فرعون کی زندگی اور موسیؑ کے انجام کی چاہت

یہ بات واقعی بڑی اہم ہے کہ آج ہم میں بحیثیت مجموعی یہ ارادہ نظر نہیں آتا ہے کہ ہم ایک مسلمان کی زندگی جینا چاہتے ہیں


Dr Naveed Iqbal Ansari June 04, 2018
[email protected]

NEW DELHI: بحیثیت مسلمان ہمارے کردار کی جو مجموعی حالت ہے اس حوالے سے اکثر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں بھی ہر دوسرا شخص بے ایمانی کرتا نظر آتا ہے، پھل فروش سے لے کر بڑے کاروبار کرنے والے شخص تک کوئی بھی عوام کو لوٹنے میں پیچھے نہیں رہتا۔

اسی طرح سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں رمضان کے مہینے میں مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، لاکھوں لوگ تبلیغی اجتماع میں جارہے ہوتے ہیں، گھروں میں دینی محفلیں ہورہی ہوتی ہیں، حضورﷺ کی پیدائش کا دن ہو یا کربلا کے واقعہ کا، ہر گلی کوچہ کا یہ منظرہوتا ہے کہ ہم سے بڑا کوئی مسلمان نہیں، نمازیں، روزے اور لمبی لمبی داڑھیاں، رات، رات بھر ٹی وی پر اسلامی پروگرام دیکھ کر آنسو بہانے والے بھی صبح اٹھ کر معاشرے میں عملاً کچھ اور ہی کررہے ہوتے ہیں۔ عدالتوں میں اپنے ہی سگے رشتہ داروں کے خلاف قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولا جاتا ہے، سگے بہن بھائی آپس میں ایک دوسرے کی مدد تو کیا کریں چھوٹے چھوٹے اختلافات کے سبب ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔

آج کے دور میں یہ بات بڑے غور و فکر کی ہے کہ درس، تبلیغ اور نماز، روزہ کے اہتمام کے باوجود بحیثیت مسلمان ہمارے کردار میں تبدیلی کیوں نہیں آرہی ہے؟ راقم کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم جینے کے لیے تو غیر اسلامی زندگی چاہتے ہیں، جس میں ہم زیادہ سے زیادہ مال کما سکیں، عیش و عیشرت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اس سب کے لیے ہم کسی بھی حد سے گزر جانا پسند کرتے ہیں، لیکن مرنے کے بعد ہم اپنا انجام ایک اچھے مسلمان والا چاہتے ہیں، گویا ہم مرنے کے بعد انجام تو حضرت موسیٰ والا چاہتے ہیں مگر جینے کے لیے فرعون والی زندگی چاہتے ہیں۔ ہم میں یہ چاہت ختم ہوتی جارہی ہے کہ ہمارا جینا بھی بطور ایک اچھا مسلمان ہو اور مرنا بھی۔ اس بات کو آج سے برسوں پہلے ڈاکٹر اسرار احمد نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا کہ

''بحیثیت مجموعی اس معاشرے میں مسلمان جینے اور مسلمان مرنے کا داعیہ اور ارادہ مضمحل ہوچکا ہے۔ اصل شے یہ ہے کہ کسی قوم میں یہ عزم پیدا ہوجائے کہ اسے مسلمان جینا ہے، مسلمان مرنا ہے، جب یہ کیفیت پیدا ہوجائے گی تو اب خود اس کی طرف سے یہ بات ایک بالکل معروضی انداز میں پوچھی جائے گی، تلاش کی جائے کہ اسلام کیا کہتا ہے، میں مسلمان رہنا چاہتا ہوں، مسلمان مرنا چاہتا ہوں، لہٰذا مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کیا ہے؟ اﷲ کا حکم کیا ہے؟ اس کے رسولﷺ کا حکم کیا ہے؟ لیکن اگر یہ ارادہ موجود نہ ہو تو مختلف مسائل کے بارے یہ ساری بحثیں کہ قرآن کیاکہتا ہے؟ رسول ﷺ کی سنت کیا ہے؟ مختلف اماموں کا قول کیا ہے؟ محض علمی بن کر رہ جاتی ہیں، جس کی عملی اعتبار سے کوئی افادیت نہیں۔''

ڈاکٹر اسرار احمد مزید لکھتے ہیں کہ ''تاریخ اسلام میں اہل ایمان کا ایک معاشرہ وجود میں آگیا اور ان میں بحثیت مسلمان جینے اور مرنے کی امنگ پوری طرح پیدا ہوگئی تو انھوں نے آپﷺ سے زندگی گزارنے سے متعلق مختلف سوال کرنے شروع کردیے کہ فلاں مسئلے میں کیا حکم ہے اور فلاں مسئلے میں کیا حکم ہے؟ اور پھر جو بھی جواب ملا اس پر بغیر اپنی عقل لڑائے عمل کیا''۔

یہ بات واقعی بڑی اہم ہے کہ آج ہم میں بحیثیت مجموعی یہ ارادہ نظر نہیں آتا ہے کہ ہم ایک مسلمان کی زندگی جینا چاہتے ہیں، ہاں مرنے کے بعد تو انجام ضرور مسلمان والا چاہتے ہیں، اسی لیے ہم مرنے کے بعد کی وہ رسوم بھی زور و شور سے کرتے ہیں جو محض دل کی تسلی کے لیے ہوتی ہے، قرآن کے پارے بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں پڑھواتے ہیں، خود بھی پڑھتے ہیں مگر مرنے سے پہلے ہم کبھی قرآن کھول کر پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ یہ ایک بڑی اہم بات ہے کہ ہم مسلمان کی زندگی جینے کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں، یہ وہ بنیادی خرابی ہے جس کے سبب ہماری زندگی کے تمام فیصلے غیر اسلامی ہوتے ہیں۔

اگر ہم فیصلہ کرلیں کہ ہم نے اسلامی زندگی جینی ہے تو پھر ہم اپنا ہر عمل شروع کرنے سے قبل اپنے آپ سے یہ سوال کریں گے کہ ہم جو کچھ عمل کرنے جارہے ہیں اس بارے میں اسلامی حکم کیا ہے؟ اور جس بارے میں ہمیں علم نہیں ہوگا، اس بارے میں عالم دین سے بھی رجوع کریں گے کہ اسلامی تعلیمات کے اعتبارسے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ مثلاً ہم لین دین ہو یا کاروبار، اس میں جھوٹ، دھوکا اور فریب کاری سے کام نہیں لیں گے، حقوق العباد ادا کریں گے اور اگر کسی معاملے میں سود کا مسئلہ درپیش ہوگا تو ہم کسی عالم دین سے بھی رائے لیں گے، وغیرہ وغیرہ۔

اسلامی زندگی جینے کا ارادہ آسان نہیں، کیونکہ اس میں اپنے نفس کی قربانی دینی پڑتی ہے، نیز اس میں عقل کو بھی دخل نہیں ہوتا کہ بس جو شریعت نے حکم دے دیا تو دے دیا، اب اس پر بلا چوں و چرا عمل ہی کرنا ہوتا ہے۔ المیہ ہمارا یہ ہے کہ ہم عقلی اعتبار سے جس جس معاملے میں فائدہ دیکھتے ہیں زندگی کے فیصلے اسی اعتبار سے کرتے چلے جاتے ہیں، یوں ہماری زندگی عملی لحاظ سے کردار سے عاری بھی بنتی جاتی ہے اور غیر اسلامی نظریات کی حامل یعنی سیکولر وغیرہ قسم کی بھی بنتی جاتی ہے۔

ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو گھریلو اور رشتہ داری کے معاملات میں فیصلے کرتے وقت یہ سوچتے ہوں کہ ہمیں اسلام اس بارے میں کیا حکم دیتا ہے؟ اسی طرح پڑوسیوں سے تعلقات میں، کاروباری معاملات میں کتنے لوگ اس بات کو اہمیت دیتے ہیں کہ انھیں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟ اسی طرح اولاد کے مستقبل کے لیے جب ہم فیصلے کرتے ہیں مثلاً کس اسکول میں پڑھانا ہے؟ کیسی اور کس قدر تعلیم دینی ہے؟ کس ماحول میں بچوں کو تعلیم دلوانا درست ہے؟ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ جن غیر اسلامی ممالک میں اپنے بچوں کو پڑھائی اور بہتر مستقبل کے لیے بھیج رہے ہیں اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

چند روز پہلے ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک سیکولر ملک کے سفارت خانے نے مداخلت کرتے ہوئے ایک پاکستانی لڑکی کو اس کے والدین کی مرضی کے خلاف اپنے ملک واپس بلا لیا، کیونکہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بغیر نکاح کے زندگی گزارنا چاہتی تھی، جب کہ والدین اس عمل کے خلاف تھے اور اسی لیے اپنی بیٹی کو پاکستان لے آئے تھے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم فرعون کی زندگی اور انجام موسیٰ کا چاہتے ہیں، ہم کریلے کی بیل لگا کر انگور حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک اپنی زندگی کے بارے میں ہم دو ٹوک فیصلہ نہ کرلیں، نہ تو اس ملک میں کوئی اسلامی انقلاب آسکتا ہے نہ ہی یہ معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ آیئے مل کر غور کریں، بحثیت مسلم ہم اپنی زندگی کے کتنے فیصلے کرتے وقت یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنے زندگی بھی بحیثیت مسلمان جینی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔