن انھوں نے وہی کیا جو ان کے اپنے دماغ میں تھا چنانچہ حالات خراب ہوتے چلے گئے، پہلے دھرنے ہوئے اور بعد میں پاناما کے نام پر اقامہ نے ان کا دھڑن تختہ کر دیا ۔ یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ میاں صاحب اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے خود ہی اپنے اقتدار کے دشمن ہو گئے اور بالآخر اقتدار گنوا بیٹھے ۔
وہ اس ملک کے خوش قسمت ترین انسان ہیں جو کہ بغیر کسی رکاوٹ کے اقتدار کے اعلیٰ ایوان تک پہنچ گئے یا پہنچا دیے گئے اور تین دفعہ اس ملک کے وزیر اعظم بھی بنے لیکن وہ ایک مضبوط اور اچھے حکمران کا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے ۔ قطع نظر اس بات کے کہ ان کی حکومتیں رخصت کی جاتی رہیں لیکن جتنا عرصہ وہ حکومت چلاتے رہے وہ عرصہ بھی بطور حکمران عوام کے لیے اچھا نہ رہا ۔
پنجاب پر تو ان کی پارٹی بلکہ ان کا خاندان ایک طویل عرصے سے حکمرانی کر رہا ہے، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ راجہ رنجیت سنگھ کے بعد میاں شہباز شریف کا پنجاب پر حکمرانی کا دور طویل ترین ہے لیکن اتنی طویل حکمرانی اور شہباز شریف کی گڈ گورننس کے باوجود پنجاب کے حالات بھی بدلے نہیں ہاں ان میں اگرکسی حد تک تبدیلی آئی تووہ صرف لاہور تک محدود رہی یا پھر چند ایک اور منصوبوں تک ۔ لیکن جتنا طویل عرصہ حکمرانی رہی اس میں پنجاب کو پاکستان کا ایک خوشحال اور ماڈل صوبہ بن جانا چاہیے تھا جو کہ بدقسمتی سے نہ بن سکا اور پنجابیوں کے حالات بھی نہ بدل سکے ۔
اس کے لیے میاں شہباز شریف اپنے علاوہ کسی اور کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ وہ عوام کے بنیادی مسائل سے آگاہ ہیں لیکن وہ بھی ان کے مکمل حل میں ناکام رہے اور بنیادی مسائل کے بجائے نمائشی منصوبوں پر رقم زیادہ خرچ ہو گئی اور فلاحی منصوبے پس منظر میں چلے گئے۔ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی نسبت ایک پر سکون حکومت گزار کر جا رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی جمہوری حکومت پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے، وہ جمہور کے نمایندہ تھے جن کے مسائل کو حل کرنا اور انھیں مطمئن کرنا ان کی ذمے داری اور فرض تھا لیکن عوام کے لاتعداد اور المناک مسائل کا کتا ابھی تک کنویں میں ہی جوں کا توں پڑا ہوا ہے ۔
بہر حال میاں صاحبان نے پاکستان پر اپنے اقتدار کا ڈنکا بجایا اور اب جب ان کی حکومت رخصت ہو رہی ہے تو ان کے سیاسی مخالفین ابھی ان کی سیاست سے خوفزدہ نظر آتے ہیں لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ قوم بھی اپنے حکمرانوں کے ساتھ حساب کتاب برابر کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے جس سے اللہ کے پاک کلام کی آیت یاد آتی ہے کہ ''ہم لوگوں میں دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں''۔