تیزی سے ابھرتے بحران
پاکستان میں اس وقت چومکھی لڑائی میں پھنسا ہوا ہے۔
اگلے عام انتخابات کی آمد آمد ہے ۔ سیاسی جماعتیں انتخابی منشورکی تیاری میں مصروف ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تیار کیے جانے والے منشور حسب سابق روایتی وعدوں وعیدوں پر مشتمل ہوتے ہیں یا ان میںملک کو درپیش سنگین مسائل کے ٹھوس اور پائیدار حل بھی شامل کیے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر پانی کا گہرا ہوتا بحران ، ماحولیاتی تغیرات کے بچائو، اختیارات کی حقیقی معنی میں نچلی سطح پر منتقلی کے لیے اقدامات ، اس وقت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کی 70فیصد آبادی جو محنت کش طبقات پر مشتمل ہے، اس کے مسائل کے حل کے لیے کیا حکمت عملی ان منشوروں میں شامل کی گئی ہے۔
پاکستان میں اس وقت چومکھی لڑائی میں پھنسا ہوا ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ ملک کے منصوبہ ساز ادارے ہوں یا اسٹبلشمنٹ یا پھر سیاسی جماعتیں، کوئی بھی نوآبادیاتی نفسیات اور سرد جنگ کی تزویراتی سوچ سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ۔ اسٹبلشمنٹ اکہتر برسوں سے اقتدار واختیار کے تمام مراکز پر مضبوط گرفت کی خاطر سیاسی عمل کوتابع رکھنے میں اپنی توانائیاں ضایع کر رہی ہے ۔
دوسری طرف سیاسی جماعتیں احساس کمتری اور احساس محرومی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ جس سیاسی جماعت نے جب کبھی بھی خود کو Assertکرنے کی کوشش کی، اس کا ناطقہ بند کر دیا گیا۔ ایسی صورتحال میں ملک اور عوام کو درپیش حقیقی ایشو پر توجہ دینے کے بجائے یہ جماعتیں خود کو بچانے کی جستجو میں لگ جاتی ہیں ۔
لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان رویوں کے باعث ملک ترقی معکوس کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے اور تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف سرک رہا ہے، مگر ان حقیقتوں کا یا تو صحیح معنی میں مقتدر اشرافیہ کو ادراک نہیں یا پھر محض اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ان سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک کو جن چند حساس نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے، ان کی جانب سے ابھی تک کوئی سنجیدہ سوچ سامنے نہیں آئی ہے، جس کی وجہ سے ان کے تدارک کی مناسب حکمت عملی نہیں بن پا رہی۔ اس وقت جو مسئلہ جو اب بحرانی شکل اختیارکر چکا ہے، وہ پانی کا تیزی سے سر اٹھاتا بحران ہے۔
دوسرا بحران موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں جنم لینے والے وہ مسائل ہیں، جن کے نتیجے میں غذائی قلت کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ غذائی پیداوار میں کمی کی وجہ ایک تو موسمیاتی تغیر ہے، دوسرے پانی کی تیزی سے بڑھتی کمیابی ہے۔موسمیاتی تغیرات کے باعث مختلف نوعیت کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں کینسر، ذیابیطس، دل، جگر اور گردوں کی بیماریاں خاص طور پر اہمیت کی حامل ہیں، مگر ملک میں صحت مراکز اور اسپتالوں کی شدید قلت ہے۔ جو اسپتال موجود ہیں ان میں جدید طبی سہولیات کا فقدان ہے، مگر اس جانب کوئی توجہ دینے اور اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی فعال اور متحرک حکمت عملی تیار کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔خواندگی کی تشویشناک شرح اور تعلیمی معیار کی پستی کے بارے میں اب تک سیکڑوں اظہاریے تحریر کیے جا چکے ہیں، مگر کسی کے کان پر اب تک جوں تک نہیں رینگی ۔
اس وقت جو مسئلہ ملک کی بقا اور عوام کے لیے موت اور زندگی کا مسئلہ بنا ہوا ہے، وہ پانی کا شدید سے شدید ترہوتا بحران ہے ۔ یہاں گلف نیوز میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ قارئین کے ساتھ شئیرکرنا چاہیں گے ۔ اخبار کے مطابق پاکستانی ذرایع ابلاغ کی شہ سرخیاں معروف شخصیات کے اسکینڈلوں، سیاسی چپقلشوں اور کرکٹ میں ہونے والی کامیابیوں سے مزین ہوتی ہیں ۔ اسی طرح ان کالموں کو اہمیت دی جا رہی ہوتی ہے، جو سطحی نوعیت کے اسکینڈلوں کو نمک مرچ لگا کر انتہائی عامیانہ انداز میں پیش کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ملک کو درپیش اہمیت کے حامل ایشوز خاص طور پر سنگین شکل اختیار کرتے معاملات و مسائل سے انتہائی غیر سنجیدگی کے ساتھ صرف نظر کیا جارہا ہے۔ جس سے پاکستانی ذرایع ابلاغ کی غیر سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ ترقیاتی پروگرام(UNDP) اس صدی کے آغاز سے پاکستانی حکمرانوں کو متنبہ کرتا چلا آرہا ہے کہ ملک تیزی کے ساتھ آبی بحران میں مبتلا ہونے جا رہا ہے، مگر ان 18برسوں میں سوائے اقتدار کی رسہ کشی، اسکینڈلوں اور بھارت فوبیا میں مبتلا حکمران اشرافیہ نے اس جانب توجہ دینے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ عالمی ادارے ایک سے زائد مرتبہ یہ بتا چکے ہیں کہ ملک میں صرف39 فیصد آبادی کو بمشکل تمام پینے کے صاف پانی تک رسائی ہے ۔ اسی طرح پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) نے کوئی دس برس پہلے متنبہ کر دیا تھا کہ ملک کے2025کے آنے تک بدترین آبی بحران میں مبتلا ہونے کے شدید امکانات ہیں، مگر اس ادارے کی تحقیق پر بھی کسی نے کان دھرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک دنیا کے بدترین آبی بحران کے شکار ممالک میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت ملک کے ذرایع ابلاغ اور سیاسی و سماجی تقریبات میں جن موضوعات پر دلچسپی کے ساتھ بحث کی جاتی ہے، وہ یہ کہ اگلے انتخابات میں کس جماعت کو کامیابی حاصل ہوگی؟ کیا میاں نواز شریف خلائی مخلوق کو بوتل میں بند کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں؟ملک میں نئے انتظامی یونٹوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟ لیکن ملک بنجر ہو رہا ہے، پانی ختم ہو رہا ہے، موسمیاتی تغیرات آنکھیں دکھا رہے ہیں، اس کی کسی کوفکر نہیں ہے۔
سندھ کی تقسیم کی بات کرنے والوں پر لعنت بھیجنے والے سندھ کو بنجر ہونے سے بچانے کے لیے کسی بے تابی کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ بلکہ اس سے بے نیاز اگلے انتخابات کو لسانی منافرت اور آویزش کی بنیاد پر جیتنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی طرح پورے ملک میں گرمی کی شدت میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ کراچی جیسے معتدل موسم کے شہر میں گرمی کی شدید لہروں(Heat Waves)کی تعداد اور شدت میں کیوں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے؟ اس پر گفتگو کرنے اور ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کی نہ حکمرانوں کو فرصت ہے اور نہ ہی ذرایع ابلاغ کو ان موضوعات پر گفتگو سے اچھی ریٹنگ ملنے کی توقع ہے،اس لیے ان معاملات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
معاملہ یہ کہ جس ملک کے حکمران ٹھوس کچرا(Solid Waste) ٹھکانے لگانے کی صلاحیت سے محروم ہوں، انھیں کیا معلوم کہ Global Warming کیا بلا ہے، یہ کیوں پیدا ہو رہی ہے اور اس سے بچنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں ۔ جس ملک کے سب سے بڑے شہر میں شاہراہوں کے اطراف کچرے کو آگ لگائی جاتی ہو، اس سے بڑی جہل آمادگی اور کیا ہوسکتی ہے؟ کیونکہ ایک طرف دھواں سڑک پر چلنے والی ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ ڈالتا ہے، تو دوسری طرف فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ تقریباً پورے ملک میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگانے کی کوئی فعال حکمت عملی نہیں ہے۔
عرض ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت عقیدے اور نسلی و لسانی تفاوت اورآئین کے آرٹیکلز62اور63کی فروعی بحث سے نکل کر ملک کو درپیش نئی عفریت سے بچانے کی حکمت عملی پر خصوصی توجہ دے ۔ ہمیں امید ہے کہ ہر سیاسی جماعت جو انتخابی عمل کا حصہ بننے جارہی ہے ، ان اہم اور ترجیحی مسائل کو اپنے منشور میں اولین جگہ دیں گی۔ ذرایع ابلاغ سے بھی یہ توقع ہے کہ وہ بھی ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر نشر اور شایع کریں گے۔