نگران حکومت

آئین کی کھلی خلاف ورزی، دھوکا دہی اور جعل سازی کرنے والے کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب ہونا چاہیے


اکرام سہگل June 06, 2018

THE HAGUE: سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں نگران حکومت جن مقاصد کی تکمیل کاحلف اٹھا چکی، ان میں سب سے پہلے آئین کے مطابق کار حکومت چلانا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کو 25جولائی 2018، یا کسی بھی تاریخ،کو آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے انتظامی مددفراہم کرنا، اس حکومت کے قیام کا دوسرا اہم ترین مقصدہے۔ امید ہے کہ اس دوران نگراں حکومت نہ صرف غیر جانبدار رہے گی بلکہ عمل سے بھی اپنی غیر جانب داری ثابت کرے گی۔

آئین کی کھلی خلاف ورزی، دھوکا دہی اور جعل سازی کرنے والے کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ دوسرا اہم اقدام یہ ہونا چاہیے کہ رخصت ہونے والی حکومت نے گذشتہ تین ماہ میں جو انتہائی غیر معمولی فیصلے کیے ہیں، انھیں فوری طور پر منسوخ کیاجائے۔ مثلاً وفاقی ملازمین کو تین ماہ کی تنخواہ کی پیشگی ادائیگی۔ اگر یہ انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے کھلے عام رشوت دینے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟ میں علی جہانگیر صدیقی کو ذاتی طور پر پسند کرتا ہوں، لیکن اس فیصلے کے قانونی نتائج و اثرات کے باجود امریکا میں ان کی بطور سفیر تعیناتی بھی حدود سے تجاوز ہے۔حال ہی میں ڈی ایم جی افسران کی جانب سے، شریف خاندان کے منظور نظر، باصلاحیت مگر کرپٹ ترین بیوروکریٹ احد چیمہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف ہونے والا احتجاج پیش نظررہے۔

احد چیمہ کی پراڈو ایک شوروم میں کھڑی پائی گئی جس سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ کی نقدی برآمد ہوئی۔ پنجاب میں کارِ سرکار کو ''قلم چھوڑ'' ہڑتال کے ذریعے معطل کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کے خلاف کیاکارروائی ہوئی؟ کوئی بھی انتظامی بحران ملک میں لیبیا،شام اوریمن وغیرہ جیسے انتشارکاباعث بن سکتا ہے۔کیا ایسے بیوروکریٹس کو ان کے عہدے پر برقرار ہنے دینا چاہیے، تاکہ وہ انتخابات پراثر انداز ہوسکیں اور آیندہ منتخب ہونے والوں کا ''کاروبار حکومت'' معمول کے مطابق جاری و ساری رہے؟احتساب جمہوریت کے لیے اولین شرط کا درجہ رکھتا ہے۔قانونی پیچیدگیوں پرہی توجہ مرکوزرکھی گئی توبہت کچھ داؤپرلگ جائے گا۔ جن افسران کی غلط کاریوں کے خلاف ظاہری ثبوت بھی دستیاب ہیں، کم از کم قانونی کارروائی کے حتمی نتائج آنے تک انھیں معطل کردینا چاہیے۔

ہمارے منتخب نمایندوں کے ساتھ تیزی سے بدعنوان ہوتے میڈیا کو بھی اسی صف میں شامل کیا جائے، جو عدلیہ اور افوج پاکستان پر کیچڑ اچھال کر اپنی تسکین کا سامان کررہا ہے۔ حکومت کی اخلاقی حیثیت درحقیقت تباہ ہوچکی، اب جمہوریت کی ساکھ بھی خطرے میں ہے۔ قومی سلامتی محض بیرونی جارحیت کے خلاف سرحدوں کی حفاظت اور داخلی انتشارسے مقابلے کا نام نہیں، سماج کے وجود کو منتشر کرنے والے خطرات کی نگہبانی کون کرے گا؟

جس بے پروائی سے میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں نے قانون کی تذلیل کی ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے وہ ملک میں جنگل کاقانون لاناچاہتے ہیں۔ مسلسل انھوں نے افواج پاکستان کو نشانے پررکھ کر تصادم کی پالیسی کیوں اختیار کررکھی ہے؟ مریم نواز نے گوئبلز کے انداز میں ''کیلبری فونٹ'' سے عیاں ہونے والی جعل سازی سے نظریں ہٹانے کے لیے دروغ گوئی کا ایسا بازار گرم کیے رکھا کہ شایداب انھیں خود بھی اپنی بے گناہی کا یقین ہوچلا ہے۔ انھوں نے اور ان کے والد نے تصادم کی جو روش اختیار کررکھی ہے وہ تباہ کن ثابت ہوگی، کہا جاتا ہے '' جب خدا کسی کو تباہ کرتا ہے تو اس کی عقل سلب کرلی جاتی ہے۔''

نگران حکومت کو نیب کی بھرپور مدد کرنی چاہیے، اس ملک کے غریب عوام کا بہت کچھ داؤ پر لگ چکا، بدعنوانی سے بٹوری گئی دولت اب قانون کی گرفت میں آنی چاہیے، اس لیے بھی کہ منی لانڈرنگ منظم جرائم کی مالی معاونت کا ذریعہ ہے جن کی مدد سے قتل و غارت اور دہشت گردی جیسے عفریت پاؤں جماتے ہیں۔ یہ بات عوامی تشویش کا باعث ہے کہ دولت کے انبار جمع کرنے والے جرائم پیشہ عناصر سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لی گئی تو خدشہ ہے کہ وہ اقتدار کی راہداریوں میں اپنی واپسی کے لیے یہی دولت استعمال کریں گے، ماضی میں ایسے سنگین خدشات درست ثابت ہوتے رہے ہیں۔ پورے عزم و ارادے کے ساتھ قانونی عمل کو مسلسل تاخیر کا شکار کرنے والے عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے سوچ سمجھ کرفیصلے کرنے چاہیں۔ غلط راستے کا انتخاب ، اور وہ بھی اس وقت جب غلط کو درست کرنے کی جلدی بھی ہو، صرف صورت حال کو مزید پیچیدہ کرنے کا باعث بنے گی؟

انتخابات ساٹھ روز کے اندر 25جولائی 2018 کو ہونا طے پائے ہیں، اس موقعے پر راقم کی تقریباً 25برس قبل پیش کردہ اس تجویز پر ایک نظر ڈالیے، جو ''نوّے جمع نوّے فارمولا'' کے زیر عنوان کالم میں 5دسمبر 1996کو شایع ہوئی تھی، ''یہ انتہائی معنی خیز اقدام ہوگا اگر کم از کم منتخب ارکان کی اکثریت کا احتساب مکمل ہونے تک اسمبلی کا اجلاس اگلے 90روز میں طلب نہ کیا جائے۔ اسی طرح یا تو صدر سپریم کورٹ کو بعد از انتخابات نوے روز کی مدت فراہم کرنے کے لیے ریفرینس بھیج سکتا ہے یا نگراں حکومت خود عدالت سے یہ ریلیف حاصل کرسکتی ہے، اور اس شرط کے ساتھ کہ اس دوران صدر کی جانب سے جاری ہونے والا کوئی آرڈیننس اسمبلی کے اجلاس کے 30دن بعد تک نافذ العمل رہے گا۔

اگر احتساب کے لیے 90روز سے زیادہ کی ضرورت محسوس ہو تو یہ مدت انتہائی محدود ہونی چاہیے تاکہ نگراں حکومت کہیں اسی طرح تاریخ میں توسیع کرتی رہے جس طرح جنرل ضیا نے ''نظریہ ضرورت'' کے تحت ''عوامی امنگوں کے مطابق'' مدت کو بڑھاتے بڑھاتے خود کو مستقل کرلیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس کے دوام کی خواہش ضرور پیدا ہوتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ عوام کی اکثریت مختصر وقت میں انتخابات اور احتساب دونوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔''

احتساب کے لیے بلاشبہ وقت درکار ہوتا ہے، اور اگر خزانے کی لوٹ مار کا معاملہ ہو یا قوم کو مالیاتی اداورں کے سامنے محتاج محض بنادینے کا جرم تو صورت حال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے، اس وقت ملک کے اہل دانش اس بحث و مباحثے میں مصروف ہیں کہ انتخابات پہلے ہونے چاہیں یا احتساب۔ تاہم اس ملک کے لیے آئین میں جمہوری عمل کی تجدید کے لیے بیان کردہ عمل سے بڑھ کر کوئی شے اہم نہیں ۔ غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر انتخابی تاریخ و مقام میں تبدیلی کی جاسکتی ہے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے انتخابات آئین کی بالادستی کے تقا ضوں کے عین مطابق ہوں اور اس بالادستی کے تسلسل کا باعث بھی۔

(فاضل کالم نگار دفاع اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں