گورکھ ہل اسٹیشن

کیرتھر کی ان مختلف چوٹیوں پر ہل اسٹیشنز کے قیام کے لیے کافی کوششیں کی گئی ہیں۔


Shabnam Gul April 26, 2013
[email protected]

پہاڑ فطرت کی خوبصورتی کا انمول حصہ ہیں۔ پہاڑوں کی زندگی خاموش، پرسکون اور قدرتی مناظر سے مالا مال ہوتی ہے۔ ہندو دیومالائی قصوں میں پہاڑوں کو طاقت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمالیہ کا نیلا پہاڑ ہو یا مندھرا سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ کیلاش پہاڑ کو ہندو شیو مہاراج سے منسوب کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے پانچ سو سادھوؤں کے ساتھ اس پہاڑ پر کافی عرصے تک رہائش پذیر تھے۔

سندھ میں بھی مختلف پہاڑی سلسلے ملتے ہیں۔ کیرتھر کے پہاڑ کا سلسلہ بلوچستان کے کوہ سلیمان سے شروع ہوتا ہے اور سندھ کے مختلف علاقوں کو چھوتا ہوا سمندر سے مل جاتا ہے۔ کیرتھر پر واقع اکثر پہاڑیاں گرمی کے موسم میں جنت نظیر بنی رہتی ہیں۔ ان پہاڑیوں میں حرباب، کتے کی قبر، بارغ، کچرک، بھگوٹوڈھو، ھالار، ونگو، دنبار اور گورکھ وغیرہ شامل ہیں۔

کیرتھر کی ان مختلف چوٹیوں پر ہل اسٹیشنز کے قیام کے لیے کافی کوششیں کی گئی ہیں۔ جس کے لیے مختلف وقتوں میں کئی چوٹیوں کے نام تجویز کیے جاتے رہے ہیں، مگر بالآخر گورکھ کا نام ہل اسٹیشن کے لیے نامزد کیا گیا۔ کیونکہ گورکھ رقبے اور وسائل کے لحاظ سے باقی پہاڑوں کے مقابلے میں زیادہ خودکفیل ہے۔ گورکھ پر گرمیوں کے دنوں میں سردی کا سا سماں دکھائی دیتا ہے۔ یہ علاقہ سرسبز ہے اور سبزے سے ڈھکی پہاڑیاں دلکش دکھائی دیتی ہیں۔ کیرتھر پہاڑوں کا سلسلہ گورکھ دادو ضلع کے جوہی تعلقے میں واقع ہے، جہاں سندھ اور بلوچستان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ گورکھ کی بلندی 4750 فٹ ہے۔ انگریزوں نے 1943 میں سندھ فتح کیا اور سندھ کے ٹھنڈے علاقے رہائش کے مرکز بنالیے۔ 860 ڈاکٹرلالو اور کیشن میکڈونلڈ نے کیرتھر کی بلند چوٹیوں کا معائنہ کیا۔ اس کے بعد مختلف سیاستدان و حکمران گورکھ گئے اور انھوں نے گورکھ ہل اسٹیشن کے قیام کے لیے دعوے کیے مگر آج تک یہ کام ادھورا پڑا ہے۔

گورکھ کا تذکرہ کافی عرصے سے سن رکھا تھا۔ راستہ دشوار ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ ان پہاڑوں کا رخ کرتے تھے لیکن جب سڑک بن گئی تو اس کے بعد فطری خوبصورتی کے رسیا پہاڑوں کا حسن دیکھنے کے لیے اکثر وہاں جانے لگے۔ گورکھ جانے کے لیے نکلے تو جوں ہی شہر سے گزرتے وہی مٹی کے بگولے دیکھے جو بچپن میں دیکھا کرتے تھے۔ بچپن اس خطے میں گزرا جس کی وجہ سے اس علاقے کی خوبصورت یادیں آج بھی ذہن پر دستک دیتی ہیں۔ کاچھو کے علاقے سے گزر کر گورکھ کے لیے راستہ نکلتا ہے۔

کاچھو کے علاقے میں بارشوں اور برساتی نالوں کے پانی سے کاشت کاری کی جاتی ہے۔ اس علاقے میں شاہ کا مزار واقع ہے جہاں ہر سال میلہ لگتا ہے۔ جس سے اس علاقے کی رونق بڑھ جاتی ہے۔ لوگ سال بھر اس میلے کا انعقاد کرتے ہیں۔ بلوچستان اور سرائیکی بولنے والے لوگ اپنے علاقوں سے آکر اس میلے میں شرکت کرتے ہیں۔ ان ہی پہاڑوں سے بہنے والے برساتی نالے نئن گاج نے اس علاقے کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ جیسے جیسے جیپ اونچائی پر چلنے لگی تو گورکھ کے پہاڑوں کی خوبصورتی نمایاں ہونے لگی۔ ایک جگہ پہاڑوں کی دراڑ سے بہت ہی سرسبز پہاڑی پودہ نگاہوں کو طراوت بخشنے لگا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ جیسے اس میں کوئی انکشاف مضمر ہو۔ جیسے لمحوں کی رازداری سے آہستہ آہستہ نقاب سرکنے لگا ہو۔ ایک پراسراریت سانس لے رہی تھی ٹھنڈی ہوا میں۔

گورکھ جانے والا راستہ پرخطر ہے، کیونکہ کئی موڑ آج بھی مسافروں کو خوفزدہ کردیتے ہیں، آگے جانے والی جیپ جب یکایک پیچھے آنے لگی تو ڈرائیور نے بریک لگائی۔ ایسا لگا مشکل سے گاڑی رکی ہو، جیسے ہی گاڑی رکی زرد چہرہ لیے سب باہر نکلے۔ جان جوکھم میں ڈال کر خوبصورتی کو جانے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ گورکھ پہنچ کر ایسا لگا دنیا ہی بدل گئی ہو۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سندھ کے علاقے میں کہیں کوہ مری کا سا سماں بھی چھپا ہوگا۔ جنگلی پودوں و جھاڑیوں سے مہکتی ہوا ڈر و اندیشوں سے بے نیاز تھی۔

گورکھ کی فطری سادگی میں عجیب سا حسن پنہاں تھا۔ سورج کی سنہری کرنیں سرمئی پہاڑوں پر جھلملا رہی تھیں۔ نیلے اودے رنگ کی گھاٹیاں نظروں میں جذب ہونے لگیں۔ چھ کروڑ سال پرانے یہ پہاڑ جو 4500 اسکوائر کلومیٹر رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں صدیوں کی کہانیاں اپنے سینے میں سمیٹے کھڑے ہیں۔ ان پہاڑوں کی کھوج میں کئی لوگ یہاں آئے جن میں مشہور بنگالی آرکیالوجسٹ گوپال مجمعداربھی شامل ہے۔ جس نے پوری زندگی سندھ کے مختلف علاقوں میں بسر کی اور آثار قدیمہ کے نئے زاویے تلاش کیے۔ جن کا ذکر اس کی کتاب Exploration Sindh میں ملتا ہے۔ 1938 میں مجمعدار کو گورکھ کے پہاڑوں پر قیام کے دوران قتل کردیا گیا۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ ڈاکوؤں کی کارروائی کا نشانہ بنے تھے۔ بنگال کے ادیب ٹیگور نے سندھ کے ادیب سے ملاقات کے دوران مجمعدار کے قتل پر افسوس و ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

کچھ ہی دیر میں پوری وادی پر سیاہ بادل چھاگئے۔ ادھر بارش ہونے لگی۔ وہاں پر بیٹھنے کے لیے رنگ برنگی چھتریاں بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت بارش سے بچنے کا کارآمد سائبان بن گئیں۔ یخ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے کپکپی سی طاری کردی تھی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ گرمی کے موسم میں نومبر کی سردیوں کی ٹھنڈک بھی دیکھنے کو ملے گی۔ لہٰذا کسی نے بھی گرم کپڑے نہ اٹھائے تھے۔اس وقت گرم گرم بھاپ اڑاتی چائے شدید سردی میں حدت بن کر حلق سے اترنے لگی تو قدرے سکون محسوس ہوا۔ گہرے بادلوں کے سائے میں پوری وادی کا ہرا حسن اپنی ہی خوبصورتی کے خمار میں لڑکھڑا رہا تھا۔بارش تھمی تو قطرے پودوں پر موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ گورکھ کی قدیم مٹی میں کوئی گہرا اثر تھاکہ حواس معطر اور پرخیال ہو چلے تھے۔

ہوائیں بادلوں کو بکھیر کر سورج سے ہٹاکر دور لے گئیں تو سورج کے اردگرد بادل مور کے پنکھ جیسے دکھائی دیے۔گورکھ پر واقع چند گھروں کے سامنے بچے کھیل رہے تھے۔ سامنے چھوٹا سا ریسٹ ہاؤس بھی نظر آیا۔ گورکھ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا کام جاری ہے۔ مگر اب تک تمام تر ہاؤسنگ اسکیمز، کلبز، ہوٹل، شاپنگ سینٹرز، فن لینڈ ، پلے لینڈ، چڑیاگھر، چیئرلفٹس اور بچوں کے جھولے وغیرہ معلوم نہیں کیوں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے۔

کوئی زمانہ تھا کہ سندھ کے آرکیالوجسٹ اشتیاق انصاری نے اونٹوں پر گورکھ تک پہنچنے کا سفر شروع کیا تھا۔ ان کی ٹیم برسوں تک گورکھ کے علاقے کی تحقیق کرتی رہی۔ محقق بدر ابڑو نے بھی کیرتھر کے علاقے کو اپنی ریسرچ کا محور بنایا ہے۔ گوکہ آج گورکھ تک پہنچنے کے لیے سڑک بن چکی ہے مگر گورکھ کے راستے کے کچھ خطرناک موڑ آج بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جن کے لیے محققین کا کہنا ہے کہ یہ موڑ ختم کرکے اگر یہاں پل وغیرہ بنایا جائے تو سیروسیاحت و ٹریکنگ کے لیے یہ علاقہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں