تعلیم… سب کے لیے

اس میں شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں نے خدمت خلق کو بھی ایک ’’کاروبار‘‘ بنالیا ہے۔


Amjad Islam Amjad June 03, 2018
[email protected]

رب کریم کی نعمتوں کا خزانہ اور اس کے بندوں کی خدمت اور دیکھ بھال دو ایسے معاملے ہیں کہ جن کی نہ کوئی حد ہے اور نہ حساب لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ دونوں سمندر ایک ہی کوزے میں سمٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں نے خدمت خلق کو بھی ایک ''کاروبار'' بنالیا ہے اور اس کی آڑ میں اپنے کچھ ذاتی مفادات کی آبیاری میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن ایسی کالی بھیڑیں تو ہر جگہ ہوتی ہیں فرق صرف یہ ہے کہ بڑے اور امیر معاشرے یہ کام این جی اوز کے پردے میں کرتی ہیں اور ہمارے جیسے پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں میں اسے تعلیم، صحت اور مذہب کے نام پر چلایا جاتا ہے۔

لیکن غور سے دیکھا اور سمجھا جائے تو ان لوگوں کی تعداد کم اور شور شرابا زیادہ ہے کہ آج بھی بیشتر این جی اوز اور فلاحی ادارے ایسے ہیں جو سچ مچ دل و جان، ایمانداری اور محنت سے نہ صرف کام کررہے ہیں بلکہ ان کی اپنے کام سے کمٹ منٹ، تنظیم اور کریڈیبلٹی ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔

سو ضرورت اس امر کی ہے کہ نوسربازوں کی اس محدود اقلیت سے مایوس یا بددل ہوکر گھر بیٹھے رہنے کے بجائے ان کی نشاندہی اور ان سے گریز کا راستہ اپنایا جائے۔ اور وہ نیک دل لوگ جو اپنے اپنے دائرے میں اور اپنے اپنے طریقے سے نیکیوں کو ایک جگہ پر جمع کرنے اور بے شمار لوگوں کو انھیں کمانے کے فن میں متوجہ، متحرک اور باعمل کررہے ہیں نہ صرف ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کی جائے اسے ایک خوامخواہ کا نزاعی مسئلہ بناکر اور اپنی ذاتی پسند ناپسند کو معیار کا درجہ دے کر اس کار خیر کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ بلکہ چھوٹی موٹی غلطیوں، بدانتظامیوں اور بعض صورتوں میں اکا دکا مشکوک نوعیت کی خود غرضیوں کو نظر انداز کرکے ایسے تمام اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اللہ کے بندوں کے راستوں سے رکاوٹیں ہٹاتے اور ان کے لیے آسانیاں فراہم کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔

دو چار فی صد بد اندیش لوگوں کی بدعملی یا بدنیتی کی سزا بے شمار اچھے نیک دل خدمت انسانی کے جذبے سے سرشار لوگوں اور اداروں کو دینا ایسے ہی ہے جیسے گنتی کے چند بجلی چوروں کو پکڑنے کے بجائے ہم اس علاقے کے ان ہزاروں ایماندار اور وقت پر بل ادا کرنے والے گھروں پر اضافی لوڈشیڈنگ کا جرمانہ ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ کہنا بھی کہ غیر ملکی امداد سے چلنے والی تمام کی تمام این جی اوز کسی مخصوص ایجنڈے کے آلہ کار کے طور پر کام کرتی ہیں۔

خلاف واقعہ غلط اور گمراہ کن ہوگا کہ یہاں بھی معاملہ وہی تناسب، مبالغے اور عمومی رویے کا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر خدمت انسانی کے دعویدار بیشتر ادارے اگر سوفیصد مکمل نہیں تو بہت حد تک غیر جانبداریت اور شفافیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

بعض اوقات ہماری اور ان کی ترجیحات اور طریق کار کا فرق بھی کچھ غلطیوں یا غلط فہمیوں کا سبب بن جاتا ہے مگر دیکھنے والی بات پھر یہی ہے کہ ہماری نظر ''خیر'' کے پہلو پر رہے تو خود بخود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا چلا جاتا ہے اور اچھے ادارے اپنے مسلسل عمل اور پرفارمنس کے ذریعے اس اعتماد کو حاصل کرلیتے ہیں جو ان کا حق اور اس ''کار خیر'' کے فروغ کا نقش اولین ہے۔

وطن عزیز میں انفرادی، اجتماعی اور اداروں کی سطح پر خدمت خلق، قربانی، ایثار اور تعاون کا جو منظر دیکھنے میں آتا ہے وہ بلاشبہ ہمارے معاشرے کا ایک روشن پہلو اور چہرا ہے کہ بے شمار مسائل اور خرابیوں کے باوجود اب بھی ہمارے لوگ خدا اور اس کے بندوں کی راہ میں خرچ کرنے والوں میں نہ صرف پیش پیش ہیں بلکہ اس ضمن میں انھوں نے کئی ریکارڈ اور مثالیں بھی قائم کی ہیں۔

عبدالستار ایدھی مرحوم کی ایدھی فاؤنڈیشن سے لے کر ''اخوت'' اور ''الخدمت'' فاؤنڈیشن سمیت بے شمار ایسے ادارے ہیں جنھوں نے خدمت خلق، صحت، تعلیم، یتامیٰ اور ان افتادگان خاک کے لیے بے مثال اور شاندار کام کیا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے کسی فطری، ذہنی یا جسمانی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی فہرست بہت لمبی اور خدمات بے شمار ہیں۔

مثال کے طور پر صرف غربت اور جہالت کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جانے والے بچوں کے معاملات اور مسائل کو ہی لے لیجیے کہ اس وقت ہمارے تقریباً پچاس فیصد یعنی اڑھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں اور باقی پچاس فیصد میں سے بھی کم و بیش آدھے بچے پرائمری اور مڈل کی سطح پر ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں۔

بالخصوص دیہات کی سطح پر یہ اعدادو شمار اور بھی زیادہ خوفناک اور دل شکن ہیں کہ تعلیم ہر انسان کے بچے کا ایک بنیادی حق ہے۔ میری زندگی کا بیشتر حصہ کسی نہ کسی طرح تعلیم سے وابستہ رہا ہے مگر اس دوران میں میرا زیادہ تر رابطہ ہائیر سیکنڈری یا اس سے اوپر کے درجوں کی تعلیم، نصاب تعلیم اور اسی طرح کے دیگر مسائل تک محدود رہا مگر اب جو گزشتہ چند برسوں سے مجھے ''الخدمت، اخوت، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، الفلاح اسکالر شپ اسکیم، ٹی سی ایف اور سائٹ'' وغیرہ اداروں کی معرفت تعلیم کی صورتحال اور مسائل کو گراس روٹ سطح پر قریب سے دیکھنے کا موقع ہے تو اس مسئلے کی نوعیت، شدت، نتائج اور ان اداروں سے متعلق احباب کی سوچ، محنت، وژن اور عملی کاوشوں کی جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ بالکل ایک نئی دنیا ہے اور یہ منظر صرف ان ہی چند اداروں تک محدود نہیں بے شمار چھوٹے بڑے، عام اور گمنام ادارے اس نیک عمدہ اور تعمیری کام میں سرگرم عمل ہیں اور بہت اچھا کام کررہے ہیں یہ اور بات ہے کہ میڈیا اور معاشرتی زندگی میں ہمارا زیادہ زور ان چند کالی بھیڑوں پر ہی رہتا ہے جنھوں نے تعلیم کو کاروبار کا ذریعہ بنا رکھا ہے یا اس کی آڑ میں اپنی ''ذاتی ترقی'' کے زینے طے کررہے ہیں۔

اب ضرورت ہے کہ اس روایتی تنقید کی بے معنی عیاشی سے نکل کر اس تصویر کے روشن رخ کو دیکھا اور اجالا جائے اور ان سب لوگوں کی تحسین کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ہر طرح کا ممکنہ تعاون کیا جائے کہ تعلیم کے فروغ کے بالواسطہ فوائد اس کے براہِ راست فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ سنی سنائی باتوں یا افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے خود ذاتی جانچ پرکھ کیجیے اور فروعات میں الجھ کر الفاظ کی لڈو کھیلنے کے بجائے ایسے تمام لوگوں کا ہاتھ بنائیے یا ان کی حوصلہ افزائی کیجیے جو اس ملک سے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔

گزشتہ دنوں مجھے برادرم نصرالصمد قریشی کی وساطت سے عزیزی اعجاز نثار کے جوہر ٹاؤن لاہور میں قائم کردہ Management ہاؤس میں Cyte نامی ادارے کی ایک ایسی ہی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا جو پرائمری کی سطح پر دیہاتی یا آؤٹ آف اسکول بچوں کو تعلیم کی طرف مائل کرنے کے لیے ان کے تعلیمی اخراجات، کتابوں، یونیفارم اور جوتوں وغیرہ کا بندوبست کرتے ہیں۔

تنظیم کے صدر عزیزی یاسر نے اپنی ابتدائی گفتگو کے دوران بتایا کہ کس طرح وہ خود ان ہی مراحل سے گزرے ہیں اور اس ادارے کا نام Cyte بھی اصل میں Changing Youth Through Education ایک طرح سے ان جیسے کروڑوں بچوں کے لیے ایک روشنی کی طرف کھلنے والا راستہ ہے جس پر چل کر وہ بھی ان کی طرح لینے والے سے دینے والا ہاتھ بن سکتے ہیں۔ بیرون وطن مقیم پاکستانی ہوں یا ہمارے درمیان موجود اہل دل اور اصحاب فکر و نظر ہم سب کا تعاون ہی اس دُور کی منزل کو ایک خواب سے حقیقت کی شکل دیگا جب ہمارا ہر بچہ تعلیم حاصل کرے گا اور اس کی روشنی ہر گھر کے آنگن تک پہنچ سکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔