لاپتہ افراد کا انسانی مسئلہ

ان کے ہمدرد اس خراب موسم میں بھی سڑکوں پر نعرے لگاتے، بھوک ہڑتال کرنے اور ہر تکلیف برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔


Dr Tauseef Ahmed Khan June 02, 2018
[email protected]

ریاست اور غیر ریاستی کرداروں کے شہریوں کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینا چاہئے۔انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک آئینی خود مختار کمیشن کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم کا عہد کرنا چاہئے۔

سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمات میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے کردار کو مایوس کن قرار دیا ہے ۔صرف سندھ ہائی کورٹ میں 100کے قریب لاپتہ افراد کے لواحقین کی عرضداشتوں پر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی عدم دلچسپی سے معزز عدالت کے ججوں کو مایوسی کا رویہ اختیار کرنا پڑگیا ہے۔

پورے سندھ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تحریک زوروں پر ہے، اگرچہ پورا سندھ گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ رمضان شریف کا مہینہ ہے مگر لاپتہ افراد کے لواحقین کی زندگیوں سے چین ختم ہوچکا ہے۔ بیٹیاں، بیٹے، بیویاں، بہنیں، بھائی اور ان کے ہمدرد اس خراب موسم میں بھی سڑکوں پر نعرے لگاتے، بھوک ہڑتال کرنے اور ہر تکلیف برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔ خفیہ پولیس اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار بھی اس گرمی اور روزے میں ان احتجاجی لوگوں کی نگرانی پر مجبور ہیں ۔

20 مئی کو اندرون سندھ سے آنے والے لاپتہ افراد کے خاندان والوں نے کراچی پریس کلب کی دیوار سے متصل فٹ پاتھ پر کیمپ لگایا تھا۔ بائیں بازو کی جماعتوں کے سیاسی کارکن اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کارکن بھی اس موقع پر جمع تھے۔ سب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔ اس موقع پر کچھ کارکن گرفتار بھی ہوئے مگر اگلے دن یہ لوگ اپنے گھروں کو پہنچ گئے تھے۔

حیدرآباد کے دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں نے پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا اور جلوس نکالا۔ اس احتجاج کو منظم کرنے والے کارکنوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سندھ کے تمام شہروں میں اس طرح کے احتجاج منظم کیے جائیں گے۔ گزشتہ کئی برسوں سے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اسی طرح کے احتجاج کرچکے ہیں۔ اگرچہ اب ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے مگر ان کے رہنما اب بھی اپنے کارکنوں کی بازیابی کی دہائی دیتے ہیں جو کئی برسوں سے لاپتہ ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ان لاپتہ افراد میں سے کچھ کی لاشیں دو سال پہلے تک ملی تھیں اور بہت سے کارکن اچانک اپنے گھروں کو پہنچ گئے مگر اب مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند ہوچکا، مگر لاپتہ افراد کی مکمل بازیابی کا مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچنا ہے۔ بلوچ کارکن تو اس صدی کے آغاز سے ہی اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک چلاتے رہے ہیں۔

اب بھی کراچی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچ خواتین اور مرد اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ڈبل کیبن سیاہ گاڑیاں خوف کی علامت بن گئی تھیں۔ ان گاڑیوں میں نامعلوم افراد آتے جن کے چہرے ڈھکے ہوتے۔ یہ مسلح افراد گھروں، بازاروں اور تعلیمی اداروں اور دفاتر سے سیاسی کارکنوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔

لواحقین پولیس اسٹیشن والوں سے پوچھتے ہیں مگر وہ مکمل طور پر عدم تعلقی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بلوچستان میں دیگر صوبوں سے برسوں سے آباد ہونے والے اساتذہ، صحافیوں، وکلاء، خواتین، پولیس افسران، ڈاکٹروں، دکانداروں اور حتیٰ کہ حجاموں کو ٹارگیٹ کیا جانے لگا تو لاپتہ ہونے والے افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر ان افراد کی ٹارگٹ کلنگ رکی تو مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ رک گیا۔ مگر سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔

نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد قبائلی علاقوں اور پختون خواہ میں خاص طور پر مختلف پس منظر رکھنے والے افراد کو اغواء کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ القاعدہ اور طالبان شوریٰ سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کو ملک سے اغواء کرکے امریکا کی کیوبا کے جزیرے کی جیل میں پہنچا دیا گیا۔ قبائلی علاقوں اور پختون خواہ میں آپریشن ضرب عضب کے بعد حالات بہتر ہوئے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی مگر قبائلی علاقوں خاص طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں عام شہریوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔ فوج نے سوات میں آپریشن کر کے ملا فضل اللہ کے جنگجوؤں کو مار بھگایا۔ سوات کی رونقیں بحال ہوگئیں مگر لاپتہ ہونے کے معاملات جاری رہے۔

چند ماہ قبل کراچی میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود ماورائے عدالت قتل ہوا۔ نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے پختون نوجوانوں میں ایک تحریک پھوٹ پڑی۔ یہ تحریک کراچی سے چلی اور قبائلی علاقوں تک جا پہنچی۔ اس تحریک کا ایک بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا اور یہ سلسلہ ختم کیا جائے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کی بازیابی پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ جسٹس چوہدری کی مسلسل توجہ سے کچھ افراد کو معزز چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا گیا تھا جو موت کے انتہائی نزدیک تھے۔ وکلاء نے معزز عدالت کو بتایا تھا کہ کچھ لاپتہ افراد کیمپوں میں ہیں، کچھ اپنے گھروں پر چلے گئے ہیں اور کچھ کے بارے میں کہا گیاتھا کہ ملک میں موجود نہیں۔ شاید افغانستان میں جہادی کیمپوں میں موجود ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ کے سابق جج اور نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج اور قانونی پیچیدگیوں کے ماہر جسٹس غوث محمد اور کے پی کے سابق آئی جی کو اس کمیشن میں شامل کیا گیا۔ اس کمیشن نے کئی مقدمات میں داد رسی کا فریضہ انجام دیا۔ پھر لاپتہ افراد کے مسئلے کی گونج انسانی حقوق کے بین الاقوامی فورمز پر گونجنے لگی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجا۔یہ آصف زرداری کی صدارت کا دور تھا۔ صدر ، وزیر اعظم، وزیر قانون سمیت وفاق اور صوبے کے کسی نمائندے نے اس کمیشن کے اراکین کو ملاقات کا شرف نہیں بخشا مگر کمیشن کے اراکین نے چاروں صوبوں میں جا کر متاثرین کی شہادتیں جمع کیں، یوں ملک میں انسانی حقوق کے بارے میں رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بنی ۔

جب جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پاکستانی مندوب بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر آواز اٹھاتے ہیں، بھارتی مندوب اس رپورٹ کا حوالہ دینے لگتے ہیں۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو کئی مری اور بگٹی قبائل کے لاپتہ افراد گھروں کو پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے مگر پھر ایسا محسوس ہونے لگا کہ گیلانی حکومت اس معاملے میں بے بس نظر آرہی ہے۔

جب 2013ء میں نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو این پی کے صدر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے خاصے متحرک نظر آئے۔ سینیٹر حاصل بزنجو نے ایک وقت یہ اعلان بھی کیا کہ اب سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں نہیں ملیں گی۔ اس دوران بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے صدر لاپتہ ہوئے۔بی ایس او کے ایک کارکن نے اپنے صدر کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے کئی ماہ تک بھوک ہڑتال کی۔ ڈاکٹر مالک خود پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ میں آئے مگر وہ نوجوان سے بھوک ہڑتال ختم کرانے کی اپیل کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ دے سکے۔ سندھ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران بہت سے قوم پرست کارکن لاپتہ ہوئے۔ ان میں کچھ کارکنوں نے اپنی رہائی کے بعد قوم پرست سیاست سے لاتعلقی اور مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت کا اعلان کیا۔

معروف صحافی، فلسفی اور انسانی حقوق تحریک کے رہنما آئی اے رحمن کا کہنا ہے کہ جسٹس جاوید کمیشن بے اثر ہوچکا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کا مؤقف ہے کہ ریاستی اور غیر ریاستی کرداروں کا شہریوں کو لاپتہ کرنے کا عمل انسانی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کے تحت فوجداری جرم قرار دیا جائے۔ کراچی میں سندھ کے وزیر داخلہ نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیمپ کا دورہ کیا اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی، سندھ اسمبلی میں سینئر وزیر نثار کھوڑو نے بھی اس بات کا اعادہ کیا۔ ملک میں انتخابی عمل شروع ہوچکا۔ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور تیار کررہے ہیں۔ یہی کام دیگر سیاسی جماعتیں بھی کررہی ہیں۔ بلاول بھٹو کو خاص طور پر شہریوں کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم اور اس مسئلے کے تدارک کے لیے آئین میں ایک خود مختار کمیشن کے لیے ترمیم کو اپنے منشور میں شامل کرنا چاہئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں