اپنی اپنی مجبوری

برائیاں اور خرابیاں رگوں میں سرائیت کر رہی ہیں قوم کی اور قوم خوش ہے۔



میں خود اپنے شہر سے ایک اخبار ''حیدر آباد ویکلی'' ایڈٹ کیا کرتا تھا ۔ اس شہر کا جغرافیہ تاریخ سابقہ تو وہی ہے مگر "Set Up" بدلتا رہتا ہے۔ کبھی یہاں سے ناانصافی اور دھاندلیوں کے خلاف آوازیں کراچی کے ساتھ مل کر اٹھتی تھیں اور لیڈر حال مقیم لندن حیدرآباد کے رہنما کے دس نمبرکے بنگلے پر کئی روز قیام بھی کرکے گئے تھے۔

اس وقت جئے سندھ اور یہ جماعت آمنے سامنے تھی اور بے نظیر بھٹوکی سرپرستی کسے حاصل تھی۔ یہ واضح ہے اور حیدرآباد میں فائرنگ اور قتل عام بھی تب کی یادگار ہے اور شہر اور شہریوں کا جو مالی، جسمانی، ذہنی سوچ کا نقصان ہوا وہ آج تک برقرار ہے کیونکہ جب سے اب تک براہ راست ''کوٹہ سسٹم'' اور ''ذہنی کوٹہ سسٹم'' کے تحت ناانصافیوں کا سلسلہ جاری ہے ہر جگہ اور جن کی وجہ سے عام آدمی متاثر ہوا وہ عیش کرتے رہے۔ عیش کر رہے ہیں، عیش کرتے رہیں گے ہر دو جانب!

نہ یہ چھوٹی سطح کا معاملہ تھا نہ چھوٹے لوگ یہ کرسکتے تھے۔ سندھ کے امن کے خلاف یہ سازش ''بڑوں'' نے رچائی اور آج بھی بڑے ہی اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ کچھ شاعر، ادیب، تجزیہ کار و نگار بھی اس میں شامل رہے اور ہیں اور برملا اس کا اظہار کرتے ہیں، بھارت چلے جانے اور وہاں مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر قبضہ کرلینے والوں کو یاد کیا جاتا ہے اور سب کچھ چھوڑ کر یہاں آنے والوں سے عدم تعاون اور عدم اخلاص عام رویہ بن چکا ہے جس کا ہر ادارے میں مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

ہم بہت دور نہ نکل جائیں لہٰذا واپس آتے ہیں اپنے موضوع پر، تو ہم سرکاری ملازم تھے ریڈیو میں سینئر پروڈیوسر تھے۔ اعزازی طور پر یہ اخبار ایڈٹ کرتے تھے، اخبار پر نام عبدالرزاق مٹھانی کا ہوتا تھا، چیف رپورٹر الیاس میمن تھے۔ اس زمانے میں جئے سندھ بھی کئی دھڑوں میں بٹ گئی تھی جو آج کل ایک اور جماعت کا حال ہے۔ ہمارے ایڈیٹر اپنے اخبار کے دفتر میں خود ہی جھاڑو لگایا کرتے تھے۔ منظور چیمبر میں اوپر کی منزل میں سستے کرائے پر ایک کمرہ تھا اسے ہی دو حصوں میں تقسیم کرکے دفتر اور کتابت اور Pasting کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تو مٹھانی صاحب نے معمول کے مطابق صفائی شروع کی تو ایک لمبا چوڑا کلاشنکوف بردار شخص دفتر میں داخل ہوا اور گالی دے کر کہا، کدھر ہے ایڈیٹر؟

رزاق مٹھانی ایک غریب میمن اخبار کا شوق جو وہ محمد علی خالد کے اخبار زمین سے لائے تھے وہاں سے ہی ہم دوست بنے تھے اور میں نے ان کے شوق کو پروان چڑھایا، خیر ظاہر ہے ان کا دل تو تقریباً سینے سے باہر ہی آگیا، اس منزل پر اور کوئی دفتر بھی نہیں تھا، صبح کا وقت ساری منزلیں سنسان تو مٹھانی صاحب نے گھبرا کر کہا پتا نہیں، اس نے کہا کب آئے گا وہ؟ مٹھانی صاحب کا دوسرا جواب بھی وہی تھا پتا نہیں، اس نے پوچھا تم کون ہو؟ میں، میں نوکر ہوں، مٹھانی صاحب نے جواب دیا۔ پسینہ ان کے روئیں روئیں سے پھوٹ رہا تھا۔

وہ آدمی کرسی پر بیٹھ گیا، مٹھانی صاحب سوچ رہے تھے کہ اس کو چائے آفر کرکے چائے والے کو بلانے کا کہہ کر راہ فرار اختیار کریں اور کم ازکم شام تک لوٹ کر نہ آئیں کہ قسمت کی خرابی سے نعیم خانزادہ کاتب پہنچ گیا اور زور دار آواز میں کہا۔ السلام علیکم مٹھانی صاحب! کیا حال ہے، صفائی ہوگئی، ادھر؟ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مٹھانی صاحب کا کیا حال ہوگا۔ کاٹو تو خون نہیں سارا خشک۔

اس آدمی نے گھور کر مٹھانی صاحب کو دیکھا، مٹھانی صاحب نے سمجھا آج وقت آ پہنچا فوراً بولے ''سائیں آپ ناراض تھے میں نے سوچا کہ آپ سیڑھیاں چڑھ کر آئے ہیں، آرام کریں تو پھر پوچھ لوں گا کیا بات ہے'' ظاہر ہے وہ آدمی اب کیا کہتا اس نے اخبار دکھاتے ہوئے کہا یہ خبر ہماری ہے اور تصویر آپ نے ہمارے مخالف گروپ کی لگائی ہے۔ نعیم خانزادہ کی آمد نے مٹھانی صاحب کو یہ حوصلہ دے دیا تھا کہ اب وہ تاریک راہ میں اکیلے نہیں مارے جائیں گے لہٰذا انھوں نے صحافتی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الزام سلیم فوٹو گرافر پر رکھ دیا۔ سائیں یہ ہمارے فوٹو گرافر کی غلطی ہے، نعیم خانزادہ کاتب کے ساتھ Paster بھی تھا اور اخبار کی ضرورت بھی لہٰذا اس کی جان کو بھی خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا، رہتا بھی لطیف آباد دس نمبر میں تھا خطرناک ترین علاقہ ۔ میں بھی وہیں رہتا تھا۔

سلیم فوٹو گرافر، مجاہد فوٹو گرافر اور دوسرے ایک تقریب کی فوٹو بناکر مختلف اخبارات کو بیچا کرتے تھے تو یوں جان چھوٹی ان سے اصل تصویر لی تردید شایع کی اور پھر وہ گروپ حیدرآباد ویکلی کا مستقل خریدار بن گیا، اس کی خبریں اس اخبار میں مستقل ہوگئیں اور وہ ہر ہفتے سو کاپیاں لے کر اپنے کارکنوں میں تقسیم کرنے لگا۔

یہ تو خیر زندگی کے بہت سے دلچسپ واقعات میں سے ایک بیان کیا میں نے مگر حقیقت یہ ہے کہ میں بہت قلم برداشتہ بلکہ لوگوں کے لیے ''قلم نابرداشتہ'' ہوں اور ظاہر ہے کہ آپ سچ بولیں گے تو جھوٹے خداؤں کو تو برا لگے گا۔ آپ وہ تحریر نگار تو ہیں نہیں کہ آپ کو سرکاری خرچ پر ''سیر'' کرائی جائے اور آپ ہر ہفتے اپنا وژن تبدیل کرکے بھی بڑے لکھاری سمجھے جائیں۔ خدا اس روپ سے بچائے۔

اخبار اب خدمت خلق کم اور ''انڈسٹری'' زیادہ ہے بلکہ انڈسٹری ہی ہے اور اس کا برملا اظہار ایک اخبار کے ذمے دار عرصہ ہوا سپریم کورٹ کے باہر کرچکے ہیں ، دوسرے اخبار کے مالکان کو ایسا کہنے کا موقع نہیں ملا جب ملا یہی کہیں گے کاروبار تو فائدے کے لیے ہوتا ہے نقصان کون برداشت کرے۔ پھر بھی جو کچھ وہ چھاپ دیتے ہیں کم نہیں ہوتا اور میں اپنے لکھے کو ایڈٹ کرنے کو برا نہیں جانتا اخبار چلانا ابتدا میں مشکل اور بعد میں چاہے کچھ بھی منافع دے مشکل ترین ہوتا ہے کیونکہ آپ Best Wishes اور Welcome Vote کے پتے استعمال کرچکے ہوتے ہیں اور اب ہزاروں کارکنان کا مالک سے اخبار فروش تک پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔

قوم جس چیز کا نام ہے، وہ پاکستان سے باہر پائی جاتی ہے۔ یہاں تو سرتاپا لاقانونیت کے دلدادہ لوگ بستے ہیں۔ کار غلط پارک کرنے پر اگر پارکنگ اصولوں کے مطابق کارروائی کی جائے تو سابق اعلی افسر کے اہل خانہ کی لاقانونیت کو سپورٹ کرنے کے لیے حاضر سروس باوردی غلام قانون پر عمل کرنے والے پر تشدد کرتے ہیں اور ''غلط فہمی'' دور کردی جاتی ہے۔

امرا کے لاڈلے کسی کو جان سے ماردیں قانون کتابوں میں رہتا ہے کوئٹہ کے کانسٹیبل کو ایک اچکزئی نے مار ڈالا کیا ہوا؟ کچھ نہیں، قاتل صحافیوں کو بے شرم کہہ کر گزر گیا کیا ہوا کچھ نہیں، گھر سے کروڑوں روپے ناجائز نکلے کیا ہوا کچھ نہیں اور کہا جاتا ہے صوبے کو حقوق نہیں ملے لوگ ایوانوں میں عیش کر رہے ہیں۔

برائیاں اور خرابیاں رگوں میں سرائیت کر رہی ہیں قوم کی اور قوم خوش ہے۔ ظالموں، لیڈروں، مذہب کے نام پر دھوکہ دینے والوں سے خوش ہے، کبھی کتاب کا ڈرامہ، کبھی پگڑیوں کے ڈیزائن کا سلسلہ اور کبھی رنگوں کا، اور یہی پارٹی پرچموں کا تو ہم ایک قوم نہیں اور ایک اسلام کے پیروکار نہیں تو انجام بھی یہی ہوگا۔ ایڈٹ کرتے رہیں آپ مجھے آخر اخبار تو چھاپنا ہے۔ غریب کارکنوں کا پیٹ تو بھرنا ہے ، مجھے کہیں ''سیر'' پر نہیں جانا میں خوش ہوں پانچویں نمبر پر خوش ترین لوگوں میں سے ایک کہلا کر۔

نوٹ: یہ کالم سپرد قلم ہوا تو ایک شعر بھی وارد ہوا عرض ہے:

کشکول زدہ قوم کا تیشہ بھی کند ہے

منزل کے راستے میں ہر اک سمت دھند ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔