ایک صنعت کار سے کامیاب گلوکار تک
حبیب ولی محمد بحیثیت گائیک ہندوستان سے شہرت سمیٹ کر پھر پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔
چند کلاسیکل غزل سنگرز کو چھوڑ کر ہندوستان اور پاکستان میں گلوکار حبیب ولی محمد کو جو مقبولیت حاصل ہوئی تھی غزل کی گائیکی میں لیجنڈ گلوکار مہدی حسن، جگجیت سنگھ اور غلام علی کے بعد وہ شاید ہی کسی غزل سنگر کو حاصل ہوئی ہوگی جبکہ حبیب ولی محمد ایک نان پروفیشنل گلوکار تھے۔
ان کی گائی ہوئی بے شمار غزلیں آج بھی موسیقی سے دلچسپی رکھنے والوں کے دلوں میں پھولوں کی طرح تر وتازہ ہیں اور آج بھی جب ہم ان غزلوں کو سنتے ہیں تو یہ غزلیں کیف و سرورکی دنیا میں لے جاتی ہیں۔ حبیب ولی محمد کی شہرت کا سفر آخری تاجدار ہند بہادر شاہ ظفر کی غزلوں کی گائیکی سے شروع ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حبیب ولی محمد سروں کی دنیا میں چھاتے چلے گئے وہ بنیادی طور پر ایک بزنس مین طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک جانے مانے صنعتکار تھے پھر جب یہ گائیکی کے میدان میں آئے تو ان کی منفرد انداز کی گائیکی نے لاکھوں لوگوں کے دل موہ لیے تھے۔ میری حبیب ولی محمد سے بارہا ملاقاتیں رہیں جن میں سے دو ملاقاتیں بڑی یادگار تھیں ایک نامور کلاسیکل سنگر اور سارنگی نواز استاد امراؤ بندو خان کے گھر ایک محفل موسیقی کے دوران ہوئی اور دوسری ملاقات مشہور موسیقار نثار بزمی کے گھر پر رہی تھی۔
پہلے میں ان کی ابتدائی زندگی اور ان کے موسیقی کے شوق کا تذکرہ کروں گا۔ حبیب ولی محمد 16 جنوری 1921ء میں رنگون میں پیدا ہوئے جس کا موجودہ نام میانمار ہے پھر ان کا خاندان رنگون سے بمبئی آگیا۔ بمبئی میں تابانی فیملی نے بزنس میں اپنا نام پیدا کیا مگر اس خاندان کے ایک فرد حبیب ولی محمد موسیقی میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتے تھے، شروع میں قوالیاں سننے کا شوق تھا پھر ہندوستان کے لیجنڈ سنگر کندن لال سہگل کے گیتوں سے انسپائر ہوئے اور خود بھی اپنے کالج کے فنکشنوں میں ایک گلوکارکی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔
اسی دوران بمبئی کے ایک میوزک کنسرٹ کے مقابلۂ موسیقی میں حصہ لیا اور بحیثیت گلوکار پہلا انعام حاصل کیا اور پھر ان کی گائی ہوئی جس پہلی غزل کو عوام میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہادر شاہ ظفر کی غزل تھی جس کا مطلع تھا:
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
اب حبیب ولی محمد کا موسیقی سے یہ شوق جنون کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ اب انھیں موسیقی کے اسرارورموز سیکھنے سے دلچسپی ہوئی تو انھوں نے اس دورکے موسیقی کے استاد فیاض علی خان کے بھتیجے استاد لطافت علی خان کی شاگردی اختیار کر لی۔ حبیب ولی محمد نے بمبئی سے بی۔اے کیا تھا، پھر یہ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے امریکا چلے گئے وہاں سے M.B.A کی ڈگری لے کر واپس بمبئی آگئے تھے اور پھر اپنے خاندانی بزنس سے برائے نام ہی تعلق رکھا اور موسیقی کو ہی اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ اس دوران ان کی گائی ہوئی بہادر شاہ ظفر کی غزلوں نے ایک دھوم مچا دی تھی اور خاص طور پر ایک غزل جو کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے وہ بس حبیب ولی محمد کی گائیکی کی سند بنتی چلی گئی جس کا ایک ایک شعر اردو ادب کا سرمایہ کہلانے کے مترادف ہے۔ اور وہ غزل ہے:
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
حبیب ولی محمد بحیثیت گائیک ہندوستان سے شہرت سمیٹ کر پھر پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی اس دوران ان کے کئی میوزک البم مارکیٹ میں آئے اور عوام میں پذیرائی حاصل کرتے چلے گئے۔ بہادر شاہ ظفر کی غزلوں کے ساتھ استاد قمر جلالوی کی غزلوں کو بھی حبیب ولی محمد کی کھرج دار اور رسیلی آواز نے نئی پہچان اور عوام تک رسائی عطا کی اور خاص طور پر اس غزل کی گونج بڑے عرصے تک سنائی دیتی رہی:
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
یہ وہ دور تھا جب حبیب ولی محمد کا جو بھی نیا میوزک البم مارکیٹ میں آتا تھا تو وہ ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں ان کی گائی ہوئی کچھ غزلوں اور گیتوں کے بول درج ہیں۔
٭ مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
٭ سنتے ہیں کہ مل جاتی ہے ہر چیز دعا سے
٭ تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
٭ کیا کہہ گئی کسی کی نظرکچھ نہ پوچھیے
٭ آہ وہ دور زندگی جس کا لقب شباب تھا
٭ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
جتنی مقبول حبیب ولی محمد کی غزلیں تھیں،اسی طرح ان کے گائے ہوئے گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی تھی ۔ان کے گائے ہوئے چند سہانے گیت آج بھی سنو تو کانوں میں رس گھولتے ہیں جیسے کہ یہ گیت ہیں:
گجرا بنا کے لے آ مالنیا۔ وہ آئے ہیں گھر میں ہمارے
چل ری دلہنیا ساجن کے دوارے۔ لینے کو آئے کہار
راتیں تھیں چاندنی جوبن پہ تھی بہار
اور خاص طور پر نیم کلاسیکل انداز میں گایا ہوا یہ گیت اپنی مثال آپ ہے:
گوری کرت سنگھار
بال بال موتی چمکائے
روم روم مہکار
گوری کرت سنگار
اب میں حبیب ولی محمد کی ان غزلوں کی طرف آتا ہوں جو فلموں کے لیے گائی گئیں اور انھیں بھی پاکستان اور ہندوستان میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ حبیب ولی محمد کو کراچی فلم انڈسٹری کے دو نامور موسیقاروں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ گوایا ان کے نام ہیں موسیقار لال محمد اقبال اور موسیقار سہیل رعنا جبکہ موسیقار نثار بزمی نے ایک البم EMI گراموفون کمپنی کے لیے کراچی ہی میں ریکارڈ کیا تھا۔
سب سے پہلے میں فلم ''دھماکہ'' میں لکھی ہوئی ایک غزل کا تذکرہ کروں گا۔ جسے جاسوسی ناولوں کے نامور مصنف ابن صفی نے لکھا جو ایک اچھے شاعر بھی تھے مگر ان کی مقبولیت بحیثیت ناول نگار رہی ابن صفی کا شاعرانہ نام اسرار ناروی تھا۔ فلم ''دھماکہ'' جوکراچی میں بنائی گئی تھی اس کی موسیقی لال محمد اقبال نے ترتیب دی تھی موسیقار سہیل رعنا نے اپنی دو فلموں ''بازی'' اور ''بادل اور بجلی'' میں حبیب ولی محمد کی آواز کا بہت خوبصورت استعمال کیا تھا۔ فلم ''بازی'' میں راز الٰہ آبادی کی مشہور غزل جس کا مطلع تھا:
آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا
ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
یہ غزل بڑی مقبول ہوئی تھی اور فلم میں اداکار ندیم پر عکس بند کی گئی تھی ۔اب آتا ہوں اس لاجواب گیت کی طرف جو حبیب ولی محمد کی آواز میں فلم ''بادل اور بجلی'' میں گوایا گیا تھا۔
آج جانے کی ضد نہ کرو' یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
ہائے مر جائیں گے ہم تو لٹ جائیں گے'ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضد نہ کرو
حبیب ولی محمد کی کھرج دار آواز اور سہیل رعنا کی مدھر موسیقی سے سجا ہوا یہ گیت فلم کی نہ صرف ہائی لائٹ بنا تھا بلکہ اس کی شہرت نے ہندوستان کے بڑے بڑے فنکاروں کو اپنی طرف راغب کرلیا تھا اور پھر یہی گیت جسے فیاض ہاشمی نے لکھا تھا۔ ہندوستان کے نامور گلوکاروں جگجیت سنگھ، طلعت عزیز، انوپ جلوٹا، آشا بھوسلے، ڈاکٹر رادھیکا چوپڑا کے علاوہ بے شمار گلوکار اور گلوکاراؤں نے اسی دھن میں اسی انداز میں گایا تھا۔
حبیب ولی محمد نے کئی نعتیں اور قومی نغمات بھی گائے جن میں سے ایک قومی گیت کو بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول ہیں:
روشن و رقصاں' نیر و تاباں' پاکستان رہے
فلم ''بادل اور بجلی'' کے گیت پر حبیب ولی محمد کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ حبیب ولی محمد نے امریکا اور یورپ میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا پھر امریکا ہی میں شفٹ ہوگئے تھے۔ ایک طویل عرصہ انھوں نے موسیقی کی دنیا میں گزارا اور پھر 4 ستمبر 2014ء کو لاس اینجلس میں انتقال کرگئے اور اس طرح دنیائے موسیقی ایک عظیم گلوکار سے محروم ہوگئی۔