گرگٹ رنگ بدلتا ہے
پاکستان میں چند لوگوں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہیں جب کہ دوسری جانب کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میںگرگٹ کی طرح رنگ بدلے بغیر عوام کو سبز باغ نہیں دکھائے جا سکتے ۔ بڑی پارٹیاں، بڑا باغ اور چھوٹی پارٹیاں، چھوٹا باغ دیکھاتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں پی ٹی آئی نے اپنا انتخابی منشور پیش کیا ہے، جس میں انھوں نے نوے لاکھ یعنی تقریبا ایک کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ دنیا میں سب سے مضبوط معیشت کہلانے وا لا ملک جر منی ہے۔ جہاں تیس لا کھ کی بیروزگاری تھی ۔
دوسری بار اقتدار میں آ نے سے قبل چانسلر اینجلا مرکل نے کہا تھا کہ ہم بے روزگاری کم کریں گے، جب کہ یہ بے روزگاری بڑھ کر پچاس لاکھ تک ہوگئی اور مارکل اینجلز نے جلسے میں دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا کہ''میں بے روزگاری میں کمی نہیں کر پائی اور اب تو یہ بے روزگاری ساٹھ لاکھ تک آچکی ہے۔ جاپان کی تیرہ کروڑکی آ بادی میں پانچ فیصد بے روزگار ہیں ، اس حساب سے پینسٹھ لاکھ بے روزگار ہیں، یہ اعدادوشمارکئی برس پہلے کے ہیں۔
ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک اگر بے روزگاری میں کمی نہیں لا پا رہے ہیں تو پاکستان میں کوئی بھی اس نظام میں رہتے ہوئے کیونکر بے روزگاری میں کمی لاسکتے ہیں ۔ جہاں تک تمام لوگوں کو صاف پانی مہیا کرنے کی بات توکی جاسکتی ہے لیکن آئی ایم ایف کا قرضہ جات ضبط کیے بغیر اور دفاعی اخراجات میں کمی کے ممکن نہیں ۔ بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مل کارخانوں کا جال بچھانا ہوگا ۔ مسلم لیگ ن کے میٹرو بس، اورنج ٹرین، موٹر وے اور ماڈل ٹاؤن، اسکول یا اسپتال قائم کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے ۔
یہ سب کام ضرورکریں مگر سب سے پہلے مزدوروں کو حق یونین سازی ، بے زمین کسانوں میں زمین کی تقسیم، سب کو صاف پانی مہیا کرنے اور روزگار دینے کے بعد یہ سب کچھ اچھا لگتا ہے۔ آج غیر ملکی قرضے ریکارڈ اکانوے ارب چھہتر کروڑ ڈالر ہوگیا ہے۔ ان قرضوں کو اتارتے اتارتے ہمارا ملک بک جائے گا بلکہ بک چکا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی وہی سب کچھ کر رہی ہے جو دوسری بڑی پارٹیاں کر رہی ہیں۔ لوگ پانی کو ترس رہے ہیں تو دوسری طرف لاڑکانہ کا نوے ارب روپے کا بجٹ کا پتہ نہیں چلا کہ کہاں خرچ ہوا ۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں جب آصف علی زرداری وفاقی وزیر تھے تو انھوں نے بیان دیا تھا کہ ہم کراچی سے گوادر تک ناریل کے درخت لگا کر پاکستان کو سر سبزوشاداب کردیں گے مگر آج تک کوئی درخت نظر نہیں آیا ۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی نے بھی اپنے اپنے مخصوص کارڈز استعمال کرنے کی تگ ودو میں لگی ہوئی ہیں۔
ایم ایم اے کی پختون خوا میں حکومت رہی ، وہ عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر تنقید کرتے تھے اور جب حکومت ملی تو اے ڈی پی سے فورا قرضے حاصل کیے۔ چاروں صوبوں میں مختلف پارٹیوں کی حکومتیں ہیں ، ہر جگہ عوام بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، لا علاجی ، بے گھری اور بھوک سے بلبلا رہے ہیں اور حکومتیں اعلان کرتی پھر رہی ہیں کہ ہم عوام کے لیے بہت کچھ کیا۔
پاکستان میں چند لوگوں کے پاس لاکھوں ایکڑ زمین ہیں جب کہ دوسری جانب کروڑوں کسان بے زمین ہیں۔ ان زمینوں کو اگر بے زمین کسانوں میں بانٹ دیا جائے توکسانوں میں بے روزگاری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے، اگر زراعت کے شعبے کو حکومت قومی ملکیت میں لے لے اورکسانوں کی خودکارکمیٹیاں بنا کر زراعت کو فروغ دے تو عوام کو سستا اجناس مل سکتا ہے اور کسانوں کو بھی مناسب دام مل سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اسپغول کسانوں سے 8000 ہزار رو پے فی من خریدا جاتا ہے جب کہ عوام کو 51200 روپے میں بیچا جاتا ہے۔ گنا عدالتی فیصلوں کے تحت180روپے میں کسانوں سے خریدنے تھے جب کہ مل مالکان نے90 روپے فی من خریدے اور مل مالکان عوام کو 52روپے فی کلو چینی فروخت کر رہے ہیں۔
یہی صورتحال سبزیوں کی ہے۔ منڈی میں سبزیاں اکثر15رو پے سے 30 رو پے کلو بکتی ہیں جو بازار،گلی کوچوں میں 80 روپے سے 120 رو پے تک فروخت ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسانوں کوکم پیسے ملتے ہیں اور عوام کو بھی لوٹا جاتا ہے، اگر ان تمام پیداوارکو حکومت اپنی تحویل میں لے کر اس کی تجارت کو قومی ملکیت کی بنیاد پر چلایا جائے توکسان اور عوام دونوں میں خوشحالی آئے گی ورنہ مڈل مین کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بنتا جائے گا اورکسان وعوام مفلسی اورغربت کے شکار ہوتے جائیں گے۔
شہروں کی مل فیکٹریوں میں بھی یہی حال ہے۔ مثال کے طور پر ایک آلو کے چیپس پر ایک روپیہ خرچ آتا ہے اور سرمایہ دار اسے دس رو پے میں بیچتا ہے ۔جوکپڑا 10رو پے گزکی لاگت پر بنتا ہے وہی کپڑا 200 روپے گز میں فروخت کیا جاتا ہے۔ایک مو چی لی مارکیٹ کراچی میں ایک جوڑی پشاوری چپل300رو پے میں بنا کر بیچتا ہے جس میں اسے بمشکل 100رو پے کی بچت ہوتی ہے اور بازار میں 1000روپے فی جوڑی ملتی ہے۔
حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی آٹھ گھنٹے کام کرنے کی ماہانہ تنخواہ 16000 روپے ہوگی جب کہ 90فیصد مزدوروں کو 8ہزار وپے سے 12ہزار روپے تک ہی ملتی ہے۔ صدر پاکستان کی تنخواہ8 لاکھ 50 ہزار 551 روپے ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ کی تنخواہ 8 لاکھ 50ہزار 550 روپے ہے ۔ اس کے مقابلے میں ایک چپراسی، پیون، اردلی اور سپاہی کی تنخواہیں 20 سے 30 ہزار روپے سے زیادہ نہ ہوگی ۔ تنخواہوں کا فرق ایک اور پانچ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
تیل کا کاروبار کرنے والے اربوں روپے کماتے ہیں جب کہ پیٹرول پمپ پرکام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ 24گھنٹے کام کرنے پرکہیں ماہانہ 8 اورکہیں 15000روپے ملتے ہیں ۔فائیواسٹار ہوٹلوں کے مالکان اربوں رو پے کماتے ہیں جب کہ ویٹرز اور چوکیداروں کو آٹھ ہزار روپے سے 15ہزار رو پے تک تنخواہیں ملتی ہیں ۔ چوکیداروں کے تو آدھے پیسے ٹھیکیدار ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ یہ سب طبقاتی نظام کی برائیاں نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا نا گزیر نتیجہ ہے ۔ ان مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی نظام کے قیام میں مضمر ہے ۔