ریحام کی کتاب کا مصنف کون
کتاب کا شور تو کچھ عرصے بعد تھم جائے گا۔ البتہ ایسے میں جب فضا بن رہی ہے، تخت تک رسائی امکانی معلوم ہوتی ہے۔
ان پڑھوں کی بستی میں حیرت انگیز واقعہ: سوچیے تو، جس ملک میں کتابیں بے وقعت ٹھہریں، پڑھنا لکھنا وقت کا زیاں قرار پائے، وہاں کے سیاسی و سماجی منظر پر آج دو کتابوں کا تذکرہ سیاہ بادلوں کی طرح منڈلا رہا ہے۔
ایک کتاب ہے اسد درانی کی، جو سابق آئی ایس آئی چیف ہیں، دوسری ہے ریحام خان کی، جو عمران خان کی سابق اہلیہ۔ پہلے پہل اسد درانی کی کتاب وائرل ہوئی۔ سابق را چیف کے اشتراک سے لکھی گئی یہ کتاب واٹس ایپ کے ذریعے ان صارفین کے اسمارٹ فونز تک بھی پہنچ گئی، جن کے دلوں میں شایدکبھی کوئی ایک کتاب پڑھنے کی خواہش نہ لپکی ہو۔ کتاب کے مندرجات، اقتباسات پر خاصی لے دے ہوئی۔ درانی صاحب کو تقریب رونمائی کے لیے بھارت کا تو ویزا نہ ملا۔ البتہ جی ایچ کیو میں ضرور طلب کیے گئے۔ نام ای سی ایل میں ڈالا گیا، تحقیقات شروع ہوگئیں۔
مگر جب سے ریحام خان کی کتاب کی گڈی چڑھی ہے، درانی صاحب کی کتاب ذہن سے محو ہوگئی، گوگزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے اُس کا خصوصی تذکرہ کیا۔
معاملہ یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب کے جو مبینہ مندرجات و اقتباسات گردش میں ہیں، اُن میں، متنازع ہونے کے باعث ،عوام کے چسکے کا خاصا سامان ہے ۔ اچھا، یہ سوال اہم کہ یہ مندرجات حقیقی ہیں بھی یا نہیں؟
پی ٹی آئی کے نمایندوں، ترجمانوں (فواد چوہدری، حمزہ علی عباسی، سلمان احمد وغیرہ) کے بیانات اور عاید کردہ الزامات کی ریحام خان کی جانب سے دوٹوک انداز میں تردید نہ ہونا، بلکہ آخر الذکرکی اول الذکر پر کتاب چوری کا الزام تھوپ دینا اشارہ ہے کہ جو کتاب لکھی گئی، اس کا کچھ حصہ واقعی لیک ہوگیا ہے یا کیا گیا ہے۔
کتاب لکھنا ریحام خان کا حق، اس پر روک نہیں لگائی جا سکتی ہے۔ البتہ جو حصے تیرتے پھر رہے ہیں، اگر وہ حقیقی ہیں، توپھر کہنا پڑے گاکہ عمران خان، ان کے دوستوں اور پارٹی ارکان پر انتہائی سنگین اور حساس نوعیت کے الزامات عاید کیے گئے ہیں، جن میں فرقہ واریت، اسقاط حمل سے ہم جنس پرستی تک کے انکشافات شامل۔گویا مسالا بھرپور ہے۔
اچھا، عین ممکن ہے کہ ایسا ویساکچھ نہ ہو، یہ فقط قیاس ہو اور ہو بھی تو اتنا شدید نہ ہو، مگر ٹی وی چینلز پر ہونے والی تو تو میں میں، ریحام کی جانب سے واضح تردید نہ ہونا یہ خبر دیتی ہے کہ کتاب میں ''دھماکا خیز مواد'' موجود ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے ن لیگ پر اس کتاب کی پشت پناہی کا الزام عاید کیا جا رہا ہے۔بھولے بادشاہ، اب کسی سے آپ کی دشمنی ہو، اُسے موقع ملے، توکیا وہ درگزر سے کام لے گا؟ اگر کل عمران مخالف جماعتیں اس کتاب کی، اسد درانی کی کتاب کے مثل، پی ڈی ایف تقسیم کرتی ہیں، تو یقیناً اردو اسکرپٹ بھی دستیاب ہوگا، تاکہ بات دُور تک جائے۔
راقم کے نزدیک اس معاملے میں قصور وار خود خان ہے، جس کے فیصلوں کی ٹائمنگ نے بہت سوں کو مایوس کیا۔ جب انتخابات لڑنے کا وقت تھا،کپتان نے بائیکاٹ کر دیا، جب پارلیمنٹ میں جانے کا لمحہ آیا، دھرنے کا راستہ اختیار کیا، جب اچھی شہرت کے حامل افراد کو اکٹھا کرنے کی ضرورت تھی، متنازع اور کم فہم افراد کو پارٹی میں شامل کر لیا۔
ٹائمنگ کا مسئلہ ریحام سے شادی کے معاملے پر عیاں ہوگیا۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے فوراً بعد شادی کرنا، پھر تاریخ چھپنا اِس کا ثبوت کہ تبدیلی کے داعی کو سیاستداں کی شخصیت سے جڑی سنگینی کا ادراک نہیں۔ تیسری شادی نے اس مسئلے پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔ اس کی تاریخ بھی متنازع ٹھہری۔ یوں فقط مایوسی بڑھائی، سمجھ لیجیے، خان کے یہ بے ڈھنگے فیصلے ہی ریحام کی کتاب کے اصل منصف ہیں۔
کتاب کا شور تو کچھ عرصے بعد تھم جائے گا۔ البتہ ایسے میں جب فضا بن رہی ہے، تخت تک رسائی امکانی معلوم ہوتی ہے، امپائر بھی انگلی اٹھا چکا، مناسب یہ ہی ہے کہ فوری اِس مستقل مسئلے کا سد باب کیا جائے۔کیونکہ سیاست میں ٹائمنگ ہی اصل چیز ہے۔
طلال، نہال اور ملال: جس زمانے میں پاناماکیس سپریم کورٹ میں لگا تھا، جے آئی ٹی کے سامنے شریفوں کی پیشی کا سلسلہ شرو ع ہوا، تب نہال ہاشمی نے بڑے ہی جذباتی اور فلمی انداز میں میاں صاحب کے لیے آواز ''کھڑکائی'' تھی۔ ججز کو انھوں نے جس دھمکی آمیز ڈھب پر مخاطب کیا تھا، وہ بے ڈھب اور قابل مذمت تھا۔
عدالت میں پہنچے، تو فرمانے لگے: ''میں نے توکسی کی توہین نہیں کی'' جیل گئے، تو بیمار پڑ گئے۔ لوٹے، تو ہار پہنے، مٹھائی کھائی، اور ججز کے خلاف مزید سخت زبان استعمال کی۔ اس بار منصف اعلیٰ کے سامنے آئے، تو لگے کہنے ''جناب، میں تو ایکٹنگ کر رہا تھا۔'' افسوس ناک واقعات کا ایک بیزار کن تسلسل ہم نے دیکھا۔
نہال ہاشمی یقیناًایک محنتی، مخلص اور اپنے قائد سے محبت کرنے والے کارکن ہوں گے، مگر سچ یہی ہے کہ میاں صاحب کی نظر میں آج کل سندھ کے نہال سے زیادہ دانیال اور طلال اہم ہیں۔ وہ، جو کل تک ن لیگ کا حصہ نہ تھے، آج کوٹ اور ٹائی پہنے ان کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہی ہیں، جن سے مسلم لیگ کے نئے صدر، شہباز شریف نالاں رہے۔
ادھر4 جون کو احتساب عدالت کے باہر ایک کرب ناک منظر دیکھا۔ جس قائد کی اولاد کے لیے نہال ہاشمی مخالفین کے بچوں پر زمین تنگ کرنے والے تھے، جب اپنے اُس قائد سے ہاتھ ملانے کو وہ آگے بڑھے، تو بدنصیبی آڑے آئی۔گارڈز نے بے رحمی سے جکڑ لیا، میاں صاحب آگے بڑھ گئے۔ البتہ کیمرے نے یہ بھونڈے مناظر محفوظ کر لیے۔ ا س سے مسلم لیگ سندھ کی حالت زار کا اندازہ ہوتا ہے۔ جو قیادت کی توجہ کی منتظر ہے۔
ایک طرف طلال چوہدری ہیں، جنھوں نے ججز کو بت کہنے کے بعد چپ سادھ لی، ایک طرف نہال ہاشمی، جو جذبات کے ریلے میں بہتے چلے گئے اور آخر میں گارڈز کے بازوئوں میں دیکھے گئے۔ افسوس۔
دل کی کتاب:کل اپنی کتابوں کوترتیب دیتے ہوئے یکدم وہ کتاب سامنے آگئی، جو دو عشرے قبل اُس شخص کے کتب خانے سے ملی تھی، جس نے ہجرت کے بعد پنوعاقل کو مسکن بنایا، اُدھر پرائمری اسکول کی بنیاد رکھی، جسے مقامی ماسٹر مبین کہہ کر پکارتے تھے۔میں اسی ماسٹر مبین کی دوسری نسل ہوں اور جو کتاب مجھے اس سہ پہر ملی، وہ تھی راحت القلوب۔ بابا فرید گنج شکر کے ملفوظات، جس میں جا بہ جا ان کے نوٹس تھے۔ ایسی کتاب کا ہاتھ آنا، ایک بیش قیمت یاد ہاتھ آنے کے مانند ہے، جس کا کوئی بدل نہیں۔