ریحام نامہ
ریحام خان کی کتاب کے بارے میں دو سال پہلے ہی رانا ثناء اللہ اور حنیف عباسی کو بھی پتہ تھا۔
یوں لگتا ہے کہ جیسے قدیم بغداد کے بازار کا سا سماں ہو، جہاں سے گزر تھا ہر ایک کا۔ اشرفیوں کی تھیلیاں تھیں، دکانوں کی قطاریں تھیں اور بیچ راہ پر کسی کی پگڑی اچھلتی تو کسی کی سنبھلتی تھی۔ بھرے بازار میں رسوائیاں ملتی تھیں، انگلیاں اٹھتی تھیں۔ قصے کہانیاں، قصیدے بنتے تھے۔ بغداد کے ان ہی چوراہوں سے گزرا تھا منصور حلاج اور سرمد، جو دہلی کی جامع مسجد کے بڑے دروازے پر برہنہ بیٹھتا تھا۔ اسے کسی سے غرض نہ تھی۔ اور اس بے غرضی سے وہ حق کا پرستار ہوگیا۔ سچ کا پرستار ہوگیا۔ اہل سخن اگر اپنے قلم سے سچ رقم نہیں کر پاتے تھے تو ان کے مداح کم ہو جاتے تھے۔
ریاست اس وقت بھی تھی اور آج بھی ہے۔ شرفاء ان زمانوں میں بھی ہوا کرتے تھے اور آج بھی ہیں، رعایا کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ بہت یکساں ہوکر بھی بہت کچھ مختلف ہے۔ آج کے بازار اور کل کے بازار میں۔ مگر بنیادی نکتہ وہی ہے۔
سماج کے ٹوٹنے سے خود سماج بکھرتا ہے۔ اسی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ریاستیں ٹوٹیں بھی اور بکھریں بھی۔ اور ایسا بھی ہوا کہ سماج سے ایک نئے سماج نے جنم لیا، مگر ریاست نہ ٹوٹی۔ ان بازاروں میں بنیادی شے ایک ہی ہے لیکن طرح طرح کے لبادے اوڑھ لیے ہیں، طرح طرح کی دریافتوں و ایجادات نے ایک ایسے عام آدمی کو جنم دیا ہے جس کے پاس اتنا کچھ دیکھنے کو ہے کہ نہ تو رومن ایمپائر کے کسی ایمپیریئر کے پاس اور نہ مغلیہ سلطنت کے کسی شہنشاہ کے پاس تھیں۔ وہ گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سواری کرتے تھے اور میلوں کے سفر پیادہ طے کرکے اپنی منزل تک پہنچتے تھے۔ اور آج کے عام آدمی کے پاس بھی سواری کے لیے (اگر لاہور ہے تو) اورینج ٹرین ہے اور اسلام آباد ہے تو میٹرو بس۔
لیکن آج آدمی اپنے اقدار گنوا بیٹھا ہے۔ وہ آدمی سے زیادہ صارف بن گیا ہے۔ اسے موبائل فوں چاہیے تھا، اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ درکار تھا۔ یہ سوشل میڈیا، واٹس اپ، فیس بک جیسے کوئی بازار بن چکے ہوں۔ یہ ٹاک شوز اکھاڑے اور خبریں جیسے جھوٹ کا پلندہ بن چکی ہوں۔ فاکس نیوز کی نفرتوں کے بیانیہ نے ٹرمپ کو جنم دیا۔ ہندوستاں مودی کے حوالے ہوگیا۔ روس پوتن کے اور ترکی اردگان کے۔ ہم نے وہی کچھ خریدا جو بازاروں میں بکتا تھا۔ جھوٹ بکتا تھا ہم نے جھوٹ خریدا، ہم آدمی سے صارف جو بن گئے۔
میں نے واٹس ایپ پر چھوٹی سی کلپ دیکھی۔ ایک بچہ ڈائپر پہن کر ٹی وی اسکرین کے سامنے کھڑا تھا اور ٹی وی پر ایک شخص طرح طرح کے پوز بنا رہا تھا، وہ بچہ بھی بالکل اسی کو کاپی کرتا۔ لیکن وہ بچہ تھا۔ اگر ہم بھی وہی کریں جو ٹی وی پر دکھ رہا ہو تو کیا فرق رہ جاتا ہے۔ یوں تو ہمارے نظریات بھی ہیں اور مزاج بھی مگر کسی ایک سطح پر آکر ہم پروپیگنڈہ کا، فیک نیوز، مبالغہ آرائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آخر ہم آدمی سے سفر کرکے صارف جو ٹھہرے۔
کل کے بغداد میں بازار جانا پڑتا تھا پا بہ جولاں، خچر ہو، گھوڑا یا پھر پالکی پر۔
لیکن اب بازار جیسے آپ کے گھر کے آنگن میں ہو۔ یا یوں کہیے کہ جیسے آپ بازار میں ہی رہتے ہوں۔ آپ نے اپنے خیمے وہیں گاڑ دیے ہیں۔ اس بچے کی طرح جس نے ڈائپر پہن رکھا تھا۔ ہمارے تن بدن پر جیسے ایک پیرہن ہو جس سے سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔ ہم سب جیسے نیم برہنہ ہوں۔ اتنے کیمرہ ہیں اردگرد کہ ہر پل یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ اور اگر ہماری ایک ویڈیو وائرل ہوجائے تو زندگی بھر کی نیک نامی پانی میں۔ ہم خبر دیکھ رہے تھے مگر خود خبر بن گئے۔ ہم یہیں، وہاں جہاں شکاری خود شکار ہوجاتا ہے۔ مدعی خود گواہ اور قاتل خود مقتول ہوجاتا ہے۔ یہاں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔
ہم صارف کی حد سے بھی نکل کر اب کٹھ پتلی بن چکے ہیں۔ ہماری دانش و سوچ، ہماری باریک بینی اور ہمارے ادراک کرنے کی صلاحیت، اچھے اور برے کی پہچان اور حقیقت تک پہنچنے کی صلاحیت اب سب ریزہ ریزہ ہے۔
اس بازار میں کل پاناما تھا پھر اقامہ آیا اور اب سنا ہے ریحام نامہ آرہا ہے۔ کل ''مجھے کیوں نکالا'' تھا اور آج پگڑی اچھال وے جٹہ۔ مجھے خان صاحب سمجھ نہیں آتے، نہ ان کی سیاست، مگر ان کو سیاسی طرح سے ایک سیاسی جواب دینا چاہوں گا لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی میں کیا ہیں کیا نہیں، یہ ان کی ذاتیات کا حصہ ہے، وہ دل تھامتے ہیں یا سبزی کھاتے ہیں، یہ ان کا فریڈم ہے۔ وہ کرتا شلوار پہنتے ہیں یا انگریزی لباس، یہ ان پر منحصر ہے۔
مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ مجھے غرض ہے جب وہ مولانا سمیع الحق کو اکوڑہ خٹک مدرسہ کے لیے فنڈز دیتے ہیں، وہ لبرلز کو پاکستان کا غدار کہتے ہیں، مگر بحیثیت لبرل میں ان کا دفاع اس حد تک ضرور کروں گا کہ ریحام نامہ، خان صاحب کے اوپر ان کے دشمنوں کا ایک ایسا وار ہے جو کہ الیکشن کے دور میں ان کی مقبولیت پر اثر ڈال سکے۔ ایسے کئی فائول خود خان صاحب نے کھیلے ہیں اور ایسے بہت سے فائول بال کی ٹیمپرنگ وہ آگے بھی کریں گے۔ اور میں اس وقت ان کی حرکات کو سیاسی سوچ سے دیکھوں گا، کوئی اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کروں گا۔
ریحام خان نے ایک تصویر حسین حقانی سے بھی کھنچوالی۔ ریحام خان کی کتاب کے بارے میں دو سال پہلے ہی رانا ثناء اللہ اور حنیف عباسی کو بھی پتہ تھا۔ چار چار شادیاں تو شہباز شریف نے بھی کی ہیں۔ کل اگر کوئی ان پر کتاب لکھ دے My Industerialist Lord کے نام سے۔ اگر ریحام خان کی شادی نہ ٹوٹتی تو کیا ریحام خان یہ کتاب لکھتیں۔ ایک سوچ جمائمہ کی بھی ہے مگر اس نے کوئی کتاب نہ لکھی، کیوں کہ اسے پیسوں کی لالچ نہ تھی، اسے شہرت کی بھوک نہ تھی۔ ریحام خان، عمران خان میرا لیڈر نہیں ہے، مگر میں صارف بھی ہوں، میں کٹھ پتلی نہیں۔ میں اس بچے کی طرح بھی نہیں جو ڈائپر پہن کر ٹی وی کو کاپی کر رہا تھا۔
میں پل دو پل کا مسافر ہوں، پل دو پل کو پرکھتا ہوں اور اس پل دو پل کو، پل دو پل میں جیسا ہے ویسا لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔