کرپشن ایسے تو ختم نہیں ہوگی
کرپشن کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے ہی ملک ترقی کی دوڑ میں دوسرے ترقی پذیر ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
MUZAFFARABAD:
پاکستان میں بدقسمتی سے ہر برسر اقتدار سیاسی پارٹی کا دامن کرپشن سے داغدار رہا ہے، یہ بیماری ملک میں اس طرح جڑ پکڑ چکی ہے کہ اب اس سے نجات حاصل کرنا ناممکن ہی نظر آتا ہے۔
جمہوری حکومتیں تو خیر شروع سے ہی کرپشن کے سلسلے میں بدنام رہی ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آمرانہ حکومتیں جو ملک سے ہر قسم کی خرابی اور خاص طور پر قومی دولت کی لوٹ مار کو ختم کرنے کی غرض سے جمہوری حکومتوں پر شب خون مار کر قائم ہوتی رہی ہیں، وہ خود بھی کرپشن کا شکار ہوکر ملک و قوم کے لیے وبال جان بنی رہی ہیں۔
اس وقت خوش قسمتی سے ملک میں جمہوریت تو قائم ہے مگر نواز حکومت پر اتنے کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں کہ کہا جا رہا ہے کہ اس نے گزشتہ تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ صرف میاں صاحب پر ہی نہیں ان کے پورے خاندان پر کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں لیکن اس حکومت سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت پر بھی کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے تھے۔
آصف علی زرداری کو کرپشن میں سب سے آگے بتایا جاتا ہے۔ کرپشن کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے ہی ملک ترقی کی دوڑ میں دوسرے ترقی پذیر ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ عوام کی غربت اور پسماندگی کی وجہ سے ہی پاکستان کو دنیا کے غریب ممالک کی صف میں شامل کیا جاتا ہے۔ ملک کو ٹیکسوں کی مد میں ملنے والی رقم عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی پر خرچ ہونے کے بجائے برسر اقتدار رہنماؤں کے گھر جا رہی ہے، وہ امیر سے امیر ترین بنتے جا رہے ہیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ملک میں بڑھتے ہوئے کرپشن کے رجحان کو ہی دیکھتے ہوئے آج سے تئیس سال قبل ملک میں ایک نئی سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے منشور کا اولین نکتہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ لوگوں کو قومی دولت لوٹنے کی سزا دلانا تھا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف تھی جس کے سربراہ ملک کے مایہ ناز کرکٹ کے کھلاڑی عمران خان تھے، چونکہ ان کی سربراہی میں قومی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیت چکی تھی چنانچہ انھیں پورے ملک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
ان کی پارٹی کے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے وعدے سے متاثر ہوکر ملک کو کرپشن سے پاک رکھنے کا جذبہ رکھنے والے لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہونے لگے۔ یہ پارٹی اپنے بنیادی اصولوں کی وجہ سے برابر آگے بڑھتی گئی اور 2013 کے الیکشن تک اس کی مقبولیت اتنی بڑھ چکی تھی کہ اس نے الیکشن لڑا اور یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جیسی پرانی اور مضبوط پارٹی کے گڑھ پنجاب سے ٹھیک ٹھاک سیٹیں نکالنے میں کامیاب رہی، مگر اس وقت تک بعض سرمایہ دار قسم کے لوگ اس کی زینت بن چکے تھے۔
پارٹی میں ایسے لوگوں کے شامل کیے جانے سے کرپٹ لوگوں کا اس میں داخلہ ممنوع قرار دیے جانے کے ان کے بنیادی اصول کو دھچکا پہنچ چکا تھا، جس پر پارٹی کے اندر ہی سے تنقید کی جانے لگی مگر خان صاحب نے ان کا یہ کہہ کر منہ بند کر دیا تھا کہ آخر ہم فرشتے کہاں سے تلاش کرکے لائیں۔ اس کے بعد پارٹی اپنے بنیادی اصولوں سے بتدریج دور ہوتی گئی اور خود کو صرف اقتدار کے حصول کے لیے تیار کرنا شروع کردیا۔
اسی پارٹی میں شاہ محمود قریشی جیسے اچھی شہرت رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں، ان کے اعتراض پر بھی بااثر دولت مند لوگوں کو پارٹی میں خوش آمدید کہنے کا سلسلہ جاری رہا۔ 2013 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد خان صاحب نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں مزید تبدیلی لا کر پہلے والی شائستگی کو چھوڑ کر جارحانہ سیاست کو اپنا لیا۔
الیکشن کے ایک سال بعد انھیں شیخ رشید کے یاد دلانے پر الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہونے کا شک ستانے لگا اور انھوں نے فتح مند پارٹی کے خلاف ہر محاذ پر دھاندلی کے نعرے لگانا شروع کردیے۔ انھیں نہ جانے کس نے اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا تھا کہ ان کی پارٹی پورے پاکستان میں سوئیپ کر رہی تھی اور وہ ملک کے وزیراعظم بننے کا شرف حاصل کرنے والے تھے مگر انھیں فتح مند پارٹی نے دھاندلی کرکے شکست سے دوچار کرادیا ہے۔
دھاندلی کے ان کے پاس کوئی ثبوت نہ ہوتے ہوئے بھی عدلیہ نے تمام مشکوک حلقوں کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرادی۔ جب دھاندلی میں کچھ نہ نکلا تو حکومت گرانے کے لیے طویل دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پورے اسلام آباد کو یرغمال بناکر حکومتی کاروبار کو بھی روک دیا گیا۔ اس ہنگامے میں قومی اسمبلی اور قومی نشریاتی ادارے کی عمارات کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
حکومت کو تو بہرحال نہیں گرایا جاسکا البتہ ملکی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچا۔ سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کو بھی وقت مقررہ پر شروع ہونے سے روک دیا گیا۔ پھر پاناما لیکس کے آنے کے بعد وہ دھرنا اور دارالخلافہ کو لاک ڈاؤن کرنے والے احتجاجوں کو چھوڑ کر نواز شریف کے پیچھے پڑگئے اور آخر میاں صاحب کو حکومت سے ہٹوا کر ہی دم لیا، مگر اس سے ملک میں عدم استحکام کی فضا نے جنم لیا۔ اب 2018 کے انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے جو 25 جولائی کو منعقد ہوں گے۔
خان صاحب نے الیکشن میں بہرصورت کامیابی حاصل کرنے کے لیے زور و شور سے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اسی تیاری کے سلسلے میں پورے ملک سے ان لوگوں کی شمولیت کا سلسلہ جاری ہے جن کے خلاف ایکشن لینے کے لیے پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت پارٹی کے پرانے لوگوں اور نئے شامل ہونے والے موقع شناسوں میں محاذ آرائی جاری ہے۔
چند دن قبل پی ٹی آئی نے الیکشن میں اپنی متوقع کامیابی کی خوشی میں اپنی آیندہ وفاقی حکومت کے سو دنوں کا پروگرام عوام کے سامنے رکھا ہے۔ اس پر اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ خان صاحب کو پہلے کے پی کے حکومت کے پانچ سال کی کاکردگی کا جائزہ پیش کرنا چاہیے تھا۔
مگر چونکہ خان صاحب نے کے پی کے حکومت پر توجہ دینے کے بجائے اپنے پورے پانچ سال دھرنوں، احتجاجوں اور پانامہ کے ذریعے میاں صاحب کو نااہل قرار دلوانے میں لگا دیے ہیں چنانچہ وہ کے پی کے حکومت کی کارکردگی کا کیا ذکر کرسکتے ہیں، اس لیے انھوں نے آیندہ کے اپنے لائحہ عمل سے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے، مگر مستقبل کا حال تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
ان پر ایک مزید الزام یہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ ان سے پہلے سیاست میں گالم گلوچ، الزامات اور جارحیت کا نام و نشان تک نہیں تھا مگر اب تو حال یہ ہے کہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں پی ٹی آئی کے رہنما نعیم الحق نے (ن) لیگ کے رہنما دانیال عزیز کے منہ پر زوردار تھپڑ دے مارا تھا اور بدقسمتی سے خان صاحب نے ان کی اس حرکت کی تعریف بھی کی تھی جو سوشل میڈیا پر سب نے نعیم الحق کی زبانی سنی تھی۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے اب لگتا ہے اپنی پارٹی کے بنیادی اصولوں کو ایک طرف رکھ کر تخت اسلام آباد تک پہنچنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ اس سلسلے میں (ن) لیگ انھیں اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرکے اس کے سہارے آیندہ انتخابات جیتنے کا پہلے سے طعنہ دے رہی ہے۔
ہوسکتا ہے عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجائیں مگر ان کے پرانے ساتھی جو پارٹی کی تشکیل کے وقت سے ان کے ساتھ ہیں پارٹی کے بنیادی اصولوں سے انحراف پر سخت بے چینی میں مبتلا ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے چونکہ ملک میں خان صاحب کی پارٹی کی کامیابی کا ماحول بنتا نظر آرہا ہے چنانچہ ان کے پاس اپنی حکومت کی کامیابی اور نیک نامی کے لیے اپنی پارٹی کے بنیادی اصولوں کو اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔