ن لیگی حکومت 5 سال میں ایک بھی تجارتی معاہدہ نہ کر سکی

چین، ایران ترکی تھائی لینڈ کیساتھ ایف ٹی اے کیلیے مذاکرات شروع کیے گئے مگر حکومتی مدت کے دوران ایک بھی معاہدہ نہ ہوسکا


علیم ملک June 04, 2018
تجارتی خسارہ 30ارب ڈالر سے تجاوز،برآمدات میں 5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ فوٹو؛ فائل

مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے 5 سالہ دور اقتدار کے دوران ایک بھی تجارتی معاہدہ نہ کرسکی۔

مسلم لیگ ن کے دور میں چین، ایران ترکی تھائی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کیے گئے تاہم 5 برسوں میں ایک بھی تجارتی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ چین کے ساتھ پہلا آزاد تجارتی معاہدہ 2006-14کے دوران ہوا جس کا زیادہ فائدہ چین کو ہوا۔

موجودہ حکومت نے چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ دوم کے لیے مذاکرات شروع کیے تاہم ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ گزشتہ حکومت نے ترکی کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کیے اور پیش رفت نہ ہونے پر سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے ذاتی مداخلت بھی کی، ترکی کے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ افراد کی مخالفت کے باعث ترکی کے ساتھ معاہدہ نہ ہوسکا۔

مسلم لیگ ن کے دورمیں ایران کے ساتھ 5 سالہ اسٹریٹجک پلان پر دستخط کیے گئے تھے تاہم دونوں ممالک تجارتی فریم ورک معاہدہ ایک دوسرے کو شیڈول کے مطابق نہ بھجوا سکے اور ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ پاکستانی بینک ایران میں اپنی شاخیں کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان اور تھائی لینڈ کے درمیان اشیا کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا مگر بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی اور تھائی لینڈ کے ساتھ بھی معاہدہ نہ ہوسکا۔

دستاویز کے مطابق ملکی مصنوعات کی برآمدات کے فروغ کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش پر کام شروع کیا گیا اور وزیر تجارت خرم دستگیر اور پھر محمد پرویز ملک اورسیکریٹری تجارت محمد یونس ڈاھگا نے مختلف ممالک کے دوروں کے ریکارڈقائم کیے تاہم ملک کی پچاس فیصد سے زائد برآمدات صرف دس ممالک تک محدود رہیں جبکہ پانچ ممالک سے پچاس فیصد مصنوعات درآمد کی جارہی ہیں۔ جون 2013میں ملکی برآمدات 24ارب 51کروڑ ڈالر سے زائد اوردرآمدات 44ارب 95کروڑ ڈالر سے زائد تھیں۔ تجارتی خسارہ 20ارب 43کروڑ ڈالر سے زائد تھا۔

مسلم لیگ ن کے 5 سالہ دور کے اختتام پر اپریل 2017-18میں تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ برآمدات 19ارب 20کروڑ ڈالر اور درآمدات 49ارب 41کروڑ ڈالر سے زائد ہوگئی ہیں۔

حکومتی موثر سفارتکاری کے نتیجے میں یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس اسکیم کا جائزہ کامیاب ہوا اور یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس اسکیم کو مزید دوسال تک توسیع دی گئی جس سے ملکی برآمدات کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔

امریکا کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود امریکا کی جانب سے جی ایس پی اسکیم بحالی کر دی گئی۔ برآمدات کے فروغ کے لیے تین سالہ تجارتی پالیسی مرتب کی گئی تاہم اس پالیسی کے تحت متعین کردہ اہداف کا حصول ممکن نہ ہوا اور برآمدات ہدف کم سے اور درآمدات مقررہ ہدف سے زیادہ رہیں۔

وزارت تجارت نے نئی 5 سالہ تجارتی پالیسی کی تیاری پر کام شروع کیا اور اعلان کیاکہ تجارتی پالیسی تیار کرکے منظورکرائی جائے گی تاہم یہ محض ایک اعلان ہی رہا۔ اگر اس کارکردگی کا پاکستان پیپلزپارٹی کے دور سے موازنہ کیاجائے تو2008 میںزرمبادلہ کے ذخائر 6ارب ڈالر سے بڑھ کر 2013 میں 16ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ 2008میں برآمدات 18ارب ڈالر سے بڑھ کر 2012میں 29ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

پیپلز پارٹی کے 5 دور میں ٹریڈیونینز کو بحال کیاگیا۔ انڈسٹریل ورکرز میں اداروں کے حصص تقسیم کیے گئے۔ بینظیر ٹریکٹر اسکیم کے تحت کسانوں میں ٹریکٹرز تقسیم کیے گئے۔ توانائی بحران کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بھی صنعتی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور انڈسٹری ملک سے نکلنا شروع ہوگئی۔ 5 کے دوران اداروں کی ناقص کارکردگی کو بہتر کرنے کیلیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور اداروں کی اصلاحات کا ناگزیز پروگرام شروع نہ کیا جا سکا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں گوادر بندرگاہ چین کے حوالے کر دی گئی، نئے تجارتی معاہدوں کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں