قلت آب کا ذمے دار کون
پانی اور ڈیم دونوں لازم و ملزوم ہیں اور جہاں پر ایک کی کمی کا ذکر آئے وہیں پر دوسرے کی تعمیر کا ذکر بھی آئے گا۔
ملک میں جب بھی پانی کی قلت ہوتی ہے اس وقت ہمیں پانی کے اپنے وہ منصوبے بھی یاد آجاتے ہیں جنھیں ہم سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے متروک یا موخر کرتے چلے آئے ہیں۔
آج کل ایک مرتبہ پھر کالا باغ ڈیم کا شور برپا ہے اور اس مرتبہ اس کا تذکرہ سیاسی کی نسبت سوشل میڈیا پر زیادہ ہے، جس کو عوام کی ایک بڑی تعداد استعمال کر رہی ہے جو کہ ہر ایک کی پہنچ میں ہے اور جہاں پر اس غریب ملک کا ہر باشندہ ایک اپنی مرضی کا اظہار بھی کھلے لفظوں میں کر سکتا ہے۔
پانی اور ڈیم دونوں لازم و ملزوم ہیں اور جہاں پر ایک کی کمی کا ذکر آئے وہیں پر دوسرے کی تعمیر کا ذکر بھی آئے گا۔ میاں نواز شریف کے پہلے دور کی بات ہے ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں کل کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان کرنے والا تھا لیکن غلام اسحاق خان نے سندھ میں فوجی ایکشن شروع کر دیا ہے اس لیے اب میں دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔
صدر ضیاء الحق جیسے طاقت ور حکمران کے گیارہ برس اسی پس و پیش میں گزر گئے مگر کالا باغ تعمیر نہ ہو سکا ۔ میاں صاحب نے جیسے ہی اس کا ارادہ کیا اس وقت آٹھویں ترمیم ان کے منتخب اقتدار کو نگل گئی اور یوں کالا باغ ہمیشہ کی طرح ایک سیاسی تنازع بنا رہا۔ اس کے بعد بھی میاں صاحب دو دفعہ بھر پور اقتدار میں آئے وہ ہمہ مقتدر وزیر اعظم بھی رہے کوئی غلام اسحاق خان یا آٹھویں ترمیم کی دفعہ 58 بھی موجود نہیں تھی وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔
اختیار اور اقتدار ان کے مکمل قبضے میں تھا۔ بیورو کریسی ، اسمبلیوں کے ارکان، سب سے بڑے صوبے کا اقتدار، جناب صدر اور دوسرے مقتدر ان کی حمایت میں تھے اپوزیشن عمران کی شکل میں موجود تھی پیپلز پارٹی اپنی بقا کی جنگ ہار چکی تھی غرض اقتدار میاں صاحب کے قدموں کے نیچے رہا۔
ایسا ہونا ضروری بھی تھا کہ کئی جگہوں اور ہاتھوں پر منقسم اقتدار کسی کے کام کا نہیں ہوتا ایسے اقتدار کا نہ ہونا اس کے ہونے سے بہتر ہے۔ زبردست مینڈیٹ کا بوجھ اور نشہ بھی دو آتشہ تھا آئینی طور پر مضبوط ترین پوزیشن بھی تھی۔ نظر بظاہر وزیر اعظم کوئی بھی فیصلہ کر سکتا تھا کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کرا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس انتظار میں ہی رہا کہ ملکی سالمیت کے اس اہم منصوبے کا نواز شریف دوبارہ کب اعلان کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اس کی مخالفت بھی ہوگی اور شور شرابہ بھی۔
جناب عمران خان کی پارٹی خیبر پختونخوا پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہی تھی اور عمران خان خود جو کہ کالا باغ کے آبائی پڑوسی ہیں وہ اس صورتحال کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کس قدر جلد بن سکتا ہے اور اس سے پورا ملک استفادہ کر سکتا ہے اس لیے وہ بھی خیبر پختونخوا کے عوام کو بآسانی سمجھا سکتے تھے کہ اس ڈیم سے ان کو کوئی نقصان نہیں ہو گا اور اگر عمران خان ان کی سیاسی مخالفت کرتے تو عوام میں ان کا ایک ملک دوست سیاست دان کا تصور ختم ہو جاتا۔ میاں نواز شریف کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ اعلان کر دیتے اور سیاسی چھکا لگا دیتے مگر بوجوہ وہ تین بار اقتدار میں رہ کر بھی یہ اس بھاری پتھر کا بوجھ نہ اٹھا سکے۔ کالا باغ سیاستدانوں سے دور ہی رہا۔
کالاباغ ڈیم کے بارے میں اس قدر بحث ہو چکی ہے کہ اگر اس کو جمع کر لیا جا ئے تو کتابوں کی شکل میں ایک ڈیم بن جائے اس قومی منصوبے کے مخالفین کو بخوبی علم ہے کہ ان کی مخالفت ملک کے ساتھ کس قدر ناانصافی ہے۔ ایک دفعہ ولی خان صاحب نے واپڈا کے ایک سابق پٹھان چیئرمین کو طلب کیا۔ عالمی سطح کے اس ماہر نے ڈیم کے حق میں دلائل کا انبار لگا دیا۔
سب کچھ سننے کے بعد ولی خان نے کہا کہ تم پٹھان ہو کر بھی کالاباغ کے حمائتی ہو تو یہ ہے وہ مائنڈ سیٹ جس کی وجہ سے کالا باغ سیاسی تنازع میں الجھا ہوا ایک قومی منصوبہ ہے اور اس کی اصل مخالفت کا سبب۔ گویا یہ ڈیم آب رسانی اور بجلی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے بلکہ کوئی پنجابی، سندھی، بلوچی یا سرحدی صوبائی منصوبہ ہے۔ ہمارے سیاستدان اپنی مجبوریوں کے تحت ایسی پارٹیوں کو بھی ساتھ لے کر چلتے رہے جو کہ ملکی سالمیت کے خلاف تھیں اور ان میں سر فہرست عوامی نیشنل پارٹی تھی جو کہ مبینہ طور پر براہ راست بھارت سے احکامات وصول کرتی ہے۔
پاکستان میں ان کی قیادت صرف رہائش پذیر ہے لیکن وہ اس مٹی میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کرتے جس مٹی کا کھاتے ہیں اور جس وطن میں سیاست کرتے ہیں۔ پہلے جناب نواز شریف نے ان کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی اور بعد میں جناب آصف زرداری پانچ سال تک ان کے میزبان رہے لیکن ان دونوں میزبانوں نے اپنے سرحدی دوستوں سے کبھی یہ رعایت نہیں مانگی کہ وہ کالا باغ کے معاملے میں عقل سے کام لیں کیونکہ ہمارے دونوں بڑے آبی ذخیروں منگلا اور تربیلا کی جھیلیں خطرناک حد تک کم ہو چکی ہیں اس لیے کسی لاعلاج مصیبت سے بچنے کے لیے فوری طور پر کالاباغ ڈیم شروع کر دینا چاہیے۔
کالاباغ صوبوں کے مابین ایک تنازع بن جانے کی وجہ سے یوں لگتا ہے جیسے یہ آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کا کوئی برقی منصوبہ نہیں بلکہ کوئی سیاسی اتحاد بنانے کی کی کوشش ہے۔ جس میں شرکت کا مسئلہ صوبوں کے درمیان تنازع بن گیا ہے کسی قومی تعمیری منصوبے کا متنازعہ بن جانا ایک قومی المیہ ہے اس لیے اگر میاں صاحب اس بابرکت منصوبے کی ازسر نو پہلی اینٹ ہی رکھ دیتے تو ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو اپنی دس سالہ حکومت کے آخری روز یہ نہ کہنا پڑتا کہ کل سے لوڈشیدنگ کے ذمے دار میں، نواز شریف یا عباسی صاحب نہیں۔ کل سے عوام جانے اور لوڈ شیڈنگ جانے ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ