زندگی پانی میں ہے
درخت ہوں گے تو بارشیں بھی ہوں گی اور یہ بارشیں زرعی پاکستان کیلیے سانس کی حیثیت رکھتی ہیں۔
گرد آلود اوراُڑتی مٹی سے اٹے ہوئے چہروں والے میرے گاؤں کے لوگ جب بھی ملاقات کے لیے لاہور آتے ہیں تو ان کا حلیہ ہی یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ میرے علاقے اور گاؤں میں آج کل موسم کی کیا صورتحال ہے کیونکہ لاہور میں بیٹھ کر گاؤں کے موسم کا حال معلوم کرنا اب بہت ہی آسان ہو گیا ہے اور جب چاہا موبائل فون اٹھایا اور بات شروع کر دی اور تازہ ترین معلومات مل گئیں بلکہ بعض اوقات تو وڈیو اور تصویریں بھی موصول ہو جاتی ہیں اور میں جو کہ قدامت پسند اور ماضی سے جڑا ہوا ہوں اس سب کو آسانی سے ہضم نہیں کر پاتا بلکہ مجھے تو وہ طریقہ ہی نہیں آتا کہ موبائل سے یہ سب کیسے سنتے اوردیکھتے ہیں کیونکہ کبھی کوشش ہی نہیں کی یہ سب کچھ سیکھنے کی اور گھر میں موجود بچے ہی سب کچھ دکھا دیتے ہیں ۔
میرے قارئین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مجھے اپنے آبائی علاقے سے کس قدر انس ہے اور یہ انس اور رومانیت ہی ہے جس کے تحت میں لاہور میں بیٹھ کر بھی یہ اندازہ کر سکتا ہوں کہ میرے گاؤں کے لوگ آج کل کیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔موسم کی تبدیلی ہر انسان اور دنیا میں موجود اللہ تعالیٰ کی پیدا کی گئی مخلوق پر اثر انداز ہوتی ہے،کسی پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور کسی پر کم لیکن متاثر سب ہی ہوتے ہیں اس لیے مجھے اپنے علاقے کے لوگوں کے چہرے ہی بتا دیتے ہیں کہ آج کل وادی سون میں کیا موسم ہے ۔ اب کی بار بھی رمضان کریم کی آمد کے ساتھ ہی موسم بھی تبدیل ہوا اور یہ تبدیلی روزہ داروں سمیت سب کے لیے مشکل ہے کیونکہ شدید گرمی میں روزہ دار کے لیے روزہ واقعی ایک امتحان ہے جس میں اس کو اس کے رب نے پاس کرنا ہے کیونکہ روزہ اور روزے دار کا براہ راست تعلق اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے اور اسی نے ہی اس کا اجر دینا ہے۔یہی اس کا واضح فرمان ہے۔
میں کئی دفعہ اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ زرعی پاکستان ایک خشک اور بنجر پاکستان کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن بد قسمتی سے اس اہم ترین مسئلہ کو کوئی اجاگر کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی حکومت اس کی ذمے داری لینے کو تیار ہے۔ میرے اخبار نویس دوستوں کو جب سیاستدانوں سے فرصت ملے گی تو وہ کسی ملکی مسئلے کی جانب بھی توجہ دیں گے اور سیاستدان تو پیدا ہی جھوٹ بولنے کے لیے ہوتے ہیں عوام کو چند ماہ بے وقوف بنایا ووٹ حاصل کئے اور چلتے بنے ۔ وہ ملکی مسائل حل کرنے کے لیے وقت دینے کو ضیاع سمجھتے ہیں اور ہم اخبار نویس کبھی کبھار اگر کسی مسئلے کی نشاندہی کر ہی لیں تو ہم پر سو طرح کے الزامات لگ جاتے ہیں ۔
بارانی علاقے کا رہنا والا ہی پانی کی اصل قدرو قیمت سے آگاہ ہوتا ہے اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پانی انسانی زندگی کے علاوہ ملکی ترقی کے لیے بھی کس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ پانی کے سہارے ہی ملک کی زراعت چلتی ہے اور زراعت کے سہارے ملک۔ اس لیے ایک عرصے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگلی جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی کیونکہ پانی کی قلت ہماری قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے میں اس سے پہلے بھی پانی کے ذخائر کے متعلق عرض کر چکا ہوں کہ یہ مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔
چند روز پہلے عزیزم حامد میر نے اپنے پروگرام میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تمام ماہرین اس بات پر تو متفق تھے کہ اگلے پانچ سے سات سالوں میں پانی کی شدید ترین قلت ہو گی لیکن جب ایک صاحب نے کالا باغ ڈیم کی بات کی تو پروگرام کے میزبان نے یہ کہہ کر اسے خاموش کرا دیا کہ یہ ایک متروک منصوبہ ہے اور اس پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے ۔
یہ بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ ہمارے سیاستدانوں نے صرف اور صرف اپنی سیاست کی خاطر پاکستان کے سب سے بہترین آبی ذخیرے کو متنارعہ بنا دیا ہے جس کی افادیت سے ایک دنیا متفق ہے اور کئی عالمی ادارے اس کی فنی اور مالی معاونت کے لیے تیاربھی ہیں لیکن ہم لوگ ملکی بقا کے اس اہم منصوبے کے بارے میں خود تیار نہیں اور بات کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس منصوبے کا جو بھی مخالف ہے، اس کی محدود سوچ پاکستان کو آگے لے جانے کی بجائے ایک ایسی سمت کو دھکیل رہی ہے جس جانب گڑھے ہی گڑھے ہیں اور ہم جانتے بوجھتے بھی ان میں گرتے چلے جارہے ہیں ۔
دینا بھر میں موسم تبدیل ہو رہے ہیں پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ملکوں میں شامل ہے قدرتی طور پر بارشوں میں کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی میں خطرناک حد تک کمی اور پانی کا لیول مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے جو کہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے لیکن اس گھنٹی کو بجانے اور اس کی آواز سننے کو کوئی تیار نہیں ۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب ملک کے آبی ماہرین مزید بحث مباحثوں کی بجائے عملی اقدامات کے لیے اپنی خدمات وقف کر دیں کیونکہ کوئی بھی ڈیم راتوں رات تو تیار نہیں ہوجاتا اس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے اس لیے اگر یہ منصوبے آج شروع ہوں گے تو شایداگلے دس برسوں میں اس کے ثمرات سے قوم مستفید ہوگی لیکن یہ سب کچھ تب ہی ہو گا جب ایک قومی سوچ اور جذبے کے تحت یہ کام آج ہی شروع کر دیاجائے گا۔
سنتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں جناب عمران خان کی سابقہ حکومت نے ایک ارب پودے لگائے ہیں جن کے بارے میں اپوزیشن واویلا مچاتی رہی کہ یہ سب جھوٹ ہے اور اتنے درخت نہیں لگائے جا سکتے لیکن اس اپوزیشن نے یہ بات کبھی نہیں بتائی انھوں نے اپنے اپنے صوبوں میں کتنے پودے لگائے یا شجرکاری کے لیے کبھی کوئی کوشش بھی کی کہ نہیں۔ عمران کے ایک ارب پودوں کا اگر ایک چوتھائی بھی بڑا ہو کر درخت بن جائے تو یہ ماحول اور پاکستان کے کم ہوتے جنگلات کے لیے ایک نعمت ہو گی۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ دوسرے صوبوں میں بھی خیبر پختونخواہ کی طرح شجر کاری کی تقلید کی جاتی لیکن اس کی بجائے درخت کاٹے گئے اور لاہور میں سڑکوں کی کشادگی کے نام پر جس بے رحمی سے درختوں کا قتل عام کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ لاہور کی مال روڈ ابھی تک ان کی دست برد سے محفوظ ہے اس لیے جیسے ہی گاڑی مال روڈ پر داخل ہوتی ہے موسم بدل جاتا ہے۔ گزشتہ برس لاہور میں دھند کی ایک نئی مغربی زبان کی اصطلاح ''سموگ'' متعارف کرائی گئی اس کے بارے میں جب پوچھا گیا تو پتا چلا کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے بارشیں کم ہو گئی ہیں اورفضا میںدھوئیں کے بادل بن گئے ہیں جس کی وجہ سے کئی نئی بیماریوں نے جنم لیا۔
درخت ہوں گے تو بارشیں بھی ہوں گی اور یہ بارشیں زرعی پاکستان کیلیے سانس کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس سانس کی بحالی کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت سب سے پہلے شجر کاری اور آبی مسئلے کی طرف توجہ دے، اب باتوں کا وقت گزر گیا خدا کے لیے اس ہرے بھرے ملک کے لیے کچھ کر جائیں۔ ہم تو اپنی عمر گزار ہی چکے جتنی سانسیں باقی ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طرح چلتی ہی رہیں گی اور گزر جائیں گی لیکن ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے سوچنا ہے اور اس سوچ کا سارا دارومدار حکومت وقت پر ہے ۔
بطور اخبار نویس میں اپنے بھائیوں سے درخواست کروں گا کہ ملک میں آبی ذخائر کے بارے میں بریکنگ نیوز چلائیں وقتی طور پر سیاست سے دور ہو کر حکومت کو ملک کے اس اہم ترین مسئلے کی طرف متوجہ کریں اور مجبور کریں کہ وہ پہلے پانی ذخیرہ کریں پھر کوئی اور منصوبہ بنائیں اسی میں زندگی کا تسلسل ہے ۔